بی ایس او تربت زون کی جانب سے تربت یونیورسٹی میں ”بلوچ نیشنلزم“ پر اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا جس میں مرکزی سیکریٹری اطلاعات نے لیڈ آف دی۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری تربت زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن تربت زون کی جانب سے ”بلوچ نیشنلزم“ کے عنوان سے ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا جس میں بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فرید مینگل نے لیڈ آف دی۔

مرکزی رہنما نے گفتگو کرتے ہوٸے کہا کہ یوں تو بلوچ اس دھرتی پر گزشتہ گیارہ ھزار برس سے آباد ہیں اور اس کے شواہد مہر گڑھ کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں، گوکہ سامراج کے مقامی گماشتوں نے بلوچ تہذیب کی نشانیوں پر بلڈوذر دوڑاٸے اور انہیں سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بلوچ کی دھرتی سے بلوچ کو غاٸب کرنا کسی کے بَس میں نہیں رہا۔ بلوچ نے اپنے اس سر زمین پر ہر درآمدی لشکر کے خلاف مزاحمت کی اور اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کیا مگر دھرتی پر آنچ آنے نہ دی۔

ساتھیوں نے کہا بلوچ قوم پرستی کی جدید شکل اس وقت ابھر کر سامنے آٸی جب 1918 میں ہمارے اکابرین انقلابی نیشنلزم کی بنیاد پر بلوچ سیاست کی روشن بنیادیں رکھیں اور اسے پھر ینگ بلوچ، انجمن اتحاد بلوچاں، آل انڈیا بلوچ کانفرنس، قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی اور بی ایس او کی شکل میں ساٸنسی انداز میں آگے بڑھایا۔

اس وقت کے ہمارے قوم پرست رہنما انقلابی خیالات رکھتے تھے اور انہوں سماج کا درست ساٸنسی جاٸزہ لے کر قومی پالیسیاں تشکیل دیں جو استحصال سے پاک ایک آزاد سماج کی تشکیل کےلیے لازمی ہوتے ہیں۔ تب ہی تو یوسف عزیز مگسی اس نتیجے پر آج سے قریباً سو سال قبل پہنچے کہ سرداروں کو اب کچلنا چاہیے کہ ان کے سدھرنے کی کوٸی امید نہیں۔ اسی طرح اولین قومی رہبر واجہ عبدالعزیز کرد کے بقول ”سرمایہ دارانہ نظام قوم ملت کےلیے ناسور کی حیثیت رکھتا ہے“۔

اسی طرح موجودہ نوآبادیاتی قوت کے خلاف جہد کرنے والے اولین مزاحمتکار آغا عبدالکریم نے قادر بخش نظامانڑیں کو ایک خط لکھا جس میں اس نے کہا کہ ” موجودہ عہد میں یہ واضح ہو چکا کہ مارکسی نظریات کی روشنی میں چلنے والی جماعت ہی کسی قوم کی آزادی اور ترقی کی طرف رہبری کر سکتی ہے، میں تمام بلوچ بھاٸیوں سے عرض کرنا چاہونگا کہ کسی دوسرے نظریے کے ساتھ نہ ہم اپنی بلوچ قومی تحریک کو بین الاقوامی حقیقت دلا سکیں گے، نہ ہی اپنی قوم کو دوسری ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لا کھڑا کر سکیں گے۔ مارکسزم کے علاوہ دوسرا کوٸی بھی نظریہ صرف قومی رسواٸی اور شکست کی جانب لے جاٸے گا۔“

سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ یہی وہ انقلابی معیارات تھے جن کی بنیاد پر بی ایس او کی تشکیل ہوٸی جسے شہید ہمید شاہین اس طرح بیان کرتے ہیں ”1967 میں بلوچ طلبا نے مارکسزم کی نظریات سے متاثر ہو کر باقاعدہ بی ایس او کا قیام عمل میں لایا اور ترقی پسند سوچ و فکر اور رجحانات کو فروغ دیا اور قومی و طبقاتی آزادی کے شعور کو پروان چڑھایا۔“ بلوچ قومی تحریک و بلوچ نیشنلزم کی بنیادیں ان ہی ساٸنسی و انقلابی نظریات میں پیوست ہیں اور آج کے عہد میں ہمیں بی ایس او کی بحالی کی جدوجہد بھی ان نظریاتی اساسوں کی بنیاد پر کرنی ہوگی جن کی سبق ہمیں یوسف عزیز مگسی، عبدالعزیز کرد، میر گل خان نصیر، بابو شورش، عبداللہ جان جمالدینی، بابو شیروف اور خیربخش مری سمیت سیکڑوں رہنماٶں نے دی ہے۔ ہمیں انہی کے ڈگر پر چل کر اپنے قوم و سرزمین کی حفاظت کرنی ہوگی عوامی اعتماد کو بحال کرکے انقلابی نیشنلزم کی بنیاد پر ظلم و جبر اور استحصال و لوٹمار کے خلاف ایک عوامی تحریک بیدار کرنا ہوگا۔

بعد ازاں اسٹڈی سرکل میں سوال و جواب کا سیشن رکھا گیا اور ساتھیوں نے انقلابی عزم کے ساتھ بی ایس او کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.