زندان میں انسان کا حالت زار

تحریر : گل زمین بلوچ

آزادی ایک نعمت ہے آزاد انسان بھوکا، پیاسا رہے لیکن زندان میں قید انسانوں سے کم سے کم بہتر جی رہا ہوتا ہے۔ آزاد انسان کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرتا ہے، کھلی فضاء میں سانس لے سکتا ہے، اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی حرکت کر سکتا ہے۔ سورج کو غروب، طلوع ہوتے دیکھ سکتا ہے۔ وہ لاڈلا جس کو جوان کرنے میں ماں، باپ نے ہزار دکھ درد، تکالیف برداشت کیے ہیں ان کے ماں، باپ، بہن، بھائی کم سے کم اس اذیت اور ذہنی دباؤ میں مبتلا تو نہیں رہتے کہ اس کا لخت جگر کہاں اور کس حال میں ہے۔ ان کے اذہان میں یہ خیالات تو نہیں آتے ہوں گے نا کہ اس کے جگر کے ٹکڑے نے کھانا کھایا ہے کہ نہیں ، اس کو سردی یا گرمی تو نہیں لگ رہی ، کبھی اس نے سکون کی نیند بھی کیا ہے کہ نہیں۔

زندان تو ایک اذیت گاہ ایک جہنم ہے جہاں پر اذیتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایک ایسی ازیت گاہ جہاں پہ انسان نہ سو سکتا ہے اور نا ہی چین سے بیٹھ سکتا ہے۔ وہ ازیت گاہ جو خون سے لت پت، اور بےحد بدبودار ہے۔ ایک انسان بھلا کیسے وہاں رہہ سکتا ہے جہاں پہ سانس لینا بھی محال ہو سانس لینے کےلیے کوئی چارہ بھی نہیں چھوڑا گیا ہو۔ وہاں انسان نہ صرف جسمانی طور پر اذیت میں ہوتا ہے بلکہ ذہنی طور بھی وہ بہت اذیت برداشت کر رہا ہوتا ہے۔ اذیتیں سہہ سہہ کر وہ اتنا زہنی طور پر کھوکھلا ہو جاتا ہے کہ آخر میں وہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے وہ خود سے بیگانہ ہوجاتا ہے وہ اپنی زات سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ وہ دن میں ہزار بار موت کو پکارتا ہے کہ موت ہی ہے جو مجھے اس اذیت گاہ سے نجات دلا سکتا ہے وہ موت کے فرشتے کو پکارتا رہتا ہے اور لفظ موت کی ورد کرتا رہتا ہے۔

لیکن بد قسمتی سے وہاں کسی کو خد بہ خود موت بھی تو نہیں آتا۔ وہ ظالم اس طرح انسان کو مختلف حربوں سے تکالیف پہنچاتے ہیں کہ انسان صرف ایک زندہ لاش بن کر رہہ جاتا ہے اس کا صرف وجود باقی رہتا ہے لیکن باقی اس کو پوری طرح سے کھوکھلا بنا دیتے ہیں انسان کی جان بہت نازک ہے وہ بھلا کیسے کھوکھلا نہیں ہوگا جب اس کو جابر لوگ کال کوٹھری سے لاتیں مار مار کر گھسیٹ کر لے کر جاتے ہیں اور ایک ٹیبل کے سامنے اس کو بٹھا دیتے ہیں اور اس سے وہاں وہ سوالات پھوچھتے ہیں جن سوالوں کا اس کو علم بھی نہیں پھر بھی وہ یہی سوالات کو جاری وساری رکھے ہوتے ہیں اگر کوئی بندہ خاموشی اختیار کرتا ہے تب بھی اس پر تشدد ہوتا ہے اور اگر وہ کچھ اس طرح کہتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم ان سب چیز کے بارے میں جو سب کچھ آپ مجھ سے استفسار کر رہے ہیں میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر اس پر بھی وہاں موجود لوگ اس کو مارنا شروع کرتے ہیں اور جب مارنے سے تھک جاتے ہیں تو پھر، بجلی کے کرنٹ دیتے رہتے ہیں اور تشدد و اذیت کے دیگر اوزاروں کا استعمال کرتے ہیں انسانی جان پر کبھی ہتھوڑے سے انسان ہاتھ پاؤں کے ناخن نکالتے ہیں تو کبھی، پکڑ کی مدد سے پر بے رحمانہ تشدد کو جاری رکھتے ہیں باقی لاتوں، مکوں تھپڑوں کی تو کوئی گنتی نہیں ہوتی۔

اس پورے دورانیے میں دوران مسلط صاحبوں کا باقی جسم کے ساتھ ساتھ منہ بھی حرکت میں آتا ہے اور بہت غلیظ گندے گالیاں بکتے رہتے ہیں اس عمل کو اسی طرح مہینوں ، سالوں تک جاری وساری رکھے ہوتے ہیں انسان کو کبھی کال کوٹھری لے کے جاتے ہیں لاتے مار مار کر تو کبھی اسی طرح آ کے ٹیبل کے سامنے بیٹھا دیتے ہیں یہ اذیت گاہ طاقتور زمینی خداؤں نے بنائے ہیں جہاں پہ وہ سیاسی اسیران ، اور حق کے ساتھ دینے والوں کو رکھتے ہیں ان اذیت گاؤں میں ، شبیر بلوچ ، کتابوں کا دیوانہ فہیم بلوچ ، دین محمد بلوچ ، ذاکر مجید جیسے لوگ اور دیگر ہزاروں بلوچ قید و بند ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.