تیسری جنس اور بلوچ معاشرہ

تحریر: سازین بلوچ

بلوچستان میں ایک جنس کو زندہ رہنے کے ہر گُن سکھائے جاتے ہیں۔ “بیٹا” شیر ہے، بیٹا روتا نہیں ہے، دلیر ہے، بیٹا بڑا ہوکر آفیسر بنے گا، میرا بیٹا تو اپنی بیوی کو لگام ڈالے گا تاکہ وہ ماں باپ کے سامنے سر نہ اٹھا سکے اور یہی بیٹا اس پرورش کی بنا پر ایسا خمیر بن جاتا ہے کہ خود کو حاکم سمجھتا ہے اور ان دو جنس کو انسان کے بجائے جانور سمجھنے لگتا ہے۔ اس بیٹے کے سامنے دو اور جنس ہوتے ہیں ایک کی شناخت لڑکی سے کی جاتی ہے اور دوسری خواجہ سرا ہے جن کو وہ اپنے پیروں تلے کچلتا ہے۔

میری بیٹی گھر سنبھالے گی، نہیں! نہیں! میری بیٹی تو باہر نکلتی نہیں ہے کیونکہ اسے پتہ ہے ماں باپ کی عزت اس کی پلّو سے باندھ دیا گیا ہے ، میری بیٹی گڑیوں سے کھیل کے گڑیا بنے گی اور اس کے لئے ایک شہزادہ آئے گا اور اسے لے جائے گا۔

اب تیسری جنس کو کیا نام دوں۔ کبھی بیٹا، کبھی بیٹی تو کبھی ہجڑا، کھسرا، اور کبھی حقیر، غلیظ، نیچ و قابل نفرت۔۔۔خیر بلوچ معاشرے میں تیسری جنس کا کوئی خاص شناخت بھی نہیں ہے کیونکہ اسے یا تو لڑکا بن کے جینا پڑتا ہے یا لڑکی یا اسے شادی دے کر پھر طلاق دلوائی جاتی ہے۔ ہمیشہ کے لیے بیوہ بنا دیا جاتا ہے تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ لڑکی طلاق یافتہ ہے یہ ہزار قربانیاں دیتی ہے لڑکی بن کے تاکہ اس کی جنس کی وجہ سے بھائی بہنوں کے رشتے آنا بند نہ ہو جائیں، ان کو ایک ہجڑے کے بھائی کا ہونے طعنہ نہ ملے، وہ عزت کی زندگی گزار سکیں۔

خواجہ سرا وہ ہستی ہے جو مغل دور میں مغلوں کے خاص ہوا کرتے تھے ان کے علاوہ خواتین کے اوتاک میں کوئی اور نہیں آسکتا تھا لیکن کیا اس دور میں بھی وہ آزادی سے سانس لیتے تھے؟ کیونکہ وہ تو مغل کے یا بادشاہ کے حکم کے مطابق زندگی گزارتے تھے ان کو اگر کسی سے پیار ہوتا تو اس کا سر قلم کر دیا جاتا تھا۔ وہ صرف اور صرف بادشاہوں کے دل بہلانے کا سامان تھیں۔ ناچتی گاتی تو صرف مغل بادشاہ کے کہنے پر۔ ان کا وجود پہلے بھی آزاد نہیں تھا اور آج بھی آزاد نہیں ہے۔

بلوچستان کے اندر مشکل سے کوئی خواجہ سرا اپنی جنس ظاہر کرسکتا ہے لیکن اس کو اس لیے نہیں پڑھایا جاتا کیونکہ ہمارے اداروں میں ان کے لئے صرف طنز و مزاح ہے، انکے لیے ذلت ہے اور اگر وہ خواجہ سرا پڑھنا چاہتی ہے تو اس کو یا تو لڑکی بنا دیا جاتا ہے یا لڑکا لیکن وہ عمر کے ساتھ ساتھ جعلی بننے سے اکتا جاتی ہے اور اپنے اصل روپ میں آنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے سب سے پہلے گھر سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ پھر معاشرہ اسے ہزار ناموں سے پکارنے لگتی ہے۔ کبھی چکنا، کبھی کھسرا، کبھی گند یہاں تک کہ اسے اس طرح تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ مایوس ہوکر یا سیکس ورکر بنتی ہے یا بھکاری، کیونکہ اس کےلیے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا جاتا۔

والدین بھی معاشرے کے سامنے بے بس بن جاتے ہیں۔ اپنی بیٹی اور بیٹے کی خوشی کی خاطر اس تیسری جنس جو ان کا اپنا خون ہے جس طرح وہ دونوں جنس ہیں اس طرح اگنور کرتے ہیں جیسے کہ یہ ان کے ملاپ سے نہیں بنا ہو۔

بلوچستان کے اندر گنے چنے ایک یا دو خواجہ سرا ہی ہوتے ہیں جو اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ لیکن ان گنے چنے دو تین میں بھی ایک دو ادارے کے اندر مسلسل ہراساں ہونے کی وجہ سے مایوس ہو کر پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں اور وہ جو رہ جاتے ہیں وہ نابرابری ، جنسی زیادتی، حوس بھری نگاہیں دیکھ دیکھ کے ڈر ڈر کے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جس طرح ایک مرد کے ہزار شوق ہوتے ہیں وہ آرٹسٹ بننا پسند کرتا ہے، وہ ہر ہنر سے روشناس ہونا چاہتا ہے اسی طرح عورت اور خواجہ سرا بھی یہ خواہش رکھتے ہیں۔

مرد ناچیں تو اس کو ثقافت کی ریپریزنٹیشن کہتے ہیں۔ عورت اور خواجہ سرا ناچے تو اسے بے حیائی ، بے غیرتی، فحاشی اور پتہ نہیں کن کن ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ جس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مناہل بلوچ کے ناچنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اسکو انہیں بلوچ غیرت مندوں نے ماں بہن کے گالیوں سے نوازا تھا اور اسے ٹارچر کیا تھا لیکن وہ بہادر تھی جس نے مزاحمت کی۔ اس کے بعد اوتھل یونیورسٹی میں کچھ فیمیل اور میل ایک ساتھ بلوچی چاپ کر رہے تھے تو اس پر پھر بلوچ نام نہاد غیرت کو دھچکہ لگا۔

یہ سب تو خواتین تھے ان پہ غیرت کو دھچکا لگا تو ایک خواجہ سرا کے ناچنے پہ ان کے واہیات و دقیانوسی غیرت کی دھجیاں اڑ گئی ہونگی۔ حال ہی میں پھر سے اوتھل یونیورسٹی کے اندر ایک خواجہ سرا جس کا نام عامر عرف گلناز ہے جو آواران سے تعلق رکھتی ہے اور آواران کی پہلی خواجہ سرا ہے جس نے اعلیٰ تعلیمی ادارے تک اپنی رسائی ممکن بنائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ٹک ٹاکر بھی ہے جہاں پہ وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے اور اسے ڈانسر بننے کا بہت شوق ہے۔ لیکن ہمارا معاشرہ اس کے جنس کو قبول نہیں کرتی تو وہ اس کے ٹیلینٹ کو کیسے سراہ سکتی ہے۔

کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پے اوتھل یونیورسٹی کے اسٹیج پر وہ ایک پرفامنس کر رہی تھی تو پوری سوشل میڈیا میں اس کو ماں بہن کی گالیاں دی گئیں اور اب تک اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ابھی بھی وہ پوری سوشل میڈیا کے اندر زیر بحث ہے۔ کچھ کہتے ہیں بھئی وہ خواجہ سرا ہے تو اس نے ہماری بلوچی ڈریس پہن کر کیوں ہماری عورتوں کی تذلیل کی۔ بھئی وہ خود بھی تو بلوچ ہے بس اس کا جنس الگ ہے اور اس تیسری جنس کے کونسے کپڑے ہوتے ہیں جو وہ پہن سکیں اور آپ کی غیرت کو چوٹ نہ لگے؟

پوری دنیا میں ہر ہنر کو سراہا جاتا ہے چاہے وہ ہنر کسی بھی جنس کی طرف سے ہو لیکن تیسری دنیا جو سولہویں صدی میں جی رہی ہے جسے چابکیں مار مار کر اکیسویں صدی میں ارتقاٸی مراحل گزارے بغیر پھینکا گیا ہے وہ اپنے کسی بھی جنس کے ہنر کو سراہنے سے قاصر ہے۔ چاہے وہ چھوٹی بچی ٹک ٹاکر فجر فیصل ہو یا پیاری سی ڈانسر بچی بانڑی ہو یا بلوچستان کا واحد کتھک ڈانسر احمد ابنِ سکینہ ہو۔۔۔ ان سب کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے اور انہیں مایوس کرنے کے ہزار حربے آزمائے جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم بلوچستان کے ہنرمند لوگوں کو ( چاہے وہ کسی بھی جنس سے ہوں) آگے لانے کی کوشش کریں ہم الٹا ان کو اس طرح مجبور کرتے ہیں کہ وہ زندگی سے ہی بے زار ہو جائیں اور خودکشی کرلیں۔

بلوچ معاشرہ خود کو آزاد خیال سمجھتی ہے بلکہ اس بات پے ڈھٹائی کے ساتھ ڈٹ چکی ہے کہ ہم آزاد ہیں۔ ہماری عورتیں آزاد ہیں ، یہاں ہر مذہب ، جنس ، ذات کو جینے کی آزادی ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کونسی آزادی اور کس طبقے کو یہ آزادی میسر ہے ؟

یہاں آپ کے مرد آزاد نہیں تو آپ یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں کہ ہماری عورتیں اور خواجہ سرا آزاد ہیں۔ آپ کا مرد پیدا ہوتے ساتھ ہی یہ سنتا ہے کہ تم گرنے کے بعد رونا مت تم مرد ہو ، تم اپنے اندر جتنا بھی نرم دل بنو لیکن عورت کے سامنے مردانہ طاقت کو بھلانے کی غلطی مت کرنا۔ جذبات پہ کنٹرول کرنا ، آنسوؤں پہ قابو رکھنا، تم عورت کی پاسبان ہو اور وہ تمہاری ملکیت ہے تم اس کے محافظ ہو۔ تو یہ مرد کیسے آزاد ہوا؟ اس کو تو پیدا ہوتے ساتھ ہی ہزار زنجیریں پہنا دی گئیں کہ یہ ہیں تمہارے حدود اور دائرے اور تم کہتے ہو کہ تمہارے معاشرے میں سب آزاد ہیں۔۔؟ کیسی آزادی۔۔۔۔۔۔

جنس کو نہیں تو انسان کو عزت دو ، جیو اور جینے دو! تیسری جنس اپنی خواہش سے پیدا نہیں ہوتی ماں باپ کے کروموسومز کا نتیجہ ہے جو وہ پیدا ہوتی ہے تو ان کو کیوں دھتکارا جاتا ہے اور اس کے لئے سیکس ورکر اور بھیک مانگنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں چھوڑا جاتا ، اسے ہر جگہ ہزار ناموں سے پریشان کیا جاتا ہے آخر کیوں۔

خواجہ سرا پوری دنیا میں خود کو منوا رہی ہیں کہ خواجہ سرا مجبوری میں سکس ورکر بنتی ہے یا بھکاری بنتی ہے کیونکہ انہیں بچپن میں ہی گھر سے نکال دیا جاتا ہے تو وہ چھت کی تلاش میں وہ تمام کام کرتی ہے جو انہیں زندہ رکھ سکیں۔ بنگال میں جویتا موندال جو بنگالی ٹرانس وومن ہے وہ جوڈیشل پینل آف سیول کورٹ کی ممبر رہی ہے اور ہندوستان میں “کے پریتیکا یاشینی” پہلی پولیس ٹرانس وومن ہے لیکن وہ اپنی محنت سے آگے آئی ہے۔ پاکستان کے اندر پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر سارہ گل ہے جس نے اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ پہلی وکیل نِشا راؤ ہے جس نے اپنے ہی بل پہ وکالت پڑھنے کے بعد یہ مقام حاصل کی ہے، عائشہ مغل بھی اپنے بل پہ ہی قائد اعظم یونیورسٹی میں لیکچرار بنی تو کیوں بلوچستان میں خواجہ سراؤں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بھیک مانگیں، کیوں ان کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے کیوں ان کے لئے ہر دو قدم پہ ایک پتھر رکھ دیا جاتا ہے۔

پوری دنیا میں لوگ نئے ٹیکنالوجی پہ تحقیق کر رہے ہیں، نئی چیزیں دریافت کر رہے ہیں اور ہم لوگ ابھی تک لوگوں کو ان کے مرضی کی زندگی گزارنے بلکہ ان کی اپنی شناخت پہ بیہودہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.