بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے “قوم سے مراد کیا ہے؟” کے موضوع پر اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری بی ایس او اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے 17 اکتوبر کو کامریڈ جوزف اسٹالن کی کتاب قوم اور قومیت کے پہلے چیپٹر”قوم سے مراد کیا ہے” کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اوتھل زون جنرل سیکریٹری سجاد بلوچ نے لیڈ آف دی۔

سرکل کا آغاز بی ایس او کے انقلابی روایتی انداز سے کیا گیا جس میں ساتھیوں نے دنیا بھر کے انقلابی شہداء کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی اختیار کر کے باقاعدہ طور پر سرکل کا آغاز کیا۔

بحث کو شروع کرتے ہوئے سجاد بلوچ نے ملکی و بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان اور دنیا بھر کے تمام محکوم و مظلوم قوموں کی جانب سے ان تمام تر سامراجی طاقتوں کو شکست دینے کے لیے مسلسل شورشیں و انقلابات برپا ہورہے ہیں جو اپنے حقوق و حق خودارادیت کیلئے ان ظالم و جابر طاقتوں سے بلواسطہ طور پر جنگیں لڑ رہے ہیں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ سامراجی ممالک ان مظلوم و محکوم قومیتوں کے انقلابات کو کچلنے کے لیے باہمی اتحاد و اتفاق کی جانب بڑھ رہے ہیں اور مزید اپنے سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لیے اور مظلوموں کے ان تمام تر بکھرے ہوئے تحریکوں کو تیزی سے دبانے اور انہیں مسمار کرنے کی کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ کہی حد تک سامراجی ممالک اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

آج ملکی و بین الاقوامی سطح پر مظلوم و محکوم قوموں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اور ان کے تمام تر توانائیوں کو ایک صحیح پوزیشن مہیاء کرنے کیلئے ایک ایسے چھتر چھایا کی عدم موجودگی ہے جس کے باعث محکوم قومیتوں کی تحریکوں کو شدت سے سامراجی طاقتیں ختم کر رہے ہیں، سویت یونین کے انہدام کو آج قریباً سو برس بیت چکے ہیں سویت یونین مظلوم و محکوم قومیتوں کے لیے ایک آخری سہارا تھا جسے سامراجی طاقتوں اور اندرونی رد انقلابی قوتوں نے انتشار کا شکار بنا کر اسے مسمار کر دیا اور اس کے بعد سامراجی طاقتوں کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو پورا کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہوئی جو آج تک مظلوموں و محکوموں پر ظلم و جبر کرتے چلے آرہے ہیں ان سامراجی طاقتوں کو شکست دینے کےلئے دنیا بھر کے تمام مظلوم و محکوم قومیتوں کو چاہیے کہ اپنے تمام تر بکھرے ہوئے پرتوں و تحریکوں کو یکجاء کرکے اور ایک ایسا چھتر چھایا تشکیل دیں جس کے سائے تلے دنیا کے تمام محکوم ان سامراجی درندوں کے خلاف اور اپنی بقاء کی خاطر بلواسطہ طور پر مزاحمت کریں۔

مزید موضوع کی جانب بڑھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوموں کو وجود میں لانے کیلئے تاریخی طاقتیں و تاریخی عوامل کا ہی ہاتھ ہوتا ہے یہ تاریخی قوتیں انسانی جماعتوں کے تمام افراد کو یکجاء و متحد ہوکر زندگی گزارنے کے لیے کار فرماں ہوتے ہیں انسانوں نے تاریخی طاقتوں اور تاریخی قوتوں کو شکست دینے کے لیے اتحاد و اتفاق کی صورت میں رہنا اختیار کیا۔ قدیم اشتراکیت کے بعد اور ذاتی ملکیت کے آغاز سے انسانوں نے کسی خاص مقصد کے لیے گروہوں کی صورت میں رہنا اختیار کیا اور اپنے گروہی مفادات کو پورا کرتے رہے پر یہی سے آہستہ آہستہ مختلف قبائل وجود میں آئے اور ان قبائل کے ایک ساتھ ملنے باقاعدہ طور پر قومیں وجود میں آئیں۔

کامریڈ اسٹالن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تاریخی طور پر وجود میں آنے والے اس انسانی گروہ کو ہم قطعاً قوم کا لقب نہیں دے سکتے کہ جن کہ درمیان ایک مضبوط و پائیدار رشتہ قائم نہ ہو، تو قومیت کو برقرار رکھنے کے لیے پہلا اور لازمی عنصر قوم کے افراد کے درمیان ایک مضبوط و پائیدار رشتے کا قائم ہونا لازمی ہے۔

دوسرا اور اہم عنصر قوم کے افراد کے درمیان لسانی اشتراک کا ہونا بھی لازمی ہے یہاں کامریڈ اسٹالن روس اور آسٹریا کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ روس اور آسٹریا قوم نہیں ہیں دراصل یہ دو سیاسی گروہ ہیں کیونکہ روس اور آسٹریا میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہے اور ایک قوم کیلئے لازمی ہے کہ اس کا اپنا ایک مخصوص زیان ہونا چاہئے اور جہاں تک روس اور آسٹریا کی بات ہے یہ تو سیاسی گروہ ہیں اور سیاسی گروہوں کے لیے لسانی اشتراک کا ہونا ضروری نہیں ہے تو قومی ہئیت کو برقرار رکھنے کے لیے اشتراک زبان کا ہونا لازمی شے کرار دیا گیا ہے۔

مزید بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوموں کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ قوم کے افراد پشتہا پشت سے ایک ساتھ اور ہی خطے(زمین) میں رہ رہے ہوں اور ان کے درمیان اشتراک معاش ہونا اور قوم کے افراد کے درمیان ایک ہی نفسیاتی ساخت یا قومی کردار کا ہونا بھی لازمی ہے اشتراک معاش سے مراد یہ ہے کہ قوم کے افراد کے درمیان ایک ایسا معاشی ڈھانچہ و معاشی طاقت وجو میں لائی جائے جو انسانی جماعتوں کے مختلف حصوں اور فرقوں کو ایک ہی ملت و ایک ہی وحدت میں تبدیل کردے تو اسی وجہ سے قومیت کو برقرار اور مضبوط رکھنے کے لیے قوم کے افراد کے درمیان اشتراک ارض اور اشتراک معاش کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور ساتھ ہی قوم کے افراد کے درمیاں ایک ہی نفسیاتی ساخت ہونا چاہیے، وہ نفسیاتی ساخت جس کا اظہار قوم کے تہزیب سے ہو۔

مزید انہوں نے کہا کہ قوم تمام باقی دیگر مظاہر کی طرح مسلسل تبدیلی و انقلاب کا گہوارہ ہے اور اس کی ایک مخصوص ابتداء اور انتہاء ہے۔

آخر میں سرکل موجود ساتھیوں نے سوالات کیے اور سجاد بلوچ نے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے سرکل کا باقاعدہ اختتام کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.