بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون شہید حمید یونٹ کا شال میں اسٹڈی سرکل بعنوان “تنظیم و تنظیم کاری” منعقد ہوا جس میں لیڈ آف شہید حمید یونٹ کے یونٹ سیکریٹری جلال جورک نے دی جب کہ کاروائی ڈپٹی یونٹ سیکریٹری سنگت یونس بلوچ نے چلائی۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری شہید حمید یونٹ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن شہید حمید یونٹ شال زون کی جانب سے ”تنظیم و تنظیم کاری“ کے عنوان سے اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔ تنظیم و تنظیم کاری کے بنیادی اصولوں پر بات کرتے ہوئے جلال جورک نے کہا کہ بنیادی طوری پر ایک محکوم قوم کے لیے کسی بھی تنظیم کا بنیادی تعریف ایک دانشور کے بقول یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ” محکوم قوم کے مفادات و خاص قومی مقاصد کے گرد افراد کا جڑت دراصل تنظیم کہلاتا ہے، تنظیم ایک خاص نظریہ، حکمت عملی ، و طریقہ کا عملی مظاہرہ ہے۔

اس جملے کی وضاحت کرتے ہوئے ساتھی نے کہا کہ “وہ مستحکم سوچ جو کہ انسان کی عملی زندگی میں خاص قدم اٹھانے پر مجبور کرے ۔ اور مقصد کے حصول کے لیے عمل کرنا حکمت عملی ہے اور تنظیم مقصد کی تعین اور حکمت عملی کی ترتیب کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایک خاص ثقافت پروان چڑھتی ہے جو کہ نہ صرف تنظیمی کیڈر بلکہ پورے سماج پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو تنظیم بنیادی طور پر کیڈرز پر مشتمل ہوتی ہے اور انقلابی کیڈر ہمہ وقت ماضی سے تجربات حاصل کرکے موجودہ دور میں رہ کر مستقبل کے لیے حکمت عملی ترتیب دیتا ہے ۔ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ انقلابی کیڈر کا ایک قدم حال میں اور ایک مستقبل کو بہتر بنائے کے لئے کوشاں ہوتا ہے ۔

اور اس کے علاو تنظیم محکوم قوموں کا ایک خاص بلکہ مضبوط اور اہم ترین طاقت ہوتی ہے جس میں مظلوم اور شعور یافتہ سیاسی کارکن کا یکجا ہوکر قومی محکومی سے نکلنے کے لیے جہدو جہد کرتے ہیں اور اس اثنا میں وہ مسلسل انقلابی لٹریچر کی نشرو اشاعت کرکے سماج میں عام عوام کو موبلائز کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں اور یہی وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت کوئی بھی کیڈر ایک عام آدمی سے ایک شعور یافتہ انقلابی سیاسی کارکن کہلاتا ہے۔ سیاسی کارکن ہمہ وقت ایک سیاسی و انقلابی اخلاقیات کا پابند ہوتا ہے جو مسلسل انقلابی رویہ سماجی تبدیلی و سْیاسی حکمت عملی سے بھی جڑا ہوا ہوتا ہے اور اسی کی توسط سے وہ سماج کو صحیح سمت کی طرف دھکیلنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

تنظیم ہی کو بنیاد بنا کر اگر ہم ماضی میں طلبا تنظیموں کے کردار پر نظر دوڑا لیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ نشاتہ ثانیہ بعد یورپ میں سیاسی ،سماجی ،اقتصادی ،ثقافتی ،اور علمی میدانوں میں آنے والا ایک جاندار انقلاب تھا۔ نشاتہ ثانیہ کے بعد صنعتی انقلاب اور انقلاب فرانس نے قدیم اقتصادی ،سیاسی، اور سماجی اداروں کو یکسر بدل کرکے رکھ دیا۔ بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی، جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری آگئی اور چرچ کو ریاستی امور سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تبدیلی کی اس ہوا کو عقلیت پسند مصنفین جیساکہ فرانسس بیکن، رینے ڈیکارٹ، روسو، والیئٹر اور برونو وغیرہ نے مزید تواناٸی بخشی۔ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور سائنسی طرز فکر جیسی کئی نعمتوں کے ساتھ یورپ میں شخصی آزادی ،معاشرتی مساوات ،انصاف ،اور انسان دوستی کی نئی اقدار اور تصورات وجود میں آئے۔

تعلیمی نظام کو چرچ کے تسلط سے آزادی ملی۔ ان سب عوامل نے یونیورسٹیوں کے ماحول میں ڈرامائی تبدیلیاں برپا کیں اور طلبہ کو اپنا نقطہ نظر اپنانے، اظہار رائے کرنے اور جمہوری اصولوں پر مبنی تنظیم بنانے کے لیے مناسب ماحول میسر آیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی منظر پر طلبا کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔ سب سے پہلے جن نظریات نے یورپ کے طلبہ کو اکھٹا کیا وہ تھے جمہوریت اور قوم پرستی۔ یورپی ممالک پر نپولین کا حملہ جرمنی اٹلی آسٹریا اور روس کے طلبہ کے قوم پرستی کی تحریک کا ایک بڑا وجہ بنا۔

1815ء میں جینا یونیورسٹی کے جرمن طلبا نے Urburschenshaften نامی ایک یونین بنائی۔ اس تنظیم نے قوم پرستی کے نظریات کو پھیلانے کے لئے کام کیا، اس نے اپنی شاخیں دوسری تمام جرمن یونیورسٹیوں میں بھی پھلا دیئے۔ اس تنظیم کی سرگرمیاں نیم اتحادی جرمن ریاستوں کی حکومت کو بہت خطرناک لگیں اور اسے 1819 ء میں کالعدم قرار دے دیا گیا۔ مگر کالعدم قرار دیئے جانے کے باجود کئی سال تک اس کی سرگرمیاں خفیہ طور پر جاری رہیں۔
1848 میں پیرس، ویانا اور برلن میں انقلاب کی ایک بڑی لہر اٹھی۔ اس انقلابی تحریک میں طلبا صف اول میں شامل تھے۔ بعدازاں اٹلی کے طلباء غیر ملکی دخل انداز یوں کے خلاف متحد ہوگئے اور بطور قوم اٹلی کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ روسی طلبا نے زار حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے انہیں تقلید کی۔

اگر ہم اپنے بلوچ قومی تحریک آزادی پر نظر ڈالیں تو ہمیں بھی ایسے ہی ایک طلبا تنظیم نظر آئی گی جو ہر مشکل حالات میں بڑے سے بڑے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان بھر میں سامراجی طاقتون کے خلاف مسلسل اپنی طلبا تنظیموں نے اپنی جہد کاری رکھی ہوئی ہے اور مسلسل بلوچ بزگ و بزگر عوام کو موبلائز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اب اگر تنظیم کاری کے بنیادی اصولوں کی بات کریں تو بنیادی طور پر ہم عوامل پر زکر کرنا لازمی ہوگا کہ ریت اور مرکزیت ، آزادی اور ضوابط کی وحدت ہے اور یہی جمہوری مرکزیت کہلاتی ہے۔ اس طریقے کے مطابق جہاں کارکنوں کو وسیع تر جمہوریت اور آزادی حاصل رہتی ہے۔ وہیں انہیں انقلابی قواعد وضوابط کا پابند رہنا پڑتا ہے، جس کے چیدہ چیدہ اصول ذیل میں دیے جاتے ہیں۔ اقلیت اکثریت کے تابع ہو۔ ذیلی ادارے، اعلٰی اداروں کے تابع ہوں ۔ پارٹی کی تمام رکنیت ،مرکزی کمیٹی ( یا جو بھی اعلٰی ادارہ ہو ) کے تابع ہو ۔ جو بھی کارکن ان ضوابط کی خلاف ورزی کرتا ہے،وہ پارٹی کے اتحاد کو پارہ پارہ کرتا ہے۔ پارٹی کے ضوابط کے مطابق اقلیت کو اکثریت کے تابع رہنا چاہیے۔ اگر اقلیت یا کسی فرد واحد کی رائے کو اکثریت کی طرف سے مسترد کیا جاۓ تب بھی اسے اکثریت کے منظور کردہ فیصلوں کی تائید اور پیروی کرنی چا ہیے ۔

کوئی بھی قومی اور انقلابی پارٹی تنقید سے نہیں گھبراتی ۔ ہم انقلابی ہیں اس لیے صداقت اور سچاٸی ہمارے ساتھ ہے اور تاریخی قوتیں یعنی عوام ہمارے ساتھ ہیں ۔ انقلابی ذہنی طور پر مضبوط اور سخت جان ہوتے ہیں ۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس کے ساتھی جدوجہد کی تمام تر ذمہ داریاں ہمت اور بہادری کے ساتھ نبھانے والے اور دکھ اور تکالیف کو خوشی سے جھیلنے والے ہیں ۔ وہ ناکامیوں اور شکستوں کے عادی ہیں اور اس پر اپنا دل ہار کے نہیں بیٹھتے ۔ انقلابی نہ تو تنقید سے گھبراتے ہیں اور نہ ہی مشوروں کو نظرانداز کرتے ہیں ۔ جوشخص ہزاروں مصیبتوں سے نہیں گھبراتا، وہ بادشاہ کو گھوڑے سے اتار سکتا ہے یہی وہ جذ بہ ہے جو انقلابی جد و جہد کوترقی عطا کرتا۔

کارکن ہمیشہ اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی اور قیادت اپنی نظریاتی اور سیاسی لائن سے منحرف تو نہیں ہو جاۓ گی ۔ اس کے لیے نہ صرف کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے بلکہ اپنے تمام کارکنوں اور ہمدردوں کی سیاسی اور نظریاتی تعلیم وتربیت بھی کرنی چا ہیے ۔ تا کہ وہ قومی انقلابی جدوجہد کے سلسلے کو جاری رکھ سکیں ۔ ہمیں نہ صرف ان کی سیاسی تعلیم و تربیت کرنی چاہیے بلکہ اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ ایسے لوگ انقلابی جنگ میں مستقل طور پر روکیں گے یا نہیں؟ جولوگ ہماری پارٹی کو پرانے انقلابیوں میں سے ملے ہیں ، وہ پارٹی یا قومی تحریک میں مسلسل رہ سکیں گے یانہیں؟ یا وہ نچلے اور متوسط طبقے کی بڑھتی ہوئی انقلابی قوت کو برقرار کرسکیں گے یا نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.