بلوچ سماج میں خودکشی کا بڑھتا رجحان

تحریر: بِچکند بلوچ

زندگی کے ہر گزرتے لمحے ایک تاریخ رقم کرتے ہیں چاہے وہ مزاحمت کے ہو یا اقتدار کے، کسی عام انسان کا ہو یا کسی خاص جہد کار کا۔ ہر لمحہ اپنے ساتھ ایک وجود رکھتا ہے چاہے وہ منافق کا ہو یا مخلص انسان کا، یہ وقت اور حالات بناتے ہیں کہ بنی آدم کا وجود کیا ہے۔

انسان احساس اور جذبات سے لبریز ایک ایسا وجود ہے جو ایک الفاظ بناوٹ سے مضبوط اور ٹوٹ جاتا ہے وہ احساس کے اس مقام اور دہلیز پر کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ نہ وہ خود میں موجود امید اور ماں کے آنکھوں کا تصور کیے بغیر اپنے زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے جو دراصل ایک آنے والے امید ،اگلی نسل اور اپنے پیچھے چھوڑ کر جانے والوں کے لیے ایک عبرت ناک و اذیت ناک کیفیت وجود میں لاتا ہے۔ ایک زندگی کا خاتمہ اس کے اردگرد ایسے سوالات جنم دیتا ہے کہ اس کا جواب نہ کسی کے پاس ہے نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی ان جذبات کو اظہار دے سکے۔

ہر گزرتے ہوئے دن میں یہ اذیت ناک عمل بلوچ سماج اور معاشرے میں تیزی سے رجحان پا رہا ہے چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ،چاہے وہ شال کا ہو یا مکران اور رخشان کا۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ معاشرہ اپنے رسم ،تہذیب سے اپنا مثال آپ ہے مگر ہر گزرتے ہوئے لمحے بلوچ نوجوانوں کے لیے ایک کربلا اور تاریخ کا واقعی بیان کرتا ہے چاہے وہ نسل کشی ہوں یا طلباء پر تشدد۔اور دوسری طرف ناواقف عمل جو بلوچ نسل کشی کو تیز کر رہی ہے بلوچ نوجوانوں میں نسل کشی کے عوامل ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے بلوچ معاشرے میں
ایک طرف لاپتہ ہونے کا ڈر، دوسری طرف خودکشی کے واقعات، مجموعی طور پر یہ تمام تر جبر اذیتیں ایک وجودی بحران کی کیفیت جنم دے رہے ہیں۔

یہاں اب سوال یہ ہے کہ آخری خود کشی کا یہ رجحان کیوں پروان چڑھ رہا ہے۔۔۔۔؟ وہ کیا اسباب و عوامل ہیں کہ ایک جیتا جاگتا ھنستا مسکراتا انسان اپنی جان اپنے ھاتھوں لیتا یا لیتی ہے۔ ایک تو مینٹل ھیلتھ کا ایک عالمی معمہ بھی چل رہا ہے جو کہ اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کی براہِ راست دین ہے۔ جہاں سالانہ لاکھوں انسان اپنی جان اپنے ھاتھوں سے لیتے ہیں اور اس کے اسباب و عوامل سفاک سرمایہ دارانہ نظام میسر کرتا ہے۔

وہیں بلوچ جیسے محکوم و کالونیٸل سماج میں یہ درد اور اسباب و عوام مزید ھزار گنا بڑھ جاتے ہیں۔ سماجی بندشیں، آزادی اظہار راٸے پر مکمل قدغن، وطن کی یرغمالی، سوچ و خیال پر پہرے، مسلسل لاپتہ ہونے، کسی واٸٹ ہاٶس سے بلاٸے جانے کا خوف، کسی ڈیتھ اسکواڈ کی خوامخواہ نظروں میں آنے کا خوف، والدیں کی ٹوٹتی امیدیں، وہ تمام تر اذیتیں جو کسی بھی محکوم سماج اور جنگ زدہ سماج کا باقاعدہ لازمی حصہ ہوتے ہیں وہی آج بلوچ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جھیلنے پڑ رہے ہیں۔ جس کے باعث ہم نوجوانوں کو خود کشی کرتے دیکھ رہے ہیں۔ اور ان خودکشیوں کا براہ راست و بالواسطہ ذمہ دار کالونیٸل سسٹم ہے، قومی محکومی اور طاقتور کی جارحانہ و سفاکانہ پالیسیاں ہیں۔

یہ سارے عمل اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ بلوچ نسل کے کشی واقعات عام سے عام تر ہوتے جارہے ہیں۔ خودکشی صرف خود کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ امید کل کا خاتمہ ہے جس پر ایک ماں آس لگائے بیٹھی ہے اس امید کا خاتمہ ہے ایک قوم اپنے نوجوان نسل پر رکھتی ہیں بلکہ خاتمہ ہے ہر اس عمل کا جو چل رہی ہے اپنے حقوق کی خاطر، اپنے سماج، قوم و وطن کی خاطر۔ بلکہ خاتمہ ہے اس باپ کے خواہش کا جو وہ اولاد پر لگا کر اس کے انتظار میں بیٹھا ہے ۔فعل خودکشی کو اگر بلوچ معاشرے میں دیکھا جائے تو بلوچ قوم کی نسل کشی کا ایک الگ عمل وجود میں آیا ہے ہر گزرتے دن ایک بلوچ نوجوان (چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی) کی خودکشی کی خبر پھیلتی ہے آخر کیوں۔۔۔۔؟

اس عمل سے پیدا ہونے والے ایسے سوالات جو نہ پوچھتے جاتے ہیں اور نہ بتاۓ جاتے ہیں ایک قوم کا مستقبل کیا ہوگا جب اس کے نوجوان نسل اس اذیت ناک رجحان سے کا شکار ہونگے ۔ اگر ایک قوم کو زندہ ہونا ہے تو اس کے نوجوان نسل کا لا علم ،شعور یافتہ ہونا اور غیر عوامل کے سازشوں سے واقف ہوکر اپنے قوم کو تحفظ دینا اور دفاع کرنا ہے۔

اس عمل پر جتنا تاسف کریں اس عمل کا بلوچ معاشرے میں کم ہے اس وقت معاشرے میں ایک تندرست ،شعور یافتہ اور غور و سوچ کرنے والے نسل کی ضرورت ہے اپنے حقوق اور تحریکوں کو جاری رکھنے کے لیے۔

اس وحشیانہ، انسان دشمن بلوچ کُش رجحان کو روکنے کےلیے بلوچ کو مجموعی طور پر اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، ان اذیتوں کو کم کرنے، نوجوانوں کو بچانے کے طریقے راستے ڈھونڈنے ہونگے، فقط کالونیٸل نظام کا رونا رو کر اور ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر تماشہ دیکھتے رہنا بھی تو اس بلوچ کشی کو پروان چڑھانے کے مترادف ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کو واضح پالیسیز جاری کرنے ہونگے، قومی دانشوروں محققوں سے ریسرچ پیپرز لکھوانے ہونگے۔ وہ راہیں جو حاکم کو نوجوانوں تک پہنچ کر انہیں خودکشی کروانے پر مجبور کرتے ہیں ان راہوں کو روکنا، مفقود کرنا اور بالآخر ختم کرنا ہوگا۔ ایسا کوٸی بھی عمل جس سے حاکم کو محکوم بلوچ نوجوانوں تک پہنچنے کا موقع و جواز ملتا ہو ان پالیسیز میں بہتری لا کر ان راہوں کو روکنا ہوگا۔ بلوچ و بلوچ نوجوانوں کو بچانا ہوگا، بلوچ نسل کشی کو روکنا ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.