بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے “بلوچستان پر سی پیک کے اثرات” کے موضوع پر اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری بی ایس او اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے 22 نومبر کو “بلوچستان پر سی پیک کے اثرات ” کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل زیر صدارت زونل صدر بامسار بلوچ کی منعقد کیا گیا جس پر بی ایس او اوتھل زون کے ممبر سنگت بچکند بلوچ نے لیڈ آف دی اور سرکل کی کاروائی زونل جنرل سیکریٹری سجاد بلوچ نے چلائی۔

سرکل کا آغاز بی ایس او کے انقلابی روایتی انداز سے کیا گیا جس میں ساتھیوں نے بلوچستان اور دنیا بھر کے عظیم انقلابی شہداء کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی اختیار کر کے باقاعدہ طور پر سرکل کا آغاز کیا ۔

سرکل کو شروع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فطرت کے قانون کے مطابق ہر سماجی ڈھانچے کا ایک فطری عمر متعین ہوتا ہے یعنی جب تک یہ سماجی ڈھانچہ (نظام) ترقی کرتا رہے گا یہ اپنی ساخت مضبوط کرتی جائے گی مگر جب یہ فطری مراحل کو عبور کرتا ہے یعنی مزید یہ سماجی ڈھانچہ اپنے ترقی کےلیے نئی راہیں نہیں کھول سکتا تو وہ زوال کی جانب بڑھتا جائے گا جس سے نئے تضادات جنم لیتے ہیں اور یہ سماجی ڈھانچہ اپنے زوال کے کھٹن مراحل طے کرتے ہوئے ایک نئے سماجی ڈھانچے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

آج کا عہد بھی ماضی بعید کے صورتحال سے بالکل مختلف ہے آج کا عہد زوال کا عہد ہے سرمایہ دارانہ اجارہ داری اب زوال کی جانب بڑھ رہا ہے اب اس میں وہ سکت باقی نہیں رہا کہ یہ رہتی دنیا کو سہارا دے سکے آج کرہ ارض کے ہر کونے سے ظلم و ناانصافیوں کے خلاف محکوم و مظلوم طبقات کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں جو سامراجی تسلط سے آزادی، برابری اور انصاف کےلئے تحریکیں چلارہی ہیں جس کی ایک واضح مثال بلوچستان کے ساحلی علاقہ گوادر میں چائنا کی سامراجی تسلط کے خلاف حق دو تحریک کی شکل میں ایک عوامی تحریک دیکھنے کو مل رہا ہے جو یہ واضح طور پر ثابت کر رہا ہے کہ کس قدر محکوم قومیں اس استحصالی نظام کے خلاف جہدوجہد کر رہے ہیں۔

مزید بحث کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین اپنے جیو پولیٹیکل گیم میں بڑے طاقت کے طور پر سامنے آرہا ہے چین اور امریکہ دنیا کی کُل معیشت کا 40 فیصد حصہ مشترکہ طور پر کنٹرول کر رہے ہیں چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چین بیجنگ کو مغربی اور افریقی اور لاطینی امریکن ممالک کے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان چائنا کی اس بلٹ اینڈ روڑ انیشیٹیو منصوبے کو بلوچستان کےلئے ترقی و تبدیلی کا نام دے رہا ہے مگر اس کی اصل میں یہ ترقی و خوشحالی پاکستان کی صوبہ پنجاب کے علاوہ باقی کسی صوبے میں نہیں دکھ رہا۔

عظیم فلاسفر کارل مارکس کے مطابق ترقی خود استحصال کا نام ہے بالکل اسی طرح پچھلے کئی دہائیوں سے بیرونی طاقتیں بلوچ سرزمین کے ساحل و سائل کو ترقی کے نام پر لوٹ کھسوٹ لے جا رہے ہیں اگر بلوچستان کے محکوم عوام ان استحصالی عزائم کے خلاف آواز بلند کرے تو انہیں اٹھا کر زندانوں میں بند کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دیے جاتے ہیں مگر یہ بات اٹل ہے کہ ظلم کے پہاڑ ہمیشہ کےلیے نہیں ٹک پاتے کبھی نہ کبھی کہ یہ سُرمٸی پہاڑ بکھر کر ریت کی ٹیلیوں میں تبدیل ہو ہی جائیں گے۔

سنگت نے گفتگو کرتے ہوٸے کہا کہ کالونیٸل طاقتیں جس خطے میں بھی قبضہ گیری اور لوٹ کھسوٹ کےلیے جاتی ہیں ان کا رٹا رٹایا پہلا جملہ ہی یہی ہوتا ہے کہ ” ان کے آنے سے یہاں ترقی و خوشحالی آٸے گی، مقامی لوگ تہذیب سیکھیں گے“۔ یہ کالونیٸل نفسیات از خود استحصالی نفسیات ہے جس کے تحت وطن زادوں اور ان کی ھزاروں سالہ اجتماعی کلچر کو باہر سے آنے والے کالوناٸزر نہ صرف کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ نت نٸی جبری داستانوں کے تحت اس وطن کے باشندوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں بھی کرتی ہیں تاکہ وہ کسی بھی طرح لوٹ مار کو زیادہ سے زیادہ تقویت دے سکیں۔ آج چین کی سامراجی پالیسیز بھی بلوچ وطن پر اسی نفسیات کے تحت سی پیک اور دیگر سامراجی پروجیکٹس کے ساتھ بلوچ وطن پر یلغار کر رہا ہے۔

ایسے میں ان بیرونی استحصالی طاقتوں کو شکست دینے کےلیے لازم ہے کہ بلوچ عوامی سطح پر مزاحمتی تحریکیں جنم دے اور ان استحصالی طاقتوں کو شکست دے کر وطن کو بلوچ کےلیے جنت بناٸے۔ اور ان عوامی تحریکوں کےلیے بہت بڑے پیمانے پر انقلابی قیادت و کیڈرز کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف مقامی استحصالی نظام کو سمجھ سکیں بلکہ عالمی سامراجوں کی بھی سفاکانہ پالیسیز کو سمجھ کر ان کی شکست کا بندو بست کریں۔ اور ایسے کیڈرز کی تیاری بی ایس او جیسی انقلابی تنظیم ہی کر سکتی ہے جس کے لیے آج ہم سب کوشاں ہیں۔

آخر میں سرکل میں موجود ساتھیوں نے سوالات کیے اور کامریڈ بچکند بلوچ نے سوالات کے تسلی بخش جواب دیتے ہوئے سرکل کا باقاعدہ اختتام کی کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.