بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے اسٹڈی سرکل “خواتین کا سیاست میں کردار” کے موضوع پر منعقد کیا گیا۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری بی ایس او اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے 30 نومبر 2022 بروز بدھ کو “خواتین کا سیاست میں کردار ” کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل منعقد کیا گیا، جس پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کے صدر کامریڈ بامسار بلوچ نے لیڈ آف دی سرکل کی صدارت زونل صدر کامریڈ بامسار بلوچ نے کی اور سرکل کی کارروائی زونل جنرل سیکریٹری سجاد بلوچ نے چلائی۔

سرکل کا آغاز بی ایس او کے انقلابی روایتی انداز سے کیا گیا جس میں ساتھیوں نے دنیا بھر کے انقلابی شہداء کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی اختیار کیا گیا اور پھر باقاعدہ طور پر سرکل کا آغاز کیا ۔

کامریڈ بامسار بلوچ نے کہا کہ آج پوری دنیا میں ظالم و جابر طاقتوں کے خلاف انقلاب و انقلابی تحریکوں کا آغاز ہو رہا ہے اور ان تمام تر عوامی و انقلابی تحاریک میں خواتین کا ایک نمایاں کردار ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ اس امر میں کردش قومی تحریک کے انقلابی و مزاحمتی خواتین ہوں کہ سوڈان میں 30 سال سے اقتدار پر قابض صدر عمر البشیر کے خلاف جاری تحریک میں نمایاں کردار ادا کرنے والی عالہ صلاح جو دنیا بھر میں اس تحریک کو متحرک کرنے کی وجہ سے مشہور ہوٸیں۔ یا پھر مقبوضہ فلسطین کی مزاحمتی خواتین ہوں۔ آج عالمی سیاست میں خواتین اپنا ایک نمایاں مقام بنانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں اسلامی ریاست ایران میں ایک کردش خانوں ژینا مہسا امینی کو حجاب نہ پہننے کی پاداش میں ایرانی پولیس کی طرف سے اسے دردناک موت دیا گیا تھا ژینا مہسا کی درد ناک موت سفاک ایرانی ملا ازم کا منہ بولتا ثبوت ہے پر اس کے بعد ایران میں عورتوں کی جانب سے زن زندگی آزادی اور مرگ بر ملائیت کے نعروں کے ساتھ پورا ایران گونج اٹھا اس دوران ایرانی عوام نے ملک گیر احتجاجات و جلسے جلوس ریکارڈ کرائے جو نہ صرف ایرانی ملا ازم کی استبدادی عمل کے خلاف ایک ردعمل ہے بلکہ عالمی سامراجی طاقتوں کے خلاف بھی ایک ابھار ہے اور بہت بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اس تحریک کو ملاٸی فاشسٹ رجیم کے خلاف خواتین لیڈ کر رہی ہیں۔

اس تحریک میں لاکھوں ترقی پسند مرد حضرات بھی شامل ہیں جو اس موجودہ پدرشاہی نفسیات کو ختم کرنے اور عورتوں کی آزادی کی مکمل طور پر حمایت کر رہے ہیں واضح رہے کہ اسی دوران سفاک ایرانی پولیس چیف نے 15 سالہ بلوچ لڑکی کا ریپ کر کے قتل کردیا تھا جس کے نتیجے میں سیستان و بلوچستان کے اندر بھی ایرانی حکومت کی استبدادی رویوں کے خلاف بلوچوں نے بھی مسلسل احتجاجات ریکارڈ کروائے اور مزید یہ تحریک تشدت کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ایرانی سرحد پار افغانستان، کردستان، ترکی، لند، وغیرہ کہی ممالک تک پھیل گیا مگر بدبختی کا عالم تو یہ ہے کہ بلوچ سماج کے فرزند اسے مشرقی بلوچستان تک لانے ناکام رہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچ سماج میں عوامی سطح پر ایک انقلابی پارٹی کی غیر موجودگی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے ترقی پسند افراد مرد اور عورتیں باقی دیگر ممالک کے انقلابی تحاریک کو اپنانے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔

مزید انہوں نے 70 کی دہائی میں افغانستان کی ثور انقلاب پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ اسی طرح ستر کی دہائی میں پڑوس ممالک افغانستان میں بھی عوامی سطح پر انقلابی لہریں پیدا ہوتی نظر آ رہی تھیں اور اس دوران افغانستان میں موضوعی عنصر یعنی انقلابی پارٹی(خلق پارٹی) موجود تھی جس کی وجہ سے سماج کے معروضی حالات کے پیش نظر انقلابی پارٹی نے تمام تر عوامی درد و سوز کو اکھٹا کرکے انہے ایک واضح سمت مہیاء کرنے میں کامیاب ہوگیا، افغان ثور انقلاب دراصل ایک ترقی پسند انقلابی لہر تھی جو افغانستان کے شاہی حکمران کی عوام اور بالخصوص عورت دشمن پالیسیوں کے خلاف ابھر کر سامنے آیا اس انقلابی تحریک میں مجموعی تعداد محکوم عورتوں کی تھی جو دہائیوں سے پدرشاہی فیوڈل سماج کی چکی میں پس رہی تھیں۔

مگر آہستہ آہستہ یہ انقلابی تحریک کو بھی رد انقلابی قوتوں نے ملیا میٹ کرنے کی سازشیں شروع کرتے ہوئے اس انقلابی تحریک کے سامنے رکاوٹوں کا جال بچھا دیا جن میں امریکہ اور اس وقت کے پاکستانی مشینری کو چلانے والے مکار اور عورت دشمن ضیاء الحق اس بھیڑے کے کپتان تھے جنہوں نے اس انقلابی تحریک کو ملیامیٹ کرانے کی انتہاء درجے کی کوششیں جاری رکھتے ہوئے آخر کار اس تحریک کو کچل کر رکھ دیا اور خود کو تاریخ کے سیاہ پنوں میں شامل کرگئے یاروں کے زخم مٹانے کے لیے سویت سرخ فوج بھی آزادی کے سرخ جھنڈے کے ساتھ میدان میں کود پڑے مگر ان دو خونخوار بھیڑیوں کے سامنے سرخ فوج کو بھی پسپائی کا سامنا ہوا اور بالآخر مزید افغان معاشرہ تباہی کی جانب بڑھنے لگا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینوں میں افغان طالب حکومت کی استبدادی رویوں کے خلاف بھی افغانستان میں عوامی سطح پر انقلابی تحریکوں کا ابھار دیکھنے کو ملا جس میں بڑی تعداد محکوم و استحصال زدہ عورتوں کی تھی مگر جابر افغان طالب عورت دشمن حکومت نے عورتوں کی تحریکوں کو مسمار کرکے رکھ دیا اس کی سب سے بڑی آج افغان معاشرے میں ایک مضبوط و پائیدار پلیٹ فارم کی غیر موجودگی ہے جس کی وجہ سے طاقت پر مبنی طالب حکومت انہیں مسمار کر رہا ہے۔

مزید سرکل کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے تاریخی اعتبار سے عورت کی سیاسی کردار پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو قدیم اشتراکی سماج میں عورت ذات بالکل با اختیار ہوا کرتی تھی وہ نہ صرف آج کے عورت کی لحاظ سے سماجی پابندیوں سے آزاد تھی بلکہ اس وقت کے سماجی قوانین بھی اسی کے اختیارات میں تھی حتٰی کہ مدرشاہی نظام میں عورت کو ایک بالاتر رتبہ و اختیار حاصل تھا کیونکہ قدیم دور میں سماج آزاد تھا مگر آہستہ آہستہ سماجی پیداوار اور پیداواری رشتوں میں تبدیلوں کے باعث زمین کی حیثیت بھی بدل گئی زمین کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور اپنی ذاتی ملکیت کو فروغ دینے کا آغاز ہو گیا اسی طرح یہ سلسلہ بتدریج جاری ہوتے ہوئے حتیٰ کہ عورت ذات کو بھی مرد نے اپنی ذاتی جاگیر کا ایک حصہ بنا دیا وہ اس طرح کہ پہلی بار مرد نے یک زوجگی کا قانون تشکیل دے دیا اور اس قانون کے تحت عورت کو اپنی قابو میں رکھنے کی کوشش کی اس دن سے لے کر آج عورت ذات نہ صرف مرد کے تابع ہے بلکہ مرد کیلئے بچے پیدا کرنے والی مشین ہے۔

مزید بلوچ سماج کی عورتوں کی سیاسی کردار پر بات رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچ سماج میں بھی عورتیں مردانہ بالادستی، مردانہ وحشی پن کی وجہ سے ہمیشہ ایک گھٹن سی زندگی جی رہی ہے انہوں نے تاریخی شواھد سامنے پیش کرتے ہوئے کہا تاریخی دریچوں سے بھی یہ بات ثابت ہوا ہے کہ بلوچ سماج کی عورتیں تاریخ میں بھی کسمپرسی کی حالت میں جی رہی تھیں۔ جس طرح ہر عورت سفاک قباٸلی و جاگیرداری عہد میں کچلی جاتی ہے اور مسلسل جبر و تشدد کا نشانہ بنا کر انسانی حیثیت سے گراٸی جاتی ہے۔

مزید اس حوالے انہوں نے اس عہد کی گوئر جت، ماہناز و دیگر باہمت عورتوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ کی عورتوں کی حالت باقی دیگر مغربی سماج کے عورتوں سے ایک لحاظ سے بہتر اور جامع تھی مگر پر بھی قبائلی شکنجے ایک لحاظ سے مضبوط تھے جنہوں نے عورت کی آزادی کو سلب کر رکھ دیا تھا بلوچ سماج میں یہ بات عام ہوگیا ہے کہ عورت بلوچ کی عزت ہے، عظمت ہے وغیرہ مگر اسی اسی عزت و عظمت کے نام پر عورت ذات کو روز قتل بھی کردیا جاتا ہے یہ سلسلہ اس وقت تھم جائے گا جب عورت کو سیاست، معیشت اور دیگر سماجی کاموں میں حصہ دار بنا دیا جاٸے گا اور عورت اپنی بقاء کے لئے اس طبقاتی، پدرشاہی نظام سے جنگ لڑنے کی جدوجہد کرے گی۔

کامریڈ بامسار نے کہا کہ آج بلوچ عورت کی جو حالت زار ہے وہ کالونیٸل طاقتوں کی جبر و بلوچ کی قومی محکومی کے ساتھ ساتھ بلوچ سماج کے اپنے قدیم زاٸدالمیعاد و دقیانوسی قباٸلی سماجی اسٹرکچرز کا بھی ہاتھ ہے۔ آج بلوچ عورت دوہری جبر کا شکار ایک طرف اسے ریاستی بربریت کا سامنا ہے تو دوسری طرف مقامی سطح پر اس کی انسانی آزادی خود سماج بھی چھین رہی ہے۔ آج کے اکیسویں صدی میں بلوچ عورت قباٸلی جرگوں کے ذریعے اپنی نماٸندی سے محروم رہ کر مسلسل جبر و تشدد و قتل و غارت کا نشانہ بن رہی ہیں یہاں تک خواتین کو زندہ درگور کرنے کے گھناٶنے اعمال بھی ہماری سرزمین پر ہوٸے ہیں۔

آج وقت کا تقاضا یہی ہے کہ بلوچ سماج کی عورتیں اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کیلئے دوہری محازوں(ریاستی جبر اور طبقاتی جبر) پر خود کو جنگ لڑنے کے لیے تیار کریں اور جنگی کیفیت میں کودنے کیلئے پہلے پہل عورت کو سیاست میں اپنی پوزیشن مضبوطی سے پکڑ کر لمہ وطن شہید بانک کریمہ و شہید ھانی بلوچ کا کردار ادا کریں۔ بلوچ قومی محکومی کے خلاف جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ خواتین کو سماجی بندشوں سے بھی آزاد کرنے کی انقلابی و شعوری جدوجہد کرنا چاہیے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہوگا جب سماج کے دانشمند لوگ بڑے پیمانے پر عورت کے سوال کو ایک مدعا سمجھ کر اس پر شعوری طور پر بحث مباحثے کریں گے تب جا کر ہم اس سوال کا منطقی نتیجہ تلاش کر پائیں گے۔

آخر میں سرکل میں موجود ساتھیوں نے اس حوالے سے سوالات کیے اور کامریڈ بامسار بلوچ نے سوالات کے تسلی بخش جواب دیتے ہوئے سرکل کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.