بی ایس او شال و مستونگ زون کی جانب سے 4 دسمبر بروز اتوار ریجنل اسکول کا انعقاد کیا گیا

رپورٹ : پریس سیکریٹری شال زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال و مستونگ زون کی جانب سے 4 دسمبر کو ریجنل اسکول منعقد ہوا۔
پروگرام کا آغاز راجی سوت و شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا۔

ریجنل اسکول میں ساتھیوں نے
عالمی و علاقاٸی تناظر ،تنظیم ، پولیٹیکل اکانومی، جدلیاتی مادیت اور بلوچ قومی سوال کے موضوعات پر مباحث و مقالے پیش کیے۔

پہلا سیشن ”عالمی و علاقاٸی تناظر” کے عنوان سے تھا، جس کی صدارت سنگت سراج بلوچ نے کی، اور لیڈ آف کامریڈ رحمان بلوچ نے دی۔

عالمی و علاقاٸی صورتحال کے موضوع پر ساتھیوں نے کہا کہ موجودہ دور میں دنیا کے بڑے بڑے سامراجی چیمپئنز اس دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کب زیادہ سے زیادہ اپنی سامراجی قوت کو استمال کرتے ہوئے پسماندہ قوموں پہ قبضہ کر کے مزید ان کو محکوم بنائیں۔ روسی سامراج کا یوکرین پر زبردستی قبضہ کرنے کی مثال پیش کرتے ہوئے ساتھیوں نے کہا کہ ایک طرف تو روس کو دنیا کے بڑے بڑے سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جو کہ یوکرین جیسی ریاست پر بھاری ہھتیاروں سے چڑھائی اور اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہزاروں لوگوں کا قتل عام کرتا ہے۔

اور دوسری طرف اپنے مفادات کی خاطر دنیا کے کٸی سارے سامراجی چیمپئنز یوکرین کی مدد کرتے ہیں اور کروڑوں ڈالرز کی امداد کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی مقدار میں بڑے بڑے جنگی ہھتیار بھی فراہم کرتے ہیں۔ اور اپنی منافع بخش ”وار انڈسٹری“ کو محکوم اقوام طبقات اور انسانی لاشوں سے ایندھن فراہم کرتے رہتے ہیں۔ سامراجی قبضہ گیروں کے یہ اعمال دنیا کے امن کو تباہ کرچکے ہیں مگر اب بھی دنیا میں ان کے انہی قبضہ گیری و لوٹ ماری کے حربوں کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ کا خطرہ عالم انسانیت پر منڈلا رہا ہے جو کہ مزید تباہ کاریوں اور انسان کشیوں کا سبب بنے گا۔

ساتھیوں نے سامراجی قوت چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں چین بھی بلوچستان سمیت دنیا کے کٸی سارے محکوم قوموں کو بڑی چالاکی سے اپنے قبضے میں لینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ چین کی ”ڈیبٹ ٹریپ“ پالیسی افریقہ سے لے کر ایشیا تک کٸی محکوم اقوام کو جکڑ چکا ہے اور اب وہ فقط امداد و قرضوں کے سہارے جی رہے ہیں اور چین ان کی اس بے بسی اور یر غمالی کو عالمی فورمز پر اپنے لیے استعمال کر رہا ہے

دوسرا سیشن “تنظیم ” کے عنوان سے تھا، جس کی صدارت سنگت میر واٸس بلوچ نے کی، اور لیڈ آف جلال جورک نے دی۔
تنظیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کسی خاص مقصد کے گرد افراد کا جڑت ہوتا هے ۔اپنے مقصد کے گرد تنظیم کی محنتلف صورتیں ابھرتی ہیں اور مقصد کے حصول کے لیے عمل کرنا جسے سیاسی زبان میں حکمت عملی کہیے ہے ترتیب پاتی ہے ۔ٹراسکی کا حوالہ دیتے ہوئے ساتھیوں کہا کہ “تنظیم سب سے پہلے ایک نظریہ ،پھر حکمت عملی اور اس کے بعد طریقہ کار ہوتی ہے “

تنظیم کی ضرورت و اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے تمام محکوم عوام کا واحد سہارا سیاسی نظم و ضبط سے بھرے سْیاسی تنظیم اور ان کے جہد کار کیڈرز ہیں جو عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور انہیں غلامی سے نجات دلانے کے لیے راہ فراہم کرنے کا کام کرتا ہے
مزید برآں تیسرا سیشن “پولیٹیکل اکنومی ” کے عنوان سے تھا، جس کی صدارت کامریڈ رضوانہ بلوچ نے کی، اور لیڈ آف ظہور بلوچ نے دی۔

ساتھی نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ
معاشیات اور سیاسیات انسانی تاریخ میں کبھی بھی دو الگ موضوعات نہیں رہے اور نہ ہی ان کو الگ کیا جا سکتا ہے۔ اقتصادیات کے علم کے بغیر سیاست ایک مہمل چیز ہے اور سیاسی شعور کے بغیر کبھی درست معاشی فیصلے نہیں کیے جا سکتے۔ زمانہ قدیم سے اقتصادیات کے علم کو پولیٹیکل اکانومی کہا جاتا تھا جو طاقت اور وسائل کی تقسیم کے ایک دوسرے پر ناگزیر انحصار پر دلالت کرتا تھا۔ 1930ء سے پہلے کلاسیکل اکانومسٹ ہوں یا ایڈم سمتھ جیسے ماڈرن دور کے اکانومسٹ ہوں، تمام نے اقتصادیات کیلیے پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح استعمال کی۔

1930ء کے بعد سامراجی دنیا نے اس حقیقت کو سمجھا کہ اگر سیاست اور معیشت کو دو الگ قالبوں میں ڈھال دیا جائے اور عوام کو غیرسیاسی بنا دیا جائے تو ان کا استحصال آسان ہو جاتا ہے اور یوں ان کے اندر سے مزاحمتی سوچ ختم ہو جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عوام کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ ان کے وسائل پر کون قابض ہے اور معاشی مسائل کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ جنانچہ عوام کو غیر سیاسی بنا کر تمام وسائل اور ان کے حوالے سے فیصلوں کو مٹھی بھر اقلیت کی گود میں ڈال دیا گیا اور یوں استحصال مزید ننگا اور جابرانہ ہوتا چلا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ استحصال کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کے خلاف عوام کے اندر سے انقلابی اور مزاحمتی سوچ کو ختم کرنے کیلیے عوام کو این جی اوز، مذہبی جماعتوں اور خیراتی اداروں کے زریعے بے اثر کر دیا گیا۔

چوتھا سیشن “جدلیاتی مادیت” کے عنوان سے تھا، جس کی صدارت یونس بلوچ نے کی، اور لیڈ آف حسیب بلوچ نے دی ۔ سیشن میں سیاسی جدوجہد اور محکوم عوام کے لیے فلسفہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی، اور جدلیاتی فلسفہ پر بات کرتے ہوئے ساتھیوں نے کہا کہ یقیناً اس استحصالی نظام کے متبادل میں سماجی اور فطری حقیقتوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے جدلیاتی مادیت مظلوم اور محکوم اقوام کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد میں ایک سائنسی عینک کی حیثیت رکھتی ہے ۔
مزید برآں ساتھیوں کے سوالات کی روشنی میں سیشن کا اختتام کیا گیا۔

پانچویں سیشن “بلوچ قومی سوال ” کے عنوان سے تھا، جس کی صدارت سنگت میر عثمان بلوچ نے کی، اور لیڈ آف کامریڈ سازیں بلوچ نے دی۔

قوم کی تعریف کرتے ہوئے ساتھی نے کہا کہ انسانوں کا ایسا گروہ جن کا ایک مشترکہ وطن ہو، جو مشترکہ سیاسی اور شعوری تاریخ رکھتے ہوں، مشترکہ ثقافت ہو،جس کی مشترکہ زبانیں ہوں اور مشترکہ معیشت اور مشترکہ مقاصد ہوں وہ انسانی گروہ ایک قوم کہلاتا ہے۔

ان تمام تر چیزوں کو بچانا ان کی بقا کی خاطر مزاحمت کرنا ہی قومی سوال کے ساتھ انصاف ہے اور اگر دیکھا جائے تو مختلف اقوام کو زندہ بھی ان کی جدوجہد نے رکھا ہے۔ جن اقوام نے سامراج طاقتور کے سامنے سرنڈر کیا ہے ان کا وجود آج ملیامیٹ ہوچکا ہے ان کی باقیات بھی دیکھنے کو نہیں ملتے ، سامراجی طاقتیں اپنے سے کم تر چاہے وہ معاشی صورت میں ہو یا سیاسی و جغرافیائی صورت میں ہمیشہ ایسے اقوام پے یلغار کرکے اسے اپنے اندر ضم کرکے اس قوم کی شناخت کو مٹا کے ان پر حکمرانی کرتے ہیں اور ان کی شناخت کو مٹانے کے لئے انکی ثقافت کو مسخ کرکے اپنے بنائے ہوئے رسم و رواج ان پے مسلط کرتے ہیں۔

دنیا میں جتنے بھی اقوام ہیں انہوں نے جب بھی اپنی قوم کو خطرے میں دیکھا تو قومی بقا کے لئے جدوجہد کی اور سامراجی طاقتوں کے سامنے جھکنے کی بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا کچھ اپنی خاندانوں کی قربانی دینی پڑی تو کچھ کو وطن بدر ہونا پڑا، ان جہد کاروں میں سے بلوچ قوم بھی شامل ہے جو ہر سامراجی طاقت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہوئے چائیے وہ پرتگیزی ہو یا برطانوی سامراج یا پھر ضیاء و ایوب کی آمریت بلوچ وہ قوم ہے جس نے اپنی قومی بقا کی خاطر مسلسل جنگیں لڑی ہیں اور آج بھی مزاحمت کر رہے ہیں بلوچستان ایک ایسے خطے میں ہے جہاں سے دنیا بھر کے لئے بحری اور بری راستے ہے تو دنیابھر کی سامراجی قوتوں کی نظریں اس خطے پر جمی ہوٸی ہیں۔

سامراجی طاقتوں نے بلوچستان کی وسیع سرزمین سے اس کے دو لاکھ مربع میل سرزمین چھین لی اور جو باقی بچا ہے وہ آج بھی غیر مہذب طاقت کے قبضے میں ہے جس کے لئے آج بھی بلوچ مزاحمت کار جہدوجہد میں مصروف ہیں۔ قومی حق حاکمیت کی اس لڑاٸی کو مزید توانا و خوبصورت بی ایس او جیسے انقلابی مادر علمی نے کیا ہے۔ بی ایس او نے ہمیشہ طاقتور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مزاحمت کی ہے اور اس قومی مزاحمت کو ہمیشہ تواناٸی بھی بخشا ہے۔

آخر میں ساتھیوں انقلابی گیتوں، اور انقلابی نغموں کے ساتھ بی ایس او کے نعروں کی گونج میں ریجنل اسکول کا اختتام کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.