بک ریویو: پری ہسٹاریکل بلوچستان

کتاب : پری ہسٹاریکل بلوچستان
مصنف:ڈاکٹر شاہ محمد مری
ریویو : جلال جورکؔ

شاہ محمد مری کی کتاب “پیپلز ہسٹری آف بلوچستان” جس میں بلوچ سرزمین و بلوچ نسل کی تاریخی پس منظر کو واضح انداز میں بْیان کیا گیا ہے جو کہ اُس دور کے تناظر میں لکھا گیا تھا جب ماہر آثار قدیمہ نے گیارہ ہزار سال پرانی انسانی تہذیب مہرگڑھ کو دریافت کیا۔ جس میں مصنف پتھر کے زمانے سے لے کر کانسی کا زمانہ پھر کانسی سے لے کر لوہے کے زمانے تک بلوچ نسل کے ایجادات دریافتیں اور ایک عہد سے دوسرے عہد تک کے طویل سفر کو بھی تفصیلی بْیان کرتا ہے ۔

مصنف اس کتاب میں بلوچستان میں انسانی تہذیب کی ارتقاء کو بْیان کرتے ہوئے یہ سائنسی شوائد پیش کرتا ہے کہ اس سرزمین میں انسانی تہذیب کی تاریخ نہ صرف 500 سال قبلِ مسیح ہے بلکہ اس کی تاریخ گیارہ ہزار سال پرانی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ دنیا کے اب تک کی دریافت شدہ سب سے پہلی انسانی تہذیب ہے۔ زمان ومکان کے اعتبار سے بلوچستان کی تاریخ 4 ارب سال پرانی ہے اور یہ اس وقت کی تاریخ ہے جب بِگ بینگ تھیوری کے بعد نئی نئی یہ دنیا وجود میں آئی تھی۔ اس میں ڈاکٹر شاہ محمد مری زندگی کی بھی ارتقائی منزل کو سائنسی دلائل کے ساتھ واضح الفاظ میں بْیان کرتا ہے کہ بلوچستان ہی کی سرزمین سے کروڑوں سال پرانی زندہ رہنے والے آبی و جنگلی جانداروں کے آثار ملتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے یہ سرزمین زمان و مکان کے اعتبار سے دنیا کی کہن ترین سرزمین ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بگ بینگ کے بعد ایک ایسا زمانہ تھا جس وقت پوری دنیا میں بھی زندگی موجود نہیں تھی جبکہ کروڑوں اربوں سال بعد یک خلیاتی زندگیاں وجود میں آگٸیں، پھر لاکھوں سال بعد بھی زمین پر صرف اور صرف جانور رہتے تھے اور اگر اسں سے پہلے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوگا کہ پہلے پہل یہ ہماری زمین اس قدر گرم ہوا کرتی تھی کہ اس پر کسی قسم کی کوئی زندگی کا وجود ممکن نہیں تھا جبکہ بعد میں آہستہ آہستہ لاکھوں سال بعد اس زمین پھر زندگی کی ابتدا ہوئی اور اسی طرح یہ سرزمین بلوچستان جو کہ اب تو چاروں سمت محض خشک اور بنجر نظر آتی ہے جبکہ آج سے لاکھوں سال پہلے اس کی ساخت کچھ اور تھی ۔جو کہ رفتہ رفتہ وقت اور حالات کی مناسبت سے تبدیل ہوتے ہوتے اس نہج پر پہنچی جیسا کہ آج کا بنجر بلوچستان ہمیں نظر آتا ہے۔

بارکھان اور ڈیرہ بگٹی میں پانچ کروڑ سال پرانے دفن شدہ ڈائنوسار، وہیل مچھلی اور بلوچی تھیریم کی ہڈیاں نکلی ہیں۔ جدید دور کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ بلوچستان کا علاقہ قدیم دور میں خشک اور بنجر نہ تھا۔ بلکہ یہاں کثرت سے بارشیں ہوا کرتی تھیں اور بلوچستان کے پہاڑ اور میدان جنگلات سے بھرے ہوتے تھے جن میں مختلف قسم کے جانوروں کی بہتات تھی۔ اس دور کو “Wet era” (گیلا دور ) کہا جاتا ہے۔ جیولوجیکل اور آرکیالوجیکل شواہد بتاتے ہیں کہ یہ بارانی عہد ابھی حال ہی میں آٹھ دس ہزار سال قبل ختم ہوگیا ہے اور اس کے بعد (خشک دور ) شروع ہوا۔

ضلع بارکھان سے دریافت ہونے والی 5 کروڑ سال پرانی وہیل مچھلی کے فوسلز سے یہی شواہد ملتے ہیں کی یہ کوئی عام وہیل مچھلی نہیں بلکہ اس کے پر بھی تھے جو کہ پانی میں غوطہ لگانے کے ساتھ ساتھ خشکی پر بھی زندگی گزارنے کا قابل تھا اور اسی طرح ڈیرہ بگٹی سے بھی کروڑوں سال پرانی بلوچی تھیریم جیسے دنیا کے سب سے بڑے جانور کے فوسلز کا ملنا اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بلوچستان میں زندگی کے آثار بہت قدیم ترین ہیں اور اس تھیریم کی خصوصیت یہ بھی تھی اس کی جسامت بڑی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ فی یوم ٹنوں کے حساب سے خوراک کھاتا تھا اور یہ بلوچی تھیریم بلوچستان کے سرسبز جنگلوں میں جھنڈ کی صورت میں آزادنہ زندگی گزارتے تھے۔

مصنف کہتا ہے کہ جب نئے نئے انسانی معاشرے قائم ہوئے تھے تو اس وقت مرد اور عورت اپنی بقا کی خاطر جنگلوں میں مختلف جانوروں کا شکار کرتے تھے اور اکھٹے مل کر کھاتے تھے اسی طرح پتھر کے زمانے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان صنفی بنیاد پر فرق اور امتیاز کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ دونوں ساتھ مل کر شکار نہ کرتے تو بھوک سے مرجاتے۔ وہ ایک ساتھ بیٹھ کر پتھروں کو تراش خراش کرکے اوزار بناتے تھے۔ پھل، جڑی بوٹیاں، اور بیجوں کو مل کر جمع کرتے تھے۔ مرد حضرات اگر شکار کرنے جاتے تھے تو عورتوں نے بیج کو بونا شروع کردی جس کی وجہ سے فصلیں کھلنے لگیں اور اسی طرح لوگ شکار کو چھوڑ کر فصلیں آباد کرنے لگے اور اپنے بھوک کو مٹانے لگے یہاں تک کہ آنے والے وقت کیلئے بھی جمع کرنے لگے اس کام میں خواتین کا بہت اہم کردار رہی ہے۔

بلوچستان میں انسانی تاریخ کی ابتدائی و سب سے پرانی تہذیب مہرگڑھ کا بھی اس کتاب میں خصوصی زکر شامل ہے جو کہ سبی سے 26 کلو میٹر، اور ڈھاڈر سے 10 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مہرگڑھ کے باشندے سورج کی پرستش کیوں اور کب سے کرتے تھے ۔ اور اس مہر گڑھ کی تاریخی تسلسل پر ایک بلوچ فخر تو کرسکتا ہے مگر تکبر اس لئے نہیں کہ پوری کائنات کی تاریخ کے سامنے گیارہ ہزار سال پرانی تاریخ بھی تو کچھ نہیں ہے مگر پھر بھی یہ مہر گڑھ کی دریافت نے بلوچ نسل کے ارتقائی منازل کے بارے میں وہ تمام منفی تصورات کو در بہ در کردیا جن کے بقول بلوچ نسل ہجرت کرکے بلوچستان میں رفتہ رفتہ آباد ہوا ۔

اسی مہرگڑھ میں انسان پتھر یعنی ہجری دور میں رہا۔ اور پھر یہیں ہزاروں برس بعد دھات کے عہد میں داخل ہونے لگا اور کاپر دریافت کیا۔ اور کانسی اور لوہے کے دور میں داخل ہوا۔ اٹلی کے محققوں نے یہاں سے 300 دفن شدہ ڈھانچے نکالے جن میں 9 کے دانت ڈرل شدہ تھے۔ جب تک دنیا میں مہرگڑھ سے قدیم کسی تہذیب کی دریافت نہیں ہوتی تو اُس وقت تک حقيقت یہ رہے گی کہ دنیا میں گندم اور جَو کے یہ سارے تجربے ہوئے ہی بلوچستان میں، اور بلوچستانی عورتوں کے ہاتھوں۔ عورت تو مہر گڑھ کے زمانے سے ہمیں پال رہی ہے۔

بلوچستان کے مری قبائل کے علاقے کوئٹ منڈاہی وادی میں پتھر کی بنی ہوئی کلہاڑیاں ملی ہیں جنہیں انسان، کھانے کےلیے پودوں کی جڑیں نکالنے اور سست رفتار جانوروں کا شکار کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کوائٹ منڈاہی کے لوگ ننگے پاؤں پھرتے تھے، غاروں میں رہتے تھے اور تقریباً 3500 برس قبل مسیح سے تعلق رکھتے تھے۔الغرض مہرگڑھ جس کو عام الفاظ میں مہر کا گڑھ بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ اور اس سائنسی دریافت نے یہ تو واضع کردیا کہ بلوچ قوم کی نسلی تاریخ دنیا کے تمام پرانی قوموں کی طرح قدیم ہے جس کی اپنی ایک واضع اور درست تاریخ ہے ۔

یہ کتاب بلوچستان میں انسانی زندگی کی ارتقائی سفر پر ایک بہترین کتاب ہے جس کو شاید میں مزید واضح الفاظ میں بْیان نہ کرسکوں مگر اپنے تجزیاتی الفاظ بْیان کرنے سے قبل یہ ضرور لکھنا پسند کرونگا کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب بلوچ قوم کےلئے خصوصاً ان جوانوں کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے جو کہ اپنی گلزمین سے محبت کرتے ہیں اور اس کی تاریخ کو واضح کرنے کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں ۔

انسانی تاریخ بلاشبہ بہت پرانی ہے اور سائنس کی مدد سے آج تک ہزاروں کی حساب سے نئے نئے چیزیں اور تہذیبیں دریافت ہوچکی ہے اور اسی طرح بلوچستان کی سرزمین سے مہرگڑھ کی دریافت بھی ایک عظیم کارنامے سے کم نہیں ہے اور اس پہ بلوچ قوم واضح انداز میں فخر کے ساتھ یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ اس کی نسلی تاریخ کہی سے ہجرت شدہ نہیں ہے بلکہ ھم خود بلوچستان کے ہی باشندے ہیں اور اس سرزمین پہ ہماری اجداد کے باقیات کا ملنا ہمیں مزید خود پر اور اپنی تاریخ پر فخر کرنے پہ مجبور کرتی ہے۔ آخر میں بس یہی کہنا باقی رہ جاتا ہے کہ یہ کتاب پڑھنے کے بعد واقعی میں بلوچی زبان ، بلوچ اور بلوچستانی ہونے پہ فخر کرتے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.