بک ریویو: قباٸلی و جاگیرداری عہد

کتاب: قبائلی و جاگیرداری عہد
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
ریویو : جلال جورکؔ

ڈاکٹر شاہ محمد مری کتاب کی”قبائلی و جاگیرداری عہد“ پیپلز ہسٹری آف بلوچستان کا تیسرا جلد ہے جس میں قدیم بلوچ قبائل کی ابتدا اور ان کی ساخت کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں وہ قبیلے کی اناٹومی بیان کرتے ہوئے فرد سے شروع کرتا ہے کہ خاندان میں سب سے بنیادی عضو فرد ہے جس کی کسی بھی خاندان میں بنیادی اہمیت ہے اب یہاں فرد سےمراد سردار یامحض وڈیرہ نہیں بلکہ خاندان کا ہر عام و خاص مرد و زن ہی سے خاندان وجود میں آتا ہے اور یہی قبیلے کی بنیادی رکن کہلاتا ہے اور ساتھ ہی فرد جب مزید تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں تو خاندان وجود میں لاتے ہیں اور اسی خاندان کو بلوچی میں لوغ کہا جاتا ہے جسے متعدد مفکرین سماج نے کا بنیادی رکن کہا ہے۔

اسی ابتدائی یونٹ میں انسان پیدا ہوتا علم حاصل کرتا ہے اور مزید ترقی پاتا ہے ۔ خاندان نہ صرف انفرادی فرد کو جگہ فراہم کرتا ہے بلکہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خاندان کے سر ہوتا ہے جہاں اس کی شادی ہوتی ہے اور وہ مزید اس خاندانی نسل کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ مصنف کے مطابق دنیا میں جتنے بھی قبیلے آج تک بنے ہیں ایسا نہیں ہے کہ وہ ابتدا سے تھے یا ہمیشہ موجود رہیں گے بلکہ ان میں ہمشہ سے حرکت پزیری موجود رہی ہے اور آج تک یہ قبائل ایک مخصوص ارتقائی سفر میں حرکت پذیر ہیں ۔ اسی طرح بلوچ قبائل کا بھی یہی رواج رہا ہے کہ جن میں فرد واحد اور خاندان بنیادی یونٹ ہیں اور جب ان کی تعداد ایک مخصوص علاقے میں زیادہ ہو تو یہ رشتہ داریاں قائم کرتے اور پھر رشتہ داریوں سے ہی (ٹکر) یعنی قبیلے قائم ہوتے ہیں اور قبیلے ہی آگے جاکر قوم کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

اب چونکہ بلوچستان کی تاریخ تو بہت وسیع ہے مگر اس میں جو قبائلی و جاگیردای نظام ہے وہ ہمیں رند و لاشار عہد سے واضح انداز میں نظر آتے ہیں جہاں پر ہر قبیلے کی بنیادی سٹرکچر کے ساتھ ساتھ واضع نظم و ضبط بھی ہوا کرتے تھے جن کی پاسداری ہر عام و خاص بلوچ پر لازمی تھا پہلے کے بلوچ قبائلی سماج میں جہاں جاگیرداری کا رواج عام تھا اس وقت جب ایک ارتقائی سفر سے فرد اکھٹے ہوکر خاندان اور خاندان سے قبیلے کی شکل اختیار کر لیتے تو اس وقت قبیلے کا ایک میر یا سردار بھی مقرر کیا جاتا تھا جس کی اس وقت کے سماج میں بڑی عزت ہوتی تھی یعنی کہ سردار کی بات سنگ پر لکھیر کی طرح تھی۔ یہ سب قبائلی انفراسٹکچر کے آداب تھے جہاں سردار کی جان کی قیمت ہر عام بلوچ کی جان سے زیادہ قیمتی تھا اور اس کی اتنی زیادہ عزت خصوصاً بلوچ سماج میں اس وجہ سے تھی کہ ابتدا میں اسے سردار بنایا جاتا تھا کہ جس میں بہادری ، جرأت ایمانداری ، انصاف اور خاص کر بلوچ قوم کے اجتماعی واضح اوصاف نمایاں ہوں اور ابتدائی بلوچ سماج میں سردار موروثی نہیں تھا۔ جب کہ بعد میں سردار کو موروثی بنایاگیا اور یوں قبیلے میں سرداری محض عیش وعشرت کی ایک کرسی بن گئی۔ ایک اور اہم بات کہ ابتدائی بلوچ سماج میں قبیلے کے مستر کے لیے بلوچ جنریٹ کردہ لفظ” میر” ہے جب کہ سردار و نواب بعد کے سامراجی مسلط کردہ اصطلاحات ہیں۔

اب جیسا کہ اس کتاب کے دوسرے چیپٹر میں قبائل کی تنظیمی ڈھانچے کو تفصیلی بیان کیا گیا جس میں پیرہ مرد ، وڈیرہ اور میر بلوچ سماج کے اہم ترین اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے شخص کہلاتے تھے ان کی بات کو من و عن قبول کیا جاتا تھا اسی طرح آگے جاکر مصنف ترتیب وار اس کتاب میں ان قبائل کو انفرادی طور پر بھی بیان کرتا ہے جن میں اربابی سے لے کر یار احمد زئی تک ان قبیلوں کی ابتدا، زیلی شاخیں اور ان کی جغرافیہ حدود اور ان کی اہمیت کو واضع انداز میں بیان کیا گیا ہے ان قبیلوں کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ اگر بلوچستان کی گیارہ ہزار سالہ تاریخ میں تمام بلوچ قبائل کا احاطہ کیا جائے تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ گیارہ ہزار سالہ تاریخ میں تو بلوچوں کے ہزراوں کے حساب سے قبیلے بنے اور ختم ہوئے اس کتاب میں صرف چند بڑے قبائل زکر اس وجہ سے موجود ہے کہ وہ پرانی بلوچی و فردوسی شاعری کا حصہ رہی ہیں اس وجہ ان قبائل کو یہاں زکر کیا گیا ہے۔

بلوچستان چونکہ ابتدا سے ہی ایک ایسے دور سے گزرا ہے جس میں ابتدائی ارتقائی سفر میں نئی نئی تبدیلیاں اس معاشرے میں آئے ہوئے ہیں اور یہ قبائلی و جاگیر داری عہد بھی انہی تبدیلیوں کا سبب ہے جن سے بلوچ معاشرہ آہستہ آہستہ تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتا گیا اور نئی نئی پریکٹسز کے ساتھ تجربے کرتا رہا۔ آج بھی اگر بلوچ سماج میں دیکھا جائے تو بیسویں صدی میں بھی سیکڑوں کے حساب سے ان قبائل کے ذیلی شاخیں وجود میں آٸی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آگے جاکر یہ زیلی شاخیں ختم ہوں اور ان کی جگہ نئے قبیلے دریافت ہوں یا زیلی شاخیں۔ چونکہ معاشرہ ہمہ وقت ایک تبدیلی کے سفر سے گزر رہے ہیں اور اس سفر میں کچھ بھی ہونے کو ممکن ہے ۔

قبائل کا ایک دوسرے میں زم ہونا یا ایک دورسرے کےساتھ اتحاد قائم کرنے کا بنیادی مقصد ایک تو معیشت کی بحالی تھی جب کہ دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت قبائل کی افرادی قوت کم ہوا کرتی تھی اور بیرونی حملہ آوروں کے ڈر سے یہ قبائل ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرکے اپنی سماجی سرگرمیاں سرانجام دیتے تھے اور چونکہ پرانے زمانے میں بلوچ قبائل خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے اور نئے چراگاہوں کی تلاش میں دوسرے قبیلے کی زمینوں پر انہیں جانے کی ضرورت پیش آتی تھی تو اس اثنا میں بھی ایک قبیلہ ڈپلومیسی کے زریعے دوسرے قبیلے کے سردار سے گفت وشیند کرکے یا تو اس میں زم ہوجاتا تھا یا اس کے ساتھ مل کر علاقائی اتحاد قائم کرتا تھا یہ وہ تمام صورتیں ہیں جن کے بدولت علاقے میں امن قائم کیا جاتا تھا اور بیرونی حملہ آوروں سے بھی بہتر انداز میں نپٹا جاسکتا تھا۔

بلوچ سماج میں گو کہ قبائل کی معیشت کا دارومدار مویشی پالنا اور زراعت تو تھا ہی مگر چونکہ باقی دنیا کے تمام قبیلوں کی طرح بلوچ قبائل کو بھی جنگی جنون نے اپنی لپیٹ میں لینے سے نہیں بخشا اور بہت وقت پہلے یہ قبائل اپنی معیشت کا اہم حصہ جنگ سے لوٹے ہوئے مال غنیمت سے بھی حاصل کرتے تھے اور بلوچ سماج میں قبائل کی ایک بڑی خوبصورتی یہ بھی تھی کہ یہ جب بھی جنگ پر جاتے تو یہ واضح کردہ کچھ جنگی کوڈ آف کنڈکٹس کا لازم خیال رکھتے کی کہ جنگ میں کسی بزرک ،نابالغ بچے یا عورتوں پر کبھی بھی وار نہیں کیا جاتا تھا اور انفرادی لڑائی میں ہمیشہ حریف کو پہلے آگاہ کیا جاتا تھا اور اگر کوئی ایسا کرنے سے باز آجاتا تو معاشرے میں اس کو بہت کمتر اور بزدل تصور کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح بلوچ قبائل جب جنگ سے غنیمت حاصل کرتے تو اس میں ان تمام سپاہیوں کو ان کا حق دیا جاتا تھا جنہوں نے جنگ میں شرکت کی تھی اور بعد میں جب انگریز کا دور شروع ہوا تو اس نے جنگ میں نئی ٹیکنالوجی استمال کی اور تمام جنگی کوڈ آف کنڈکٹ کا ستھیاناس کردیا۔

کتاب کا دوسرا حصہ بلوچستان میں مویشی بانی پر ہے جس میں مصنف نے قدیم بلوچستان میں لوگوں کی معیشت سے جُڑے مویشی بانی کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے اور سب سے بڑھ کر اس میں ان طبقات کو واضح کیا گیا ہے جو مویشی بانی کے دوراں بنے ہیں اور سب سے نچلا طبقہ کہ جس کے توسط سے بالا طبقے کی مکمل اکانومی جنریٹ ہوتی اس کی حالت زار کو بھی خوب بیان کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر بْیان کرتے ہیں کہ مویشی بانی کے دور میں بلوچستان کے لوگوں کا تمام تر معیشت اسی پر ہی مامور تھا یہاں تک کہ اس مویشی بانی نے قبائلی اتحاد و علاقائی اتحاد میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اب اس وسیع کاروبار میں سب سے اہم بھیڑ تھا جسے آج تک بلوچ سماج میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہی بلوچ کی روزی روٹی بھی تھا کہتے ہیں کہ بلوچ سردار کی قسم کے بعد بھیڑ کی قسم کھاتا تھا اور اس کے علاوہ مصنف اس حصے میں خصوصاً اس طبقے کا خاصا ذکر کرتا ہے جس پر اس پورے مویشی بانی کا انحصار ہوتا اور وہی اس میں اہم کردار ادا کرتا جسے پہوال کہا جاتا ہے یعنی کہ چرواہا اور اس چرواہے کہ جو حالت ہے اس طبقے میں سب سے نچلا طبقہ ہی جو کہ مسلسل 17 گھنٹہ دن بھر مشقت کرتا ہے مگر اس کی اجرت کام سے بے حد کم ہے ۔ کہتا ہے کہ بعض لوگ یہی خیال کرتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی طبقہ نہیں مگر جب ان ہہوال،ساربان اور گلپان کی اگر بات کریں تو یقیناً ہم پر بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اس طبقاتی معاشرے میں میں سب سے استحصال زدہ طبقہ یہی ہے جو مسلسل مویشی مالکاں کے ہاتھوں یرغمال ہوتے ہیں۔ پہوال کی صورت ہر وہ بندہ جو کام زیادہ کرتا ہے مگر اجرت کم پاتا ہے ایک الگ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ استحصال زدہ ہے۔

اب چونکہ یہ دور تھا مویشی بانی کا اور لوگوں کا سارا انحصار اسی پر ہی تھا بلوچ کے مرگ میں بھیڑ ،خوشی میں بھیڑ ، بچے کی پیدائش میں بھیڑ ،مہمان نوازی میں بھیڑ یہاں تک کہ ہر رواج کو زندہ رکھنے میں بلوچ بھیڑ کو زبحہ کرتا اور وہ رسم پوری کی جاتی ہے ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو مصنف اس عمل کو جانوروں کا قتل عام بھی کہتا ہے کہ ایک سال میں بلوچ لاکھوں کے حساب سے جانوروں کا قتل عام کرتا ہے اور اس عہد میں نہ صرف گھریلو جانوروں سے گوشت حاصل کی جاتی تھی بلکہ چونکہ اوپر بھی زکر کیا گیا ہے کہ پوری سماجی ڈھانچے کی معیشیت اس سے وابستہ تھی تو اس کی پشم سے لے کر گوشت تک سے معیشت جنریٹ کی جاتی تھی اور آج تک بلوچ سماج میں یہی کام چل رہا ہے ان جانوروں کی دودھ سے شیر و روغن حاصل کی جاتی ہے جوکہ اس سماج میں لوگوں کا پسندیدہ خوراک تصور کیا جاتا ہے اور اس سے بھی اچھی خاصی اکانومی پیدا ہوتی ہے اور نہ صرف یہ کہ بلوچ سماج میں گھریلو جانوروں سے تو گھریلو صنعتوں کا دور بھی شروع ہوجاتا ہے جس میں بھیڑ کی پشم اور اونٹ کی پشم و کھال سے سینکڑوں اشیا بنائے جاتے تھے اور ان کو مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا تھا یہان تک کہ قدیم بلوچ سماج اپنی زندگی کی تمام تر ضروریات انہی گھریلو جانوروں سے حاصل کرتے تھے۔

اچھا جب کسی قبائلی سماج میں عام محنت کش افراد اتنا کچھ تیار کرپاتا تھا تو یہ لازمی امر ہے کہ اس کی ملکیت پہ تو مفت خور سردار لازم ٹیکس عائد کرتے تھے اور یہی بلوچ سماج میں بھی ہوا ان پر میر کی طرف سے ٹیکس بھی عائد تھی جو کہ لازم و ملزوم ادا کرنی ہوتی تھی اور اگر کوئی اس ٹیکس کو جمع نہ کرتا تو اسے جیل کیا جاتا اور سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی ۔

اس کتاب کا تیسرا حصہ بلوچ سماج میں زراعت کی اہمیت و اس پر ہونے والی مشقت کو بیان کرتا ہے کہ بلوچ سماج میں اگر دیکھا جائے تو باقی تمام قوموں کی طرح بلوچ نے بھی اپنی روزی روٹی کے حصول کے لیے جنگ کیے مگر زراعت کی دریافت خود ایک بڑی انقلاب تھی اور اس نے نہ صرف دنیا کے دیگر قوموں کو یہ اہل بنایا کہ وہ زراعت کی مدد سی اپنی خوراک خود حاصل کریں بلکہ بلوچ کو بھی یہ سنچ دی کہ وہ اس عمل سے مزید اکانومی جنریٹ کرے اور اس سے وابستہ دوسرے زرائع بھی استمال کرے جس سے پیٹ بھی بھر جائے اور پیسہ بھی ملے اور بلوچ نے ایسا ہی کیا۔ قدیم زمانے سے لے کر آج تک بلوچ سماج میں لوگوں کی ایک بڑی مقدار اس شعبے سے وابستہ ہیں او زمین پر کام کرکے اپنی ضرورتون کو پورا کر رہی ہیں اور اس پورے عمل میں جو بھی گھر شامل ہوتا تو وہ اپنے بال بچوں سمیت کسان بازی کا کام کرکے اپنی روزی روٹی حاصل کرتے۔

اس کتاب میں مصنف نے جدید زرعی اصلاحات کو بھی بْیان کیا ہے جن کی مدد سے آج یہ شعبہ بڑی طرقی کرگئی ہے اور ان جدید زرائع نے بلوچ کسان کو بھی کافی مدد کی مگر مویشی بانی کی طرح زراعت سے بھی کافی اکانومی جنریٹ کیا جاتا تھا اور اس کام پر بھی ٹیکس عائد تھے جوکہ آج تک ، ششک ، پنجک ، وچارک کے نام سے جانے جاتے ہیں الغرض اس کتاب میں بلوچ سماج میں زراعت کی خصوصیت کو بڑی تفصیل کے ساتھ واضح کردیا ہے۔

اس کتاب کا کا اخری حصہ بلوچستان کے ان کسان تحریکوں کے بارے میں ہے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں سب سے پہلے کی سوشلسٹ کسان تحریک کہلائے جائیں مصنف بیان کرتا ہے قدیم زمانے میں مزدک ایک زرتشتی پیشوا تھا مگر اسے غلیظ جاگیرداری نظام اور لوگوں کی بے بسی نے جھنجوڑ کر رکھ دیا تو اس نے زمین کی ملکیت کو ختم کرنے کے لیے آواز بلند کیا شہنشاہ کی ناروا سلوک کے خلاف لوگوں کو موبلائز کیا اور یہ اعلان کیا کی جس کے پاس زیادہ ملکیت ہے اس کو لوٹا جائے تو کسانوں نے ایسا کیا اور اب یہ تحریک شہنشاہ ایران کے لیے درد سر بن گئی تھی چنانچہ نوشیروان نے اس مزدک تحریک کوکچلنے کا زمہ اپنے سرلیا اور اس نے دھوکے سے اس تحریک کےتمام کارکنوں کو لیڈر سمیت کچل دیا مگر چونکہ یہ اس وقت کی اتنی بڑی تحریک اتنی جلدی تو ختم نہ ہونے والی تھی اور اسی کے ہی اثرات ہیں کہ پندرویں صدی میں خضدار کے علاقے میں بھی اس طرح کی کسان تحریک ابھرتی ہے اور اس کو کچلنے کے لئے خان قلات کو ہزاروں کے حساب سے فوج روانہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور ان کسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے ۔

الغرض اس پورے کتاب کو پڑھنے کے بعد میں اپنے تجزیاتی کلمات یوں بیان کرنا چاہونگا کہ پوری بلوچ قوم کی قدیم تاریخ ایک مکمل مشقت و مزاحمتی تاریخ ہے جس نے بلوچ کو نہ صرف بیرونی حملہ آوروں سے نجات دلائی بلکہ اندورنی سفاکیت و استحصال کے خلاف بھی بلوچ کو اٹھ کر بغاوت کرنے کی جرأت عطا کرتا ہے اور آج کے دور میں بھی تاریخ ہر بلوچ سے یہی تقاضہ کرتا ہے کہ ان تمام بیرونی و اندارونی مظالم کے خلاف ہر ڈگر پر بغاوت کی جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.