بک ریویو: نوآبادیاتی معاشی ڈھانچے کا تسلسل

کتاب : نوآبادیاتی معاشی ڈھانچے کا تسلسل
مصنف : مسعود خالد
ریویو : جلال جورکؔ

جناب خالد مسعود نے ایک کتابچہ نوآبادیاتی معاشی ڈھانچے کا تسلسل کے نام سے تصنیف کی ہے جس میں وہ ہماری سماجی پسماندگی اور استعماری نظام کی مادی وجوہات کو بیان کرتے ہیں اور اس کتاب میں وہ قارئین کو محض قیاس آرائی سے سمجھانے کے قائل نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ استعمار کا مطالعہ حقیقی تجربیت پسندی کے نقطہ نظر سے کر کے حقیقی مادی وجوہات کو تلاش کرتے ہیں وہ اس کتابچے کی ابتداء ہی میں بیان کرتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں دو طرح کے علوم رائج ہیں ایک تو حواسی علم اور دوسرا قیاسی جب کہ قیاسی علم میں جب بھی آپ کا دل چائیں آپ اپنی رائے تبدیل کرسکتے ہیں مگر حواسی علم میں آپ اگر اپنی رائے تبدیل کرنا بھی چاہیں تو وہ حقیقت کے خلاف سمجھا جائے گا چونکہ حواس سے جب کوئی تجربہ کرکے کسی عمل کی مادی وجوہات کو دریافت کرتا ہے تو وہ کبھی بھی غلط نہیں ہوسکتا اور ضروری بھی یہی ہے کہ اس وقت ہم سماجی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے استعمار کی مادی وجوہات کو حواسی علم کے زریعے تلاش کریں۔

وہ استعمار کی مادی وجوہات کو بیان کرنے سے پہلے مزید کچھ یوں کہتا ہے کہ جب سے یہ دنیا بنی ہے تب سے ایک ارتقائی سفر جاری ہے جس میں انسان مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش میں ہر دور سے گزرا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نئے نئے انسانی سماج قائم ہوئے ہیں۔ اس وقت سماجی و فطرتی مظاہر کو مِتھ سے ثابت کیا گیا اور متعدد دیوتاؤں کی کہانیاں بنائی گئیں اس دور کو مائتھالوجی کہا جاتا ہے اور اس کے بعد مذہب کا دور شروع ہوا جس میں تمام تبدیلیوں کو الہامی وجوہات کے ساتھ جوڑا گیا اور انسان جب سماجی ارتقاہ کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوا تو وہ دور “وجوہات تلاش کرنے کا دور تھا ” اور اس دور کے بعد انسان مسلسل طویل سماجی ارتقائی سفر کے بعد جدید یعنی کہ آج کے سائنسی دور میں داخل ہوا تو اس نے تمام تر فرسودہ نظریات کو رد کر کے نئے ایجادات اور دریافتیں کیں اور ہر عمل کے مادی وجوہات کو دریافت کرنے کی تگ و دو میں کوشش کرتا رہا کہ کسی بھی علت کی کوئی نہ کوئی معلول ضروری ہے۔ اس وجہ کی تلاش نے انسان کو تمام تر سماجی برائیوں سے چھٹکارا دلانے کا اہم کام کیا لیکن ہمارے لیے آج بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی جانچ کرلیں کہ اس جدید دور میں ہماری قیاسی علم حواسی علم پہ بھاری تو نہیں؟

چونکہ یہ تو سب پہ عیاں ہے کہ استعمار سے مراد کسی دوسرے ملک پہ اپنی آبادی قائم کرنا اور یہی وہ بنیادی مرحلہ ہے جس کے توسط سے سامراجی طاقتوں نے کمزور و پسماندہ ممالک کو اپنے قبضے میں لے کر ان کو اپنی کالونی کے طور پر استعمال کیا ہے اس کو مزید وہ اس طرح واضح کرتا ہے کہ دراصل کسی ریاست کا کمزور ملک پہ قبضہ کرکے اس کی معاشی، سماجی و فوجی اڈوں کو کنٹرول کرنا سامراج کہلاتا ہے اور اگر کوئی ریاست کسی ملک پہ قبضہ کیے بغیر اس کی معاشی سماجی ڈھانچوں کو کنٹرول کرے تو یہ جدید سامراجی قبضہ گیریت کہلاتا ہے اور آج تو پوری دینا میں یہی جدید سامراجی نظام نے اقوام کو یرغمال بنا کر اپنے فاضل صنعتی اشیاء کے لیے منڈیاں بنائی ہوئی ہیں جن سے وہ سالانہ کھربوں ڈالرز کا سرمایہ اکھٹا کرتا ہے اور نوآبادیاتی ممالک روز اول سے خسارے کا ہرجانہ بھر رہے ہوتے ہیں۔

تجارتی سرمایہ کاری کے دور پر بات کرتے ہوئے مصنف کہتا ہے کہ جیسا کہ آج ہر ایک پسماندہ ممالک کی شہری کا خواب ہے کہ یورپ میں جا بسے اسی طرح چند صدی پہلے یورپی ممالک کے شہریوں کا بھی یہی خواب ہندوستان کے بارے میں تھا چنانچہ اپنی مال کو فروخت کرنے کے لیے جب برطانیہ کے تاجر سمندری راستے میں منڈی تلاش کرنے لگے تو وہ ہندوستان پہنچے اور 1600 میں انہوں نے ابتدائی 7000 پاؤنڈز کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرمایہ کاری شروع کی اور وہ اس کمپنی کی مدد سے اپنی اجارہ داری اس طرح مضبوط کرگئے کہ 1813 تک انہوں نے ایک ارب پاؤنڈ خزانہ سمیٹ کر برطانیہ منتقل کردیا اور انہی کے خزانے سے برطانیہ میں صنعتی انقلاب آیا، اور جب برطانیہ میں صنعتی دور شروع ہوا تو وہاں کے سرمایہ داروں نے اپنی مال کو ہندوستان میں فروخت کرنا شروع کردیا اور ہندوستان جو کہ چند دہائی پہلے دنیا میں کپڑے کی صنعت کاری کے لئے مشہور تھا اس کا کپڑا برطانوی کپڑے سے بہت سستا بکنے لگا اور یوں اس کی مانگ پوری دنیا میں کم ہونے لگی اور بہت بڑا ظلم جو ہندوستانی صنعت کاروں کے ساتھ کیا گیا وہ یہ تھا کہ ان کی صنعت پر اجارہ داری قائم کرکے ان کو زرعی کام پہ لگا دیا یوں آخری وقت تک ہندوستان مکمل طور پر برطانوی صنعت کاروں کے لیے مال بیچنے کی منڈی کے طور پر استعمال ہوتا گیا۔

ایک اور اہم بات کا زکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نوآبادیاتی دور کے پہلے مرحلے میں ہندوستانی سماج میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کی گئی جب کہ دوسرے مرحلے میں جب برطانیہ کی پکڑ زیادہ ہوگئی تو انہوں نے “فوج ، بیوروکریٹس ، غیر پیداواری تعلیم اور زرعی معیشیت کو تقویت دی تاکہ یہ سماج مزید پسماندگی میں رہیں ۔

مصنف بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد 1900 سے 1939 تک کا دور تھا وہ مالیاتی سرمایہ کا دور تھا جس میں تجارتی سرمایہ کار اپنی کمائی ہوئی منافع سے مزید صنعت بنانے شروع ہوگئے اور اسی دور میں برطانوی پارلیمنٹ میں ایک بِل پاس کیا گیا کہ ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم کردی گئی اب کوئی بھی وہاں صنعت کاری کرسکتا ہے تو اس بِل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی سارے مقامی لوگوں نے بھی بینکوں سے قرضہ لیکر اپنی صنعت قائم کرنا شروع کردیا مگر اس اجارہ داری کے دور میں بڑی بڑی صنعتوں کے مالکان نے چھوٹی صنعتوں کے مقابلے میں اپنی مال کو سستا بیچنا شروع کردیا یوں وہ چھوٹی صنعتیں دیوالیہ کا شکار ہوگئے۔ مگر چونکہ وہ ایک ایسا دور تھا کہ جس میں صرف اور صرف منافع کی خاطر تمام تر غیر انسانی سلوک روا رکھے جارہے تھے اور سب سے بڑی اہمیت نوآبادیاتی منڈیوں کی تھی تو منڈیوں کی چھینا جھپٹی کے لئے دو عالمی جنگیں بھی لڑی گئیں اور کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا اور بعد میں ان جنگوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

مگر یہاں تک بھی سرمایہ داروں کا کمزور ممالک کی منڈیوں پر قبضہ ختم نہیں ہوا تھا چنانچہ 1944 تا 1947 تک برٹن وڈز سسٹم کے تحت IMF جیسے ادروں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس کی پالیسی سرمایہ دار ممالک کے لیے الگ جب کہ کمزور ممالک کے لئے الگ تھا اور اس کے توسط سے کمزور ممالک کو مشکل وقت میں قرضہ دیکر مزید انگریز کا غلام بنایا جانے لگا اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔

اور جب بعد میں جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانیہ کا کمر ٹوٹ گیا تھا اور وہ اس قابل نہیں رہا کہ مزید اپنی نوآبادیاتی نظام کو برائے راست جاری رکھ سکیں اسی لیے ہندوستاں کو دو حصوں (پاکستان اور بھارت) میں تقسیم کردیا گیا اور اپنی نوآبادیاتی نظام کو بلواسطہ جاری رکھا جو کہ آج تک جاری ہے ۔ مصنف مزید بیان کرتے ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد اس کے پاس دو راستے تھے ایک تو وہ پرانے انگریزی نوآبادیاتی نظام کو مزید جاری رکھ کر اپنی ریاستی و معاشی نظام کو آگے بڑھائیں یا تو نئی سیاسی اصطلاحات کا سہارا لیتے ہوئے نئے نظام متعارف کروا دیں مگر چونکہ پاکستانی سرمایہ داروں اور سیاسی جاگیر داروں نے پرانے نوآبادیاتی نظام ہی کو جاری رکھا جس کی بنیادی مثال جناح کی پہلے گورنر جنرل کے عہدے پر براجمان ہونا تھا اور اس کے بعد ہی امریکی حکام کا اس ریاست پر بلا واسطہ و بلواسطہ اپنی نوآبادیاتی نظام کو جاری رکھنے کے اثرات رہے ہیں جو کہ آج تک جاری ہے اور اسی طرح جب بھٹو کا دورِ اقتدار شروع ہوتا ہے تو اس نے سوشلزم کے نام پر اس ریاست میں مزید بیرونی نوآبادیاتی نظام کو اپنی اصلاحات کے زریعے تقویت بخشی ضیاء اور یحیی کے دور کا بھی زکر کرتے ہوئے ان کی سیاسی بے راہ روی اور انگریز کی غلامی کے اثرات اور اس قوم کی مزید محکومی کے اسباب کو بہتر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس پورے دنیا میں نوآبادیاتی نظام ایک غیر انسانی و غیر تہذیب یافتہ نظام ہے جس کے توسط سے طاقتور ملک کمزور ممالک پر اپنا قبضہ جما کر ساحل و سائل کو لوٹ کر عوام کی سماجی زندگی کو بد سے بدتر بناتے ہیں۔ دولت کی حوس اور آمدنی کی لالچ نے نہ صرف انگریز بلکہ دنیا کے تمام تر طاقتور ریاستوں کو اندھا کردیا تھا جنہوں نے حد سے بڑھ کر اپنی کالونیاں قائم کیے اور اسی طرح عرصہ دراز سے بلوچ سرزمین بھی بیرونی طاقتوں کے زیر اثر کالونی بن کر رہ گئی اور ان بیرونی طاقتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد طریقہ بھر پور مزاحمت اور سوشلزم کا قیام ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.