نوآبادیاتی نظام اور قبائلی جنگیں۔

تحریر : چنگیز بلوچ

بلوچستان میں قبائلی جنگوں اور برادر کشی نے کئی بار خانہ جنگی کی صورت حال اختیار کی ہے۔ اس کی بڑی مثال تو چاکر اور گہرام کی برادر کشی ہے، لیکن کئی بلوچ قبائل اسی سطح کے کشت و خون میں ملوث رہے ہیں جو اتنی شہرت نہیں حاصل کرپائے لیکن بلوچ کو دہائیوں پیچھے ضرور پہنچا دیا۔ اسے برطانیہ نے آکر ایک مرکزی ریاستی نظام اور زر کے ساتھ منسلک کردیا، جس کی وجہ سے قبائلیت جدید عہد میں مسخ شدہ (پرورٹڈ) شکل میں پہنچی۔ نوآبادیاتی نظام کی شروعات سے ہی قبائلی نظام سامراجی مفادات کیلیے استعمال ہوتا رہا ہے، اور اسے انہی سامراجی مفادات کے گرد ہی برقرار بھی رکھا گیا ہے۔ ورنہ قبائلی نظام اپنے نامیاتی ارتقاء میں ایک اور شکل کو پہنچ چکا ہوتا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی انگریزی پالیسی کو اسی طرح رائج رکھا گیا، یہاں تک کے نیپ حکومت کے سرداری نظام کے خلاف بل کو پاکستان کے سب سے ترقی پسند حکمران یعنی ذوالفقار علی بھٹو نے ہی روکا اور بلوچستان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مدعہ قبضہ ہے ناکہ ترقی۔

آج بلوچستان میں قبائلی جنگیں باقاعدہ ایک عالمی کردار بھی رکھتی ہے، جو نہ صرف ریاستی پالیسی کی ایک کڑی ہے بلکہ بلیک اکانومی کی نمود اور گردش کیلئے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ بلوچستان کے راستے سے منشیات، اسلحے اور انسانی تجارت کا بڑا حصہ اسی طرح منظم کیا گیا ہے۔ باقاعدہ مخصوص علاقوں اور قبائل کو اسٹیک ہولڈر بنا کر بہت آسانی سے بلیک اکانومی کی ریل پھیل ممکن بنائی گئی، اس طرح ایک ایسا طبقہ بنایا گیا جس کا لوکل معیشت سے کوئی تعلق نہیں رہتا اور اسی وجہ سے نچلی سطح پر استحصال کرنا بھی اس کیلئے آسان ہوتا ہے۔

بلوچستان میں بڑے شہروں کی کمی کی وجہ سے قبائلی نظام ہی یہاں کی سماجی زندگی کا تعین کرتا ہے، اور قبائلی نظام کی سیاست آج کے عہد کے تناظر میں مکمل نوآبادیاتی صورت اور کردار اپنا چکی ہے۔ قبائلی نظام میں انیسویں صدی کی سٹرکچرل تبدیلیاں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی پراکسی وار کی سیاست کے تناظر میں سرمایہ ( جو کہ زیادہ تر بلیک اکانومی پر مشتمل ہوتا ہے) کی مداخلت نے قبائلیت کی اساس کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج کی قبائلی جنگیں چاکر و گہرام کی طرح کسی معیار کے تابع نہیں ہے جو کہ قبائلی نظام کی بنیاد تھی، بلکہ آج کی جنگیں خالص مادی مفادات کے گرد ہوتی ہے۔ یہ مادی مفادات سامراجی نظر کرم و زمینی قبضے سے لے کر بلیک اکانومی میں زیادہ حصہ بٹورنے کے گرد ہی محدود ہیں۔

  برطانوی طبقاتی نظام کے متعارف ہونے کے بعد سے لوکل سطح پر ایک اشرافیہ ابھاری گئی، جس کی بقا کا تعین ہی آقا (سامراج) کے مفادات کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ سامراجی پالیسی اور ان کا کردار کبھی ان کے اقتدار کو مضبوط نہیں ہونے دیتا اور اسی وجہ سے یہ نیچے کی سطح پے کسی بھی قسم کی سیاسی ہلچل یا اتحاد کو برداشت نہیں کرسکتے۔
خاندانوں کی آپسی لڑائی میں ایک کی کمک کر کے یا دونوں ہی پارٹیوں کو اسلح مہیا کر کے اسے قبائلی سطح پر لایا جاتا ہے۔ اس طرح جنگ چلتی رہتی ہے اور اس کی مد میں ان کے اقتدار اور اپنی محرومیوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ جیسے کے کچھ دن پہلے وڈھ میں قبائلی تنازعہ میں 12 کے قریب افراد کا نقصان اٹھانے کے بعد ایک قبیلہ احتجاج پر نکل آیا، دونوں اطراف کو ریاستی پشت پناہی حاصل ہے۔ لیکن ایک کو زیادہ چھوٹ اور بہترین اسلحے سے نوازا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کیلیے معاشی ذرائع بھی چوری، ڈکیتی اور بھتہ خوری کی شکل میں کھول دیے گئے تاکہ ہمہ وقت عوام ان قبائلی گروہوں کی یرغمال رہے اور اس کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت کا ابھرنا ناممکن ہو۔

ضرورت یہ ہے کہ احتجاج کو ایک سیاسی صورت اور بیانیہ دیا جائے۔ یہ قبائلی تنازعے کبھی ایک علاقے میں حل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی کسی ایک معرکہ (جرگہ) میں اس کا فیصلہ ممکن ہے، یہ ایک قومی مسئلہ ہے جس کا حل بھی قومی سطح کے شعوری و سیاسی عمل سے ہی ممکن ہے۔ اس برادر کشی سے فائدہ اٹھانے والی قوتوں کی شناخت کرنا اور لڑائی کو ان کی طرف موڑے بغیر ہم کبھی امن نہیں دیکھ سکے گے۔ صدیوں سے جاری اس کشت و خون کا بدلہ دراصل سامراج اور اس کے بنائے نظام سے لینا ہوگا، تاکہ ہم آنے والی نسلوں کو بھی جبر سے نجات دلا سکے۔

بلوچستان کے ہر علاقے میں قبائلی کشت و خون مسلسل رواں ہے۔ اس میں سب سے زیادہ فائدہ لوکل اشرافیہ اٹھاتی ہے اور بالعموم تمام مقتدرہ قوتیں اندرونی خانہ جنگی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ اس مسلسل جنگ سے نجات کا فقط ایک ہی حل ہے کہ آپسی جنگ و برادر کشی کی سمت کو برسراقتدار طبقات کی طرف موڑا جائے۔ اشرافیہ اور اس کی سرپرست سامراجی قوت کے خلاف لڑائی ہی محکوم کو اس کا حق دے سکتی ہے، ورنہ جلد یا بدیر آپس میں لڑنے والے قبائل باقاعدہ پراکسی میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور کسی بھی بڑی قیمت پر بکنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ بلوچستان میں کئی بار ہوچکا ہے اور اس وقت بھی ڈیتھ سکواڈز قبائلی اور خاندانی بنیادوں پر اپنا وجود قائم کیے ہوئے ہیں۔۔

پاکستان کی مثال نوآبادیاتی نظام کی بوسیدگی کی بہترین مثال بھی ہے جس نے اپنے ہومن ریسورس کو بڑھانے کی بجائے اس کا قتل عام کروایا۔ علمی و شعوری بنیادوں پر آبادی کو جدید تقاضوں کے مد مقابل لانے کی بجائے اسے ایک تابعدار نوکر بنایا اور معیشت کی ترقی کو بیرونی خیرات کے ساتھ نتھی کرنے کے نتائج آج ہمارے سامنے معاشی، سیاسی و ثقافتی تباہی کی صورت میں واضح ہے۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس نظام کی مکمل تبدیلی کو ممکن بنایا جائے۔ جب تک سامراج کے بنائے گئے ڈھانچے کو اکھاڑ نہیں پھینکا جاتا اور اس کی جگہ آج کے معروض اور ضروریات کے مطابق نظام متعارف نہیں کروایا جاتا آزادی، برابری اور انصاف جیسے عظیم تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.