جمہوریت اور مارکسی تناظر

تحریر : جلال جورکؔ

آج کے سرمایہ دارانہ عہد میں لبرل دانشور جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ یہ وہ جمہوریت ہے جسے کیپٹلزم کے بے تاج بادشاہ امریکہ نے باقاعدہ بیانیہ اور پالیسی کے تحت دوسرے اقوام پر مسلط کرنے کی بارہا کوشش کی ہے، اور ایسا کرنے کےلیے درجنوں اقوام کی سرزمین کو سفاکیت و جنگی درندگی کا نشانہ بنا کر لاکھوں لوگوں کو قتل اور کروڑوں کو بھوک افلاس اور بدحالی میں دھکیلا گیا۔ لبرل جمہوریت میں حاکم طبقہ ہی یہ طے کرتا ہے کہ حکمران طبقے سے کون کون مزید نچلی سطح کے محکوم طبقات پر حکمرانی کریں گے۔ اکیسویں صدی میں تو اس لبرل جمہوریت کی حالت یہ ہوگٸی ہے کہ حکومت کرنے کا تاج اس گروہ کے سر باندھا جاتا ہے جو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ارب پتیوں کا مطیع و فرمانبردار ہو۔ اس کےلیے امریکہ و دیگر سرمایہ دارانہ ممالک میں ملٹی نیشنل کمپنیاں باقاعدہ الیکشنی مہم پر سرمایہ کاری کر کے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔

مگر مارکس وادی حلقے اس ڈھونگی اور جھوٹی جمہوریت کا پردہ چاک کرکے ”جمہوریت“ کے حوالے سے اپنا دوٹوک مٶقف اور پالیسی رکھتے ہیں جو کہ بورژوا جمہوریت کے بالکل الٹ ہے۔

ان کے ہاں جمہوریت فقط بالاٸی طبقات کے باری باری کی حکمرانی نہیں بلکہ عمومی طورپر عام عوام کی شراکت ہے جو کہ نجی ملکیت (ذراٸع پیداوار) سے محروم ہیں۔ مارکسی تناظر میں سرمایہ داروں داروں کےلیے جمہوریت میں کوٸی جگہ نہیں، نہ وہ اپنے سرمایہ کے بل بوتے پر ووٹ خرید سکتے ہیں نہ ہی وہ کسی مَن چاہے طابع شخص کو ووٹ یا پھر حکمرانی کا منصب دلا سکتے ہیں۔

جمہوریت کے ارتقاء کی ایک منزل ایسی آتی ہے جب شروع میں وہ اس طبقے کو ایک ساتھ کھڑا کر دیتی ہے جو سرمایہ داری کے خلاف انقلابی جنگ کرتا ہے، یعنی پرولتاریہ طبقہ، اور اسے اس کا موقع دیتی ہے کہ بورژوا سرکاری بندوبست باقاعده فوج، پولیس اور دفتری مشینری کے ٹکڑے کر دے، اس کے پر خچے اڑا دے اور روئے زمین سے صاف کر دے اور اس کی جگہ اپنے لیے زیادہ جمہوری سرکاری بند و بست قائم کرے ، مگر ہاں یہ سرکاری مشینری بھی ایسی ہوگی جو مسلح مزدوروں کی صورت میں آئے گی ، اور مسلح مزدوروں کی جمعیت بڑھتے بڑھتے ملیشیا کی شکل اختیار کرلے گی جس میں تمام آبادی شریک ہوگی۔ یہاں پہنچ کر مقدار معیار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اب جمہوریت کی اس تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکس دراصل ایک سوال کے جواب میں جمہوریت کی بحالی کے حوالے سے واضح طور پر یوں بیان کرتا ہے کہ جمہوریت کسی بھی ریاست یا سامراج کے لئے محض ایک عام خیال کے سوا اور کچھ نہیں اس پر وہ مزید منطقی دلائل دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ تمام ریاستیں یا سامراجی قوتیں جو کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پہ قائم ہیں تو ان میں واضع طور پر دو طبقات آمنے سامنے ہوجاتے ہیں ایک بورژوا طبقہ جو کہ مسلسل سرمایہ کو ہڑپنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اور دوسرا پرولتاریہ طبقہ جس کی محنت سے حاصل ہونے والی سرمایہ کو لوٹا جارہا ہے اور مسلسل اس کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اب ان دو متضاد طبقات کے درمیانی اضداد کی اصل وجہ وہ حدود ہی ہے جسے ریاست یا سامراج کہتے ہیں جس کے توسط سے مسلسل ایک جنگ کا سماں پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ اور اس ریاست کی حفاظت اور سرمایہ داری نظام کی بڑھوتری کے لئے بورژوا طبقہ مسلسل اپنی پوری زور لگارہا ہوتا ہے کیونکہ ان کی تمام تر بقا ہی اسی ڈھانچے میں پیوست ہے ۔لیکن اس عمل کے دوران عام عوام یا عام پرولتاریہ طبقے میں جمہوریت کی مانگ بڑھ جاتی ہے چونکہ یہ ایک واضح مزاحمتی عمل ہے اور اس عمل کو تقویت دینے کے لیے محض اصلاحات کی ضرورت نہیں ہے چاہے وہ اصلاحات “آئیڈیل ” کیوں نہ ہوں ۔

جمہوریت کی بحالی واضع معاشی انقلاب کی صورت ممکن ہے اور یہ انقلاب بھی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی باگ ڈور پرولتاریہ طبقے کی ہاتھ میں نہ ہو ۔ اب مارکس مزید یہ واضح کرتا ہے کہ طبقاتی نابرابری کی سفر سے خالص جمہوریت کی بحالی تک پرولتاریہ طبقے کی منظم ٹریننگ بھی لازمی ہے اور اس کے بغیر منظم جمہوری نظام کا قیام بے سود ہے ۔ کسی بھی سماج کے اندر اگر تمام تر طبقات کی نفی کی جائے تو ایک ایسی حد آتی ہے کہ اشتراکیت بڑھ کر اس مقام کو پہنچ جاتی ہے جس میں رفتہ رفتہ ریاست غائب ہوجاتی ہے اور خالص جمہوریت ہی باقی رہ جاتی ہے ۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ اشتراکیت کسی بھی سماج کے اندر پرولتاریہ کی ڈکٹیٹری کے سوا کسی اور صورت میں حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اس پر اینگلز بھی ‘بیبل’ کو خط لکھ کر یہ واضح بتاتا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ کیمونسٹ پروگرام سے “ریاست” کا لفظ ہی نکال دیا جائے اور اس کی جگہ کمیون بہتر ہوگا کیونکہ اگر دیکھا جائے تو آج کے دور میں تمام تر سرمایہ دارانہ نظام پہ قائم ریاستیں ایک دوسرے سے کافی مختلف بھی ہیں کوئی بہت زیادہ طاقتور اور کوئی کمزور آج کی ریاست ہر ملک کی سرحد کے ساتھ بدلتی رہتی ہے لہذا یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ وہ حدود جو کہ تقسیم در تقسیم کرے اور استحصالی زاراٸع کو مزید قوت بخشے وہ محض ایک ڈھونگ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔

اب اس کے ساتھ اگر بلوچ و بلوچ سماج کی بات کی جائے تو پہلے پہل ہمیں بلوچ سماج میں پائے جانے والے مختلف طبقات اور ان مختلف سماجی طبقات کے درمیان ابھرنے والے تضادات کا جائزہ بھی لینا پڑے گا یہ واضح ہے کہ بلوچ سماج بھی ہمیں اندرونی طور پر مختلف طبقات آج بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں مگر ان مختلف طبقات کے علاوہ دو اہم متضاد طبقات بھی واضع طور موجود ہیں جن میں ایک محکوم بلوچ اور دوسرا بلوچ پر مسلط سامراجی یا ریاستی وقبضہ گیر طبقہ جو کہ مسلسل بلوچ کی ساحل و وسائل اور اس کی محنت سے حاصل ہونے والی سرمایہ کو لوٹ رہا ہے ۔ اب اس اثنا میں بلوچ سماج میں ان دو متضاد طبقات کو ختم کرنے کے لئے قومی سطح پر مزاحمتی تنظیمیں اور گراؤنڈ پہ موجود اکثر طلبا و ماسس اس قومی جبر سے چھٹکارا پانے کے لئے مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں ۔ اب فرض کریں اگر بلوچ یہ جنگ جیت بھی لیتا ہے اور دری آمر سے نجات بھی حاصل کر کے قومی حق حاکمیت پالیتا ہے۔

تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا آزادی کے بعد سماجی طبقاتی نابراری ختم ہو جائے گی یا یوں کہیں کہ آزادی کے بعد بلوچ سماج کے اندر مکمل جمہوریت وہ جمہوریت جس کی شکل مارکس و اینگلز نے پیش کی تھی بحال ہوسکتی ہے ۔ یہ واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ نہیں کیونکہ جب تک ایک سرمایہ دارنہ نظام پہ چلنے والی ریاست کے اندر سوشلسٹ نظام قائم نہ کی جائے اس میں مکمل اشتراکی نظام کی طرف حرکت کرنے کے لئے تمام تر طبقات کو ختم نہ کی جائے جمہوریت بحال نہیں ہوسکتی ہے ۔ اور نہ ہی ان طبقات کے درمیان سرمایہ کے حصول کے لئے جو چپکلش ہے وہ ختم ہوسکتی ہے۔

آج کے دور میں بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ابتدا میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی جس طبقاتی نابرابری کے خلاف اور آزادی کے اصول کیلئے جنگ لڑ رہے تھے ان کے بعد پر آہستہ آہستہ اس تحریک کو ملیامیٹ کرنے کیلئے سامراج کے ساتھ ساتھ مقامی بورژوا نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا اور سیاسی آزادی تو مل گئی مگر اس کے بعد بورژوا نظام قائم ہوگیا، خیر انہوں نے آزادی تو حاصل کی مگر طبقات کی نفی نہ کرسکے اور نہ ایک سوشلسٹ ریاست قائم کرسکے جو کہ اگے جاکر کمیون کی شکل اختیار کرلیتا ، تو وہ تمام پریڈکشنز جو بگھت سنگھ نے کی تھیں یا اس سے ہہلے مارکس نے قوموں کی آزادی کے بعد کا صورتحال پیش کیا تھا وہ بھارت کے کیس میں اب تک سچ ثابت ہوا ۔ اور آج اس میں واپس ایک طبقاتی کشمکش کی واضح جھلک ہمارے سمانے ہے۔ جِس میں انگریز کے بعد علاقائی سرمایہ دار و جاگیر دار نےدوبارہ عام پرولتاریہ, لوئر کسان طبقے کو بدحال بنایا ہوا ہے۔ ایک طرف کروڑوں بھارتی لوگ ہیں جن کے پاس اپنا کچھ نہیں دوسری طرف ٹاٹا، امبانی جیسے سرمایہ دار ہیں جنہوں نے اپنی اپنی الگ جنتیں تعمیر کی ہیں اور اربوں کھربوں کے مالک ہیں۔

دوسری طرف ایران کی 1979 کے رد انقلاب کی طرف اگر نظر دوڑائی جائے تو واضح طور پر یہ دیکھنے کو ملے گا کہ رضآ شاہ پہلوی کی لبرل اصولوں پر تخت کو تاراج کرنے کیلئے تودہ پارٹی کی سائے تلے ملک کے تمام تر محنت کش مرد عورتوں طلباء و طالبات نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تھا بالآخر رضآ شاہ کی حکومت ختم تو ہوگئی مگر عوام بلخصوص تودہ پارٹی کی قیادت اس کے متبادل کوئی ڈھانچہ یا منصوبہ بند معاشی نظام رائج کرنے سے نالاں دکھائی دے رہا تھا اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی ملا اشرافیہ خمینی نے اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھتے ہوئے ملک میں تمام تر سیاہ و سفید کا مالک بن گیا اور آج تک ایرانی معاشرے اسی ظلمت کے سائے تلے دب گیا ہے۔

پس اسی طرح بلوچ سماج میں ہر شخص جس کسی طریقے سے بھی مزاحمت کا حصہ ہے اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اس امر سے واقف ہو کہ محنت کش بلوچ کا مزاحمت نہ صرف دری آمروں کے خلاف ہو بلکہ ہر اس کے ساتھ ساتھ مقامی بورژوا طبقے کے خلاف بھی ہو جس سے مسلسل طبقات جنم لے رہے ہیں اور مسلسل استحصالی پالیسیز تشکیل پا رہے ہیں ، محنت کش
بلوچ کا نجات ایک آزاد منصفانہ اصولوں پر قائم ریاستی ڈھانچے میں ہے اس سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں اور یہی وہ عمل کہ جس میں ایک سْیاسی عبوری دور سے گزر کر بلوچ اپنے سماج کے اندر تمام تر طبقات کی نفی کرتا ہے اور رفتہ رفتہ ریاست بھی ختم ہوجاتی اور یہ پورا سماج ایک کمیون کی شکل اختیار کرے گی ۔ اور تب ہی تمام تر استحصالی عمل ختم ہوکر مکمل جمہوریت بحال ہوسکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.