بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون کی طرف سے “زن زندگی آزادی و عبداللہ اوکلان کے سیاسی افکار ” کے عنوان پر اسٹڈی سرکل کا انعقاد۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری شال زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون کی طرف سے “زن زندگی آزادی و عبداللہ اوکلان کے سْیاسی افکار ” کے عنوان پر اسٹڈی اسٹڈی سرکل کا انعقاد زونل صدر سنگت ظہور بلوچ کی سربراہی میں کیا گیا۔ سرکل میں لیڈ آف مرکزی ساتھی سنگت حسیب بلوچ نے دی۔

لیڈ آف دیتے ہوئے سنگت حسیب بلوچ نے کہ “زن زندگی آزادی” کا یہ نعرہ جو کہ پہلی بار دنیا بھر مہسا ایمنی کے بہیمانہ قتل کے خلاف پہلے تو ایران اور پھر پوری دنیا میں مشہور ہوا دراصل اس کے پیچھے عبداللہ اوکلان کے وہ تمام تر نظریات تھے جنہوں نے کرد عوام کو نہ صرف ترکی بلکہ پور دنیا کے سامنے اپنی شناخت اور عورتوں کی تحفظ کو یقینی بنانے کا ایک اہم کام کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر عبداللہ اوکلان یا پی کے کے ایک ایسے دور میں ابھرا جس وقت پوری دنیا میں لیفٹ کی سْیاست ایک زوال پزیری کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن اس زوال کے دور میں کردش ورکرز پارٹی نے تنظیمی کام شروع کیا اور یہ بھی کہ جس وقت اوژلان نے یہ بیڑا اپنے سر لیا تو وہ محض سات بندوں کی ایک کیبنٹ تھی، جس نے پوری کردستان کے لئے ایک ایسا پروگرام تخلیق کیا جس نے پورے کردستان پورے ترکی کو اپنے لپٹ میں لے لیا ۔ 1979 کو ابتدا میں اوژلان کی سربراہی میں جب پی کے کے کی ابتدا رکھی جاتی ہے تو وہ خالص مارکسسٹ و لیننسٹ تھیوریز کی بنیاد پر ہی اپنی پوری شعوری پروگرام تشکیل دیتے ہیں ۔

اور اسی کے ساتھ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لیٹ نائنٹیز میں جب سویت یونین انہدام کی طرف بڑھتا ہے تو پوری دنیا میں فرانسس فوکو جیسے لوگ یہ تھیوریز پیش کرتے ہیں کہ اب اس تمام تر دنیا کے لئے سماجی نظم ماسوائے کیپیٹلز کے اور کچھ بھی باقی نہیں اور یہ کہتا ہے کہ یہ تاریخ کا خاتمہ ہے اور دنیا کو سرمایہ دارانہ سماج کی سماجی نظام کی لوٹ مار و جبر استحصال کو ترقی کے نام پر قبول کر کے اس دنیا کا آخری مقدر سمجھ کر قبول کرلینا چاہیے، اور اس کے ساتھ جو سماجی ظلم نابرابری یا جو طبقاتی نابرابری کہ جس نے پوری دنیا کے نناوے فیصد لوگوں کو متاثر کیا ہے اور عورتوں کے استحصالی نظام کے کے ساتھ گزارا کرنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ اور اسی کے ساتھ دوسری طرف ھم دیکھتے ہیں کہ اگر سویت یونین کے اندر لیفٹ سْیاست پر ایک بحران واضح ہوجاتا ہے وہیں دوسری جانب کردستان میں لیفٹ ایک نئی اور جدید ترین شکل کے ساتھ ابھرتا ہے ۔

مزید برآں سنگت نے کہا، جہاں ایک طرف دنیا بھر میں سرمایہ دار مخالف جدوجہد بحران کی طرف جا رہی تھی، وہیں ان حالات کے جبر نے کردش ورکرز پارٹی کے سیاسی پروگرام کے نظریاتی ارتقاء میں بھی اہم کردار ادا کیا، اور یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکیسویں صدی کے پہلے دہائی میں کرد انقلابی جدوجہد مزید نظریاتی پختگی کے ساتھ اس عہد کے طبقاتی جدوجہد کے روشن ترین چہروں کے طور پر ابھرتے ہیں۔

کرد انقلابی سمجھتے ہیں کہ انسانی تاریخ کا دراصل 5,000 ہزار سالہ سفر دراصل انسانی نسل کی شناخت، طبقات، نسل ، قومی بنیاد پر غلامی کی تاریخ ہے، اور اس غلامی کے سفر کا پہلا قدم تب طے کیا گیا، جب انسان نے قدیم اشتراکی سماج کے مادر شاہی نظام کا تختہ الٹ کر اور عورت کو اپنی غلام بناکر ناصرف انسانی تاریخ کی پہلی غلام اور آقا کو جنم دیا، بلکہ بہ یک وقت عورت کی غلامی نے ظلم جبر و غلامی کی نئی شکلوں کی جانب ارتقاء کیا، اور تب سے انسانی تہذیب کا سفر غلامی کا سفر رہا ہے جو تا ہنوز جاری ہے،جس کی وجہ سے آزادی کا سوال ہر عہد کا اہم سوال رہا ہے۔

مزید سنگت نے کہا کہ اگر اس غلامی کے سفر کی بنیاد عورت کی غلامی کی بنیاد پر رکھی گئی تھی، اسی طرح یہ ضروری ہے، کہ اس غلامی کے سفر کو ختم کرنے اور آزادی کے سفر کو طے کرنے کے لیے ضروری ہے، اسے عورت کی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ہی شروع کیا جاسکتا ہے ،اور جبر کے ہر شکل کے مکمل خاتمے کی جدوجہد کیے بغیر اس انسانی آزادی اور زندگی کے خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہونگے، اس لیے ضروری ہے عورت کے سوال کو صرف سوال کی حد تک نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ اس تہذیب کا خاتمہ اور اس استحصالی تہذیب کا خاتمہ کرکے عورت کے اردگرد ہی ایک نئے انسانی سماج کو بسانے کا خواب ممکن ہوسکتا ہے، جہاں زندگی اور آزادی جیسے اقدار کا تحفظ ممکن ہوسکتا ہے۔

اور مزید برآں ساتھیوں نے کہا “زن، زندگی،آزادی” کا نعرہ محض نعرہ نہیں اور نہ صرف ملا رجیم کے خاتمے کی بات کرتی بلکہ تمام تر نوع انسان کے جسم پر لگے زخموں کو اپنا کر تمام تر انسانی تہذیب کو ازسرنو بنیادوں پر “زن زندگی آزادی” کا نعرہ کی بنیاد پر رکھنا چاہیے۔ اور اس نعرہ کی فکری وسعت کی ہی وجہ سے یہ ممکن ہوا، کردستان کے قندیل پہاڑی میں پہلی بار بلند ہونے والے اس نعرے نے آج تمام تر دنیا بھر سمیت بلوچ عورتوں کی تحریک کو بھی اپنے لپیٹ میں لیے رکھا ہے، اور یہ ضروری ہوچکا ہے کہ بلوچ عوام اس نعرہ کے اصل فکری پیغام کو سمجھتے ہوئے نئے انسانی تہذیب کو بسانے کی جدوجہد کریں جو عورت، زندگی اور آزادی جیسے فکری بنیادوں پر منحصر ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.