انقلاب اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر : رژن بلوچ

انقلاب اپنے اندر ہی تبدیلی کا نام ہے خواہ وہ کسی نظام کی تبدیلی ہو یا پھر اس تبدیلی کے لیے جدوجہد کا جو طویل سفر ہے اس جدوجہد کے سفر میں اس طریقہ کار میں تبدیلی ہو یا اس کے گرد ابھرنے والے تمام تر تحریکیں ہوں یہ تمام تر چیزیں انقلاب کے سفر کو تیز کرتے ہیں۔

انقلاب عموماً کسی بھی معاشرے میں انسانی اقتدار میں اضافہ ہونے کے لیے ان کو انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے آتا ہے اور انقلاب سیاسی و معاشی نظامی ڈھانچے کی تبدیلی سے ہی وجود میں آتی ہے ، جب ایک عام دہقاں حکومت کے خلاف لڑتا ہے اس سے بغاوت کرتا ہے اور ایک عام دہقاں، ماہیگیر جب یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ موجودہ نظام انسانی بٹوارے اور جبر و استحصال کی بنیاد ہے اور اس کے خلاف مزاحمت کرنا دراصل انقلاب کی تیاری ہے جس کے لئے ہر محکوم انسان یا قوم جدوجہد کر رہی ہے اور تاریخ میں پانچ ایسے اہم انقلابات رونما ہوئے ہیں جو کہ فرانسیسی انقلاب ، انگریزی انقلاب ، امریکی انقلاب ، روسی انقلاب اور چینی انقلاب۔

انقلاب عام طور پر جابر حاکم کا محکوم پہ جبر کی وجہ سے یا سیاسی نا اہلی کی وجہ سے آتا ہے یا پھر کسی فرسودہ محکوم دشمن نظام کو ختم کر کے ایک نیا اور کامیاب نظام جو عام مخلوق کی خواہش ہو اس سے آتا ہے کیونکہ اس کے خلاف مسلسل جدوجہد ہوتی ہے نسلیں اس کے لئے قربانی دیتی ہیں تبھی انقلاب کا سورج چمکتا ہے ۔ انقلاب معاشرے کی زوال کو روکنے کی لیے ہوتا ہے اور انقلاب لانے کے لیے لوگوں کے بڑی تعداد کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انقلاب ایک یا دو افراد نہیں لا سکتے لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پانچ پالیسی ساز شعور یافتہ دہقاں بھی انقلاب کے سفر کو منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔

ماضی میں ایسے بہت سارے محنت کش انقلابی جہدکار رہے ہیں جن کا نام آج بھی تاریخ کے اوراق میں درج ہے جنہوں نے انقلاب کی سفر کو ممکن بنا کر پوری نظام کو تبدیل کیا ریاست کے خلاف جنگ لڑ کر ریاست کو شکست خوردہ بھی انہیں عام محنت کش عوام بزگر، شوان و ماہی گیر نے کیا ہے۔

اگر ہم فرانس کے انقلاب پہ نظر دوڑائیں تو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ فرانس میں اقتصادی بدحالی تھی جس کے خلاف ۱۷۸۹-۱۷۹۴ تک جدوجہد کی گئی تھی ، اس پورے فرسودہ نظام کی وجہ سے فرانس کی معاشی اور سیاسی صورتحال خراب ہوگئی تھی کافی عرصہ تک عام عوام کی تحریک نے ملک کو انقلابی بحران کا شکار کر دیا تھا ۔ فرانس کے انقلابی تحریک میں بادشاہت کے صدیوں پرانے ادارے کو ہمیشہ کی لیے دفن کردیا گیا اور کلیسا کا ظلم توڑ ڈالا گیا ، جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا۔

“ آزادی ، مساوات ، انصاف “ کے نعرے کی گونج نے یورپ کے ہر ایک تخت و تاج پر لرزش طاری کردیا۔
اگر ہم روس کے انقلاب کی طرف نظر دوڑائیں تو ۱۹۱۷-۱۹۲۳ تک یہ تحریک چلی ، روس عالمی تاریخ کا پہلا کامیاب سوشلسٹ انقلاب تھا جو کہ کلاسیکی مارکسسٹ سطور پر استوار ہوا اس سے پہلے روس ایک پسماندہ اور جاگیردارانہ معاشرہ تھا اور زوال کا شکار تھا لیکن انقلاب کی وجہ سے روس میں کافی حد تک ایک کامیاب انقلابی ریاست وجود میں آیا۔

روس میں لینن اور اس کے سنگتوں نے یونائیٹڈ سوشلسٹ سویت یونین کی بنیاد ڈالی اور پہلا جو عالمی جنگ تھا اس کی تباہ کاریوں کے اثرات سب سے زیادہ روس پر پڑے تھے جس کی وجہ سے روس کا پورا معاشرہ بدحالی کا شکار ہوا۔ لیکن اس بدحالی کو روکنے کے لیے جدوجہد کی گئی اور انقلاب لایا گیا اس کے علاوہ اگر ہم دوسرے تاریخی انقلاب کے بارے میں دیکھیں جیسا کہ چین ہے ۔

چینی انقلاب ایک کمیونسٹ انقلاب ہے جو کہ ۱۹۴۵ میں شروع ہوا تھا اور پچاس کی دہاٸی میں ختم ہوگیا اور اس انقلاب کا شروعات ۱۹۴۶ میں چین جاپان دوسرے جنگ کے ختم ہونے کے بعد ہوا اور چین نے پہلے جنگ عظیم کے وقت فوج کے ساتھ اتحاد کی اور جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ۔

کامریڈ ماؤزے تُنگ جو کہ ایک بڑا کردار ہے چینی انقلاب کے تاریخ میں اس نے بالاٸی معیشت، سماجی جبر، استحصال کے خلاف عام آدمی کو شعور دیا اور کھیتی باڑی کو فروغ دیا ۔ انقلاب کے ذریعے ہی چینی معاشرے میں جابر کا جو نظام تھا اس کو للکارا گیا ، لیکن آج کا چین پھر سے اسی انقلاب کے پہلے والے چین کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتا ہے اور ان سب کے علاؤہ اگر ہم فلسطین کی بات کریں جس میں “لیلٰی خالد” نامی ایک عورت نے بہت اہم کردار فلسطین کے انقلابی تاریخ میں ادا کیا ۔

اسی دوران اس نے کئی دفعہ پلاسٹک سرجری کروائی تاکہ اس کو پہچانا نہ جاسکے اور اس نے باقاعدہ طور پر جہاذ ہائی جیک کیے تھے اور لیلٰی خالد کو اغوا بھی کیا گیا تھا فلسطین کا انقلابی تاریخ لیلی خالد کی ہی جدوجہد کا نتیجہ ہے اس نے پہلی دفعہ جہاذ ہائی جیک کر کے فلسطین کے سارے مسلمانوں کو رہا کروایا تھا۔ فلسطین کے انقلابی تاریخ نے پورے دنیا میں مثال قائم کیا ۔

بہت سی ایسی تحریکیں چلی ہیں جس کی وجہ سے معاشرتی بدحالی اور محکوم کی استحصال کم کیا گیا ۔ انقلاب معاشرے کی تبدیلی کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے ۔
اگر ہم بلوچ قوم کی حالتِ زار پر نظر دوڑائیں تو ان کے انقلابی عہد کا آغاز ویسے پندرویں صدی سے ہی ہوا لیکن تنظیمی طور پر 1920 سے شروع ہوا اور یہ طویل سفر آج بھی جاری ہے جس میں روز ایک تحریک ابھر کے سامنے آتی ہے اور پھر اس کا لہر پورے وطن میں چلتا ہے اس سفر میں ماؤں نے اپنے بچے قربان کیے، بیویوں نے اپنے شوہر کے کندھے میں کندھا ملا کہ اس سفر میں یکساں جدوجہد کا قسم اٹھایا بے اور بہت سے بچے یتیم ہوئے اس کے علاوہ بہت سے بلوچ جہد کار جو انقلاب کے لئے کفن سر پے باندھے نکلے تھے آج وہ عقوبت خانوں میں ہیں۔

بلوچستان کا ہر گھر اس اذیت میں مبتلا ہے لیکن یہ سفر قربانی مانگتا ہے اور اس سفر کے ثبوتوں نے اپنے بچوں سے لے کر خاندان تک اس جدوجہد کے لیے آزادی و نجات کےلیے قربان کیے ہیں اور آج بلوچ مرد، عورت اور بچے بوڑھے سب زندانوں میں اس جدوجہد کے پاداش میں سزائیں کاٹ رہے ہیں اور بلوچ جہد کار اپنے سفر کے ساتھیوں کی بازیابی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ یہ دھرتی ہمیشہ ظلم کے خلاف بول اٹھنے کا درس دیتی ہے اور بلوچ کا ہر گھر اس انقلاب کا حصہ ہے جس کا سفر آج بھی جاری ہے۔

انقلاب لانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے تعلیم حاصل کرنا شعوری دور پر بیدار ہونا، اپنے حالات کے بارے آگاہ ہونا، ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہوگی کہ بلوچ قوم کو کتاب کی طرف لایا جائے کتابی کلچر کو پروان چڑھانا کتاب کو ترجیح دینا اصل میں انقلابی تنظیم خاص طور پر طلباء تنظیم کی زمہ داری ہے۔

بلوچ قوم کے ہر بچے کی زمہ داری ہے کہ وہ سیاسی طور پر اب بیدار ہو جائے کیونکہ اس نظام کے خلاف لڑ کر کٹنے کے لئے متحد ہونا لازمی ہے تب جا کر ایک دن ہم انقلاب کا سورج ضرور دیکھیں گے جس میں کوئی کسی سے برتر نہیں ہوگا کوئی نیچ نہیں ہوگا ، کوئی حاکم اور محکوم نہیں ہوگا بلکہ سب برابر ہونگے اور اس انقلاب کا جشن منائیں گے جس کا انتظار ہر محکوم قوم کے بچے بچے کو ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.