بی ایس او شال زون کی جانب سے ھندوستان میں ابھرنے والی حالیہ تحریکوں پر ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔

رپورٹ : پریس سیکریٹری شال زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون کی جانب سے ” ہندوستان میں ابھرنے والی حالیہ تحریکیں ” کے عنوان پر ایک اسٹڈی سرکل زونل صدر سنگت ظہور بلوچ کی سربراہی میں منعقد کیا گیا . سرکل میں لیڈ آف شال زون کے جنرل سیکریٹری جلال جورک نے دی. سرکل کا باقاعدہ آغاز دنیا کے تمام محکوم قوموں کے عظیم شہدا کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔

لیڈ اف دیتے ہوئے جلال جورک نے کہا کہ ایک عرصہ دراز سے بی ایس او کے ساتھی مسلسل اس بحث کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ آج تمام تر ریاستیں اور سامراجی قوتوں کے اندر سرمایہ دارانہ نظام مکمل زوال پزیری کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اس سے کسی بھی سماج کے اندر معاشی و سْیاسی جو عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اس کے واضح اثرات ہمیں دنیا کے تمام تر محکوم عوام کے مختلف تحریکوں کی صورت میں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ کس طرح یہ عام طبقہ تمام تر جبر اور ظلم کے تسلسل کو توڑنے اور اس کے خلاف ایک متبادل نظام کی خاطر اپنی جہدو جہد کو مختلف تحریکوں کی صورت پیش کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان بھی ایک ایسی کیپیٹلسٹ ریاست ہے جو جہاں فاشزم جوانی کے جوبن پر آ کر سب کچھ کچلنے اور ہڑپنے میں مصروف عمل ہے ۔ عام عوام مسلسل ریاستی جبر کے ساتھ زندگی جینے پہ گزارا کر رہی ہیں ۔ لہٰذا ان تمام تر جبری پالیسیوں کے خلاف ہندوستان بھر میں ایک عرصہ دراز سے طلبا تحریکوں سے لے کر عام عوامی تحریکیں مسلسل ابھر رہے ہیں ۔ اور وہ اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ ہندوستان بھر میں مودی سرکار سمیت یہ سرمایہ دارنہ نظام ایک عام عوام کو پرامن زندگی جینے کا موقع دینے میں ناکام رہی ہے ۔ اور نہ ہی اس کے تحت تمام تر سماجی ڈھانچے کی مکمل تعمیر نو ہوسکتی ہے ۔

ہندوستان میں پیپرز لیک اور ایڈمنسٹریشن کی غیر زمہ دارنہ رویوں کے خلاف طلبا مسلسل احتجاجات کرتے رہے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جب جی این یو میں طلبا کو مسلسل ہراساں کیا جارہا تھا تو جس وقت وہاں طلبہ یونین کے سابقہ صدر کامریڈ کنہیا کمار کو ملک کے خلاف بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ تو اس کے بعد یہ احتجاجات تحریک کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ بھی کہ تحریک کے اس ریلے کا باقاعدہ آغاز 17جنوری کو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے ایک طالبعلم روہیت ویمولا کو یونیورسٹی سے نکالے جانے پر احتجاجاً خودکشی کرنے کے باعث ہوا۔ واضح رہے کہ روہت کا تعلق دلت(نیچ) ذات سے تھا اور وہ حیدرآباد یونیورسٹی میں ’’ امبیٹکر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ‘‘ کا ایک سر گرم کارکن بھی تھا۔

امبیٹکر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرِ قانون ’’ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیٹکر کے نام سے منسوب ایک طلبہ تنظیم ہے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ کو سیکولرازم کا حامی اور ہندوستان میں رائج ذات پات کے دقیانوسی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی میں انتظامیہ اور بی جے پی کے طلبا ونگ کے متعصبانہ رویے کے باعث دس سالوں میں 9 دلت طلبہ خودکشی کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان بھر میں سب سے بڑے احتجاجات جو طلبا نے کی ہیں وہ بڑی بڑی تحریکوں کی شکل اختیار کرگئے وہ بنیادی طور پر جامعات میں طبقاتی تفریق اور طلبا کے بنیادی مسائل کو ہی حل کرنا تھا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مودی سرکار مسلسل ان احتجاجات کو منتشر کرنے کے لئے طلبا پر مسلسل جبری تشدد کرکے انکو ازیت دینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ حال ہی میں مسلم کُش بل کے خلاف بھی پہلے پہل تحریک جی این یو سے ہی ابھری اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان میں پھیل گٸی۔

جلال جورک نے مزید کہا کہ الغرض ہندوستان بھر میں طلبا ایک طویل عرصے سے مسلسل اپنی حقوق اور ریاستی جبر کے خلاف تو تحریکیں چلارہے تھے مگر جنوری 2020 کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کے کسان بھی زرعی غیر ترقیاتی ایکٹس کے خلاف پہلے تو پنجاب اور پھر پورے ہندوستان میں احتجاجات کرتے ہیں اور یہ احتجاجات ایک مکمل تحریک کی شکل اختیار کرجاتے ہیں ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ یہ کسان تحریک اتنی منظم ہوتی ہے کہ پوری عالمی سطح پر اپنی اثر رسوخ بنانے میں کامیاب ہوتی ہے اور آخر کار تمام تر مطالبات کو منوانے میں بھی کسان کامیاب ہوتے ہیں ۔ لیکن واپس ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسان تحریک جْوں ہی ختم ہوجاتی ہے تو اس کے بعد خالصتان تحریک سر اٹھانے لگتی ہے اور یک بڑی آبادی کو بھی متاثر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اج کے دور میں عموما ہر جگہ مزاہمتی تحریکیں ابھر رہی ہیں مگر ہندوستان میں ابھرنے والی تحریکیں اور خصوصا عام جنتا کی تحریکیں اس لئے خاص ہیں کہ ان کی مکمل ایک کڑی دیکھنے کو ملتی ہے یہاں تک آزادی سے پہلے 1917 کو کسانوں کی ایک تحریک ابھری ہوئی تھی جس کے تمام تر مطالبات یہی تھے کہ ہندوستان کے کسانوں کو رلیف فرائم کی جائے یا کہ ان سے تمام تر پابندیاں ہٹا دی جائیں ۔ تاکہ کسان آذانہ طور پر اپنی مال بیچ کر در بدر کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں۔

ہندوستان چونکہ اب وہ ریاست نہیں رہی کہ جس کا خواب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے دیکھا تھا کہ سماج کے اندر پہلے پہل تو تمام تر طبقات کو ختم کیا جائے گا اور ریاستی ڈکٹیٹرشپ عام مزدور کے ہاتھ میں ہوگی۔ انہوں آزادی سے کئی سال پہلے ہی یہ واضح کیا تھا وہ اس طرح کے کسی بھی ریاست کے خواہاں نہیں جہاں ہمیں انگریزوں سے تو آزادی مل جائے مگر علاقائی جاگیرداراور سرمایہ دار ہمیں اپنا غلام بنالیں ۔اور آج وہ دور آیا ہے کہ انگریز سے تو ہندوستانی سماج کے ہر رکن نے آزادی حاصل کی مگر علاقائی سرمایہ دار اور جاگیر دار سے آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ اور یہی ایک اہم وجہ ہے کہ علاقائی سرمایہ دار مسلسل اپنی اکانومی کو مضبوط کرنے کے لئے مسلسل ایک جبر کی پالیسی بھی تشکیل دے رہا ہوتا ہے کس طرح عام عوام کی محنت سے اپنے لئے ایک مضبوط اکانومی پیدا کی جائے ۔

آج کے دور میں وہ تمام تر ریاستیں جہاں پر سرمایہ داری نظام کا راج ہے وہاں پر مسلسل عوام میں ایک مشترکہ نفسیات پروان چڑھ رہی ہے کہ وہ جبری پالیسیوں کے خلاف یک جہت ہوکر آواز تو اٹھا رہے مگر اہم مدعا یہ ہے کہ یہ تمام تر استحصالی منصوبے اس وقت ختم ہوسکتے جب محکوم قوموں کی قومی مزاہمتی تحریکوں کے مرکزی لیڈر شپ ایک واضح سماجی و معاشی ڈھانچے کا نقشہ بھی پیش کریں اس کے علاوہ آزادی کی بات کرنا یا اس جبر سے چھٹکارا حاصل کرنا بے سود ہوگا ۔ اور ہم یہ واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا کے محکوموں کے لئے سوائے سوشلسٹ انقلاب کےحصول کی جہدو جہد کے باقی تمام تر مزاہمت بے سود ہی ہے ۔

انہوں نے آخر میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان میں تمام تر مزاہمتی تحریکیں ہوں یا کہ ہندوستان میں ان کے لیے لازمی ہے کہ یہ اپنی بقا کو تحفظ دینے اور اپنی جہدو جہد کو آگے بڑھانے کے لئے ایک پیرالل معاشی ڈھانچہ تشکیل دیں اور اس سماجی ڈھانچے کی پرچار تیز سے تیز تر کریں جس کے حصول کے لیے وہ مسلسل جہد کررہی ہیں ۔ اس کے علاوہ اج ان سامراجی قوتوں سے اگر سیاسی آزادی حاصل کربھی لیں مگر اس امر کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کل کو آزادی کے بعد علاقائی جاگیردار یا سرمایہ دار ہمیں واپس اپنا غلام نہ بناٸیں گے۔ اسی لیے آج ہی سے محکومی کے خلاف جدوجہد کو قومی و طبقاتی پیراٸے میں ڈھالنا ہوگا تاکہ سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی، معاشی و ثقافتی آزادی بھی حاصل کی جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.