ماہ گنج

تحریر: رخسار بلوچ

آج سے سولہ اٹھارہ سال پہلے کی بات ہے جب میں اسکول میں پڑھتی تھی۔ اسکول کیا تھا بس اس وقت بھی بلوچستان کے اسکولوں کا وہی حال تھا جو آج تک ہے۔ دو کتابیں اٹھاٶ، اسکول پہنچو، ٹیچر کا انتظار کرو، پھر واپس گھر نکلو، کیونکہ ٹیچر یا تو کوٸٹہ اپنے بچوں کو پڑھانے شفٹ ہوگٸی ہے یا پھر پنجگور کے موسم کی بربادی کا بہانہ بنا کر کراچی رہنے لگی ہے۔ آج تک وہی حال ہے، اگر کبھی کچھ سختی ہوٸی، کسی افسر نے بھول کر نوٹس لیا تو پھر نقاب میں کسی اور ان پڑھ لڑکی کو ٹیچر کی شکل میں اسکول بھیج دیا بس اللہ اللہ خیر سلہ۔

مگر اس دوران خوش قسمتی سے پراٸمری سیکشن میں ایک ٹیچر ماہ گنج نٸی نٸی بھرتی ہوٸی تھی۔ وہ ہماری پڑوسی تھی، روز گھر آ کر مجھے ساتھ لے کر اسکول چلتی تھی۔ ماہ و سال گزرتے گٸے مگر ہم بس فقط قدم ملانے کی حد تک اسکول آنے جانے کی حد تک ایک دوسرے سے آشنا ہو پاٸے تھے۔ صرف میں نہیں ماہ گنج کے حوالے سے سب کا یہی کہنا تھا کہ یہ بولنا، اظہار کرنا گفتگو کرنا بھول چکی ہے۔

ماہ گنج کے تین بچے تھے، بڑی بیٹی ماہ نور جو کہ چھ سال کی تھی جب کہ دو بیٹے تھے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ اسکول آتے جاتے تھے۔ ہمارے راستے میں ایک قبرستان تھا جو کہ ویران تھا، ارے نہ جانے میں کیوں اسے ویران کہہ رہی ہوں، وہاں تو خواب دفن تھے، زندگیاں، زندگیوں کے راز دفن تھے، کسی کا محبوب دفن تھا تو کسی کا سایہ، امید، سرمایہ وہاں دفن تھا۔

مگر ماہ گنج کو تو میں نے اس قبرستان سے بھی زیادہ ویران پایا۔ برسوں گزر گٸے مگر میں اس عورت کے اندر سے واقف نہیں ہو پاٸی، عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس عورت کے متعلق میری جستجو بڑھتی ہی چلی گٸی۔

سالوں بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہوگٸیں اس وقت میں نویں جماعت میں تھی۔ چھٹیوں کے دوران میں ایران چلی گٸی تھی۔ تین ماہ بعد واپس آٸی تو دیکھا کہ ماہ گنج اسکول نہیں آتی۔ ایک دن میں پتہ کرنے اس کے گھر گٸی مگر وہاں اس کی بھابھیاں تھیں، میرے پوچھنے پر وہ ناک چڑھا گٸیں مگر ماہ گنج کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اب میں ششدر تھی، سکتے میں تھی، جس معمے کو مجھے سمجھنا، جاننا، کھوجنا کنگھالنا تھا وہ معمہ از خود غاٸب ہو چکی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آٸی۔

میں فوری طور پر گھر لوٹی اور امی سے ماہ گنج کے متعلق دریافت کیا۔ مگر امی بھی مجھے کچھ بتانے سے قاصر رہی۔ مجھے امی کی باتوں سے احساس ہوا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ یہ معاملہ میرے لیے بے سکونی اور ذہنی بے چینی کا باعث بنا، مہینوں تک میں اسکول نہ جا سکی آہستہ آہستہ میری صحت خراب ہونے لگی۔ یہ سب دیکھ کر امی بھی پریشان ہوگٸی۔

ایک دن میں گھر کے صحن میں چیخ مار کر گر پڑی تھی اور بیہوش ہوگٸی تھی۔ ہوش کرنے پر میں نے خود کو بستر پر پایا اور امی پر نظر پڑی جو تسبیح لیے کچھ وِرد کر رہی تھی۔ دوسری جانب ایک مُلا کچھ بَڑ بَڑ پڑھ رہا تھا، آج بھی ہماری ماٶں کو ان لٹکتے پیٹ والے ملاٶں کے دم درود پر یقین ہے۔ میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر کہہ نہیں پاٸی اور پھر بے ہوش ہوگٸی، ہوش میں آتے ہی میں نے ماہ گنج کے بارے میں دریافت کیا۔

امی کے آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، تم ٹھیک ہو جاٶ میں تمہیں ماہ گنج سے ملوا دونگی۔ میری طبیعت تھی کہ سنبھلے بھی نہیں سنبھل رہی تھی۔ میری حالت دیکھ کر کچھ عرصہ بعد امی مجھے حب لے گٸی تاکہ کراچی میں کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھا سکیں۔

ایک دن صبح میں جاگی تو دیکھا ماہ گنج میرے سرہانے بیٹھی ہوٸی تھی، دور کھڑی اس کی بیٹی ماہ نور امی سے باتیں کر رہی تھی۔ میں اٹھ بیٹھ گٸی اور ماہ گنج کو گلے لگا کر زار و قطار رونے لگی، وہ بھی اپنی آنسوٶں پر قابو نہیں پا سکی اور بلک بلک کر رونے لگی۔ میں نے خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ ماہ گنج اب تم مجھے اپنی خاموشی کے ویران قبرستان میں گھماٸے بغیر کہیں مت جانا، تمہاری داستان میرے لیے سکرات بن چکی ہے اب اسے سنے بغیر نہ میں مر سکتی ہوں نہ میں جی سکتی ہوں۔ حالانکہ کہ اس سے اس کی حالتِ زار سے اصل قصے سے میں واقف تھی ہی نہیں، مگر وہ اُنسیت، وہ تجسس مجھے مرگ کے بستر پر پہنچا چکی تھی۔

ماہ گنج نے مجھ سے کہا اٹھو ناشتہ کرو تمہیں ڈاکٹر پاس لے چلنا ہے، میں نے برجستہ کہا کہ ایک شرط پر تم میرے ساتھ چلوگی، کہنے لگی تمہاری امی نے مجھے تمہارے لیے ہی ویران قبرستان سے ڈھونڈ نکالی ہے اب میں کہیں نہیں جا رہی۔

ڈاکٹر نے مجھے نفسیاتی مریض قرار دے کر تنبیہ کی کہ خوش رہا کرو اور کچھ دواٸیاں لکھ کر دیں۔ میں نے ایک مایوس نظر ماہ گنج پر ڈالی اس نے مسکراہٹ کے ذریعے مجھے تسلی دینے کی کوشش کی اور ہم شام کو واپس حب چوکی پہنچ گٸے۔

ماہ نور امی اور بہنوں کے ساتھ کھانا بنانے اور گھر کے کام میں مصروف تھی، ماہ گنج مجھے چھت پر لے گٸی اور کہنے لگی بتاٶ میری ”لیلٰی“ کیا ہوا ہے تمہیں، مرنے پر کیوں تُلی ہوٸی ہو، کہیں مجھ سے عشق تو نہیں کر بیٹھی کمبخت۔

یہ باتیں اور ماہ گنج کی روح بالکل مَیچ نہیں کر رہی تھیں کیونکہ یہ والی ماہ گنج تو اس ماہ گنج سے بھی تباہ حال تھی، ارے یہ خوبصورت عورت اب تو مزید جل بُھن کر راکھ بن چکی تھی، راسکوہ بن چکی تھی۔ راسکوہ پر تو دشمن نے ایٹمی ہتھیار آزماٸے تھے مگر ماہ گنج تمہیں کس نے جلا ڈالا ہے۔

رخسی یہ باتیں اس وقت کرنے کی نہیں ہیں جب ٹھیک ہوجاٶگی تو میں تمہیں سب کچھ بتاٶنگی۔ وہ خاموش قبرستان اپنے راز اب بھی اپنے دل کے لَحد میں دفن رکھنا چاہتی تھی۔ مگر وہ مجبور ہوٸی کہ میری شفاعت اب اس کے دل کے اندر پنپتے لاوے کے پٹھنے سے ہی جڑی ہوٸی تھی تو وہ داستان سنا ڈالی۔

رخسی میری بچی ہم بلوچ عورتیں جہاں اس قومی شناخت کے ساتھ پیدا ہو کر خوش قسمت ہیں تو وہیں پر ہم پیدا ہوتے ہی جہنم واصی کردی جاتی ہیں۔ میری کہانی بھی عام بلوچ عورت کی طرح جہنمی داستان ہے۔

جب میں نے بچپن میں نے بچپن میں اسکول کی پڑھاٸی ختم کی تو مجھ پر قیامت ڈھا دی گٸی، بچپن۔۔۔۔۔۔۔وہ ہنس کر کہنے لگی، بھلا ہماری بھی کوٸی بچپن ہوتی ہے کیا۔۔۔۔؟

میٹرک کے امتحانات کے ختم ہوتے ہی میری شادی کرا دی گٸی تھی اور اس وقت میری عمر بہ مشکل 14 پندرہ سال کے لگ بھگ ہوگی۔ میں تو اس رشتے کو جانتی تک نہیں تھی، اس کے متعلق تو میں نے ابھی تک خواب بُننے بھی شروع نہیں کیے تھے اور گھر والوں نے مجھے اس دہکتے جہنم میں جھونک دیا، اگر نہ کرتی تو ماری جا چکی ہوتی۔ وہ بھی اپنے سے 20 سال بڑی عمر کے شخص کے ساتھ میں بیاہ دی گٸی تھی۔ وہ اس لیے کہ اس شخص کا ڈیزل کا اچھا کاروبار تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں بھی اس رشتے کے ساتھ سمجھوتہ کر گٸی، اور اسی زندگی کو خُدا کی دَین سمجھ کر قبول کر لیا، مگر خدا ہماری رضا پر کب راضی ہوتا ہے، اگر معاملہ بلوچ کا ہے تو پھر بات خداٸی غضب تک جا پہنچتی ہے اور وہ غضب بھی مجھ پر آ گری۔ میرے چھوٹے بیٹے بوہیر کی پیداٸش کے دو ماہ بعد میرے شوہر کو بھتہ کےلیے دھمکیاں موصول ہونا شروع ہوگٸیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ پہلے سے بھتہ نہیں دے رہا تھا مگر اب وہ رقم ان راہزنوں کے لیے ناکافی تھی، وہ مزید رقم کا مطالبہ کرنے لگے۔ میاں نے اپنی ایک زمیاد گاڑی بیچ دی کہ ان کو خوش کرکے زندگی کی امان پا سکے مگر گاڑی کی رقم ملنے میں دیر ہوگٸی، راہزنوں کو رقم کی جلدی تھی، ایک دن انہوں نے گھر کے باہر ہی میرے میاں کو بے دردی سے بھون ڈالا اور چل دیے۔

بھتہ کے متعلق تمہارے میاں نے سرکار کو پہلے کیوں نہیں خبر کیا۔۔۔؟ میرے سوال پر ماہ گنج ہَنس پڑی، رخسی تم واقعی میں اتنی انجان ہو یا پھر انجان بننے کا ناٹک کر رہی ہو۔ کون سرکار، وہی جو بھتہ اور خون کا کاروبار کرتا ہے۔۔۔۔؟ ارے یہ قاتل اسی سرکار کے تو بندے تھے جنہیں ہم بلوچ ڈیتھ اسکواڈ کہتے ہیں جو کہ صرف ہمارے پنجگور ہی نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں آزادی سے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں، بھتہ خوری کرکے قتل و اغوا براٸے تاوان سمیت بلوچوں پر مظالم ڈھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف سرکار کچھ بھی نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھار سرکاری پروٹوکول تک ان کو میسر ہوتی ہے۔

شوہر کے قتل کے بعد زندگی تباہ ہوچکی تھی، گھر بار سب لٹ چکا تھا، رخصی اگر یہ تینوں بچے نہیں ہوتے، مجھے ان کی دربہ دری کا غم نہ ہوتا تو میں بہت پہلے اپنے کو نجات عطا کرنے کےلیے موت کا انتخاب کر چکی ہوتی۔ مگر ان بچوں کو بھی تو میں کس کے سہارے چھوڑ کر امن پاتی، اپنی جان لے پاتی۔

وقت گزرتا گیا، سسرال میں میری اور میرے بچوں کےلیے جگہ گھٹتا گیا، جگہ کیا میری تو سانسیں گھٹنے لگیں، ماہ نور کی 6 سال کی عمر میں منگنی کی باتیں دیور اور سسر نے شروع کردی تھیں۔ اب وہاں رہنا مزید کرب و اذیت کا سبب بن رہا تھا تو مجھے خالی ہاتھ شوہر کے گھر سے نکال دیا گیا، میرے بچے جو اس کاروبار کا وارث تھے، بھوکے اور ننگے پیر نکالے جا چکے تھے۔
چونکہ میری شادی کے دو سال بعد ہی میرے والد انتقال کر چکے تھے اس لیے مجھے مجبوراً ہی ماں کے پاس بھاٸیوں کے گھر رہنا پڑا۔ مگر وہاں کی مہمان نوازی بھی بہت طعنوں، زلالتوں اور اذیت بھرا رہا۔
تمہیں یاد ہے اسکول جاتے ہوٸے تم باتیں کرتی تھی اور میں سناٹے میں ہوتی تھی، اسکول کے ٹیچرز پیٹھ پیچھے مجھے ”گُنگی لاوارث بیوہ“ کا لقب دے چکی تھیں۔ تو اس دوران یہی غم تھا جو مجھے اندر ہی اندر لمحہ بہ لمحہ قتل کر رہی تھی، مار رہی تھی۔

مختصر ہی عرصے میں میرے بھاٸی بھی مجھے اور میرے یتیم بچوں کو خود پر بوجھ سمجھنے لگے، ماہ نور کی پڑھاٸی بند کردی کہ جوان لڑکی کا گھر سے باہر نکلنا غیر شرعی اور بے غیرتی ہے۔ مجھے فقط تنخواہ کی خاطر اسکول جانے کی اجازت تھی۔ ادھر رشتے داروں نے رشتہ بھیجنے کی صورت میں میرے اور ماہ نور کےلیے بولیاں لگانی شروع کر دی تھیں۔ بھاٸی ہر رشتے سے اپنا الگ مطالبہ رکھتے تھے۔ یہ ساری داستان میری بے بس ماں آنسو بہاتے دیکھ رہی تھی۔

رخسی مجھے اپنی تنخواہ سے بھی اپنے بچوں کےلیے کچھ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ ماہ گنج تو گھر کی ماسی بنا دی گٸی تھی، کھانا بھی اس وقت ملتا جب امی بچا کھچا کھانا چوری چھپے اپنے کمرے میں لاتی تھی اس پر بھی وہ طعنے اور باتیں سنتی تھی۔ مگر وہ ماں تھی جس طرح میں اپنے بچوں کےلیے مجبور سر جھکاٸے سب سہہ رہی تھی تو وہ بھی میرے لیے یہ سب سہہ رہی تھی۔

خدا کو یہ سہارا بھی پسند نہیں آیا اور ایک دن ماں بھی چل بسی۔ اب بس اس گھر میں ہم تھے اور ہمارے نام طنز، طعنے، بہتان، الزامات اذیتیں اور آنسو تھے۔ ایک دن مجھے بڑی بھابھی نے بتایا کہ ماہ نور کی شادی کر رہے ہیں ہم تو اسے کہو کہ انسانوں کی طرح بنے، ذمہ داریاں لے گھر کے کام کرے ورنہ ہماری ناک کٹ جاٸے گی۔

اب ماہ نور کیا کرتی، وہ تو ایک بے دیہاڑی مزدور پہلے سے تھی، اب مزید وہ اس سے کیا چاہتے تھے میں نہیں جانتی۔ جب میں نے تمہاری امی سے ماہ نور کےلیے رشتہ بھیجنے والوں کے متعلق پتہ کروایا تو وہ ایران کے کوٸی کاروباری لوگ تھے، اس شخص کی عمر 50 سال تھی اور اس کی دو بیویاں اور بچے پہلے سے تھے۔ تب ہی میں دل ہی دل میں عہد کیا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا اب میں اپنی بچی کے ساتھ ہونے نہیں دوں گی۔ اب مجھے اس زلت آمیز زندگی کو ہر حال میں بدلنا ہوگا۔

تب ہی میں نے حب میں اپنی ایک کلاس فیلو سے رابطہ کر کے کسی کو بتاٸے بغیر اپنے بچوں کو لے کر خاموشی سے پنجگور چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ مگر غم، اذیتیں ہمارا پیچھا کب چھوڑتیں۔ بھاٸیوں اور سابقہ دیور نے میری زندگی بچانے اور بچوں کو بچانے کی عمل کو اپنی ”بلوچی غیرت“ سے بغاوت کے مترادف ٹھہرایا اور ”غیرت“ کے نام پر مجھے ڈھونڈنے نکل پڑے۔ مجھے مجبوراً کراچی جانا پڑا۔ اب تک میں کٸی گھر بدل چکی ہوں، زندگی مجھ سے اور میرے بچوں سے انتقام لے رہی ہے۔

رخسی بھلا یہ کیسی ”بلوچی غیرت“ ہے جب میں اور میرے بچے دیور اور بھاٸیوں کے گھر میں قید تھے تو مسلسل اذیتیں یہی غیرت کے دعوے دار دیتے تھے۔ دو دو دن میرے بچے بھوکے رہتے، بیماری کی صورت میں ماہ نور روتی چیختی چلاتی کوٸی پیناڈول کی دوا تک لےکر نہیں دیتا تھا، ان کو کبھی ہماری حالت زار پر ”غیرت“ نہیں آیا مگر جب میں نے زندگی کا سوچا، اپنے بچوں کا سوچا تو انہیں فوراً غیرت یاد آگٸی۔ یعنی بلوچ مرد کےلیے غیرت یہی ہے کہ عورت گھر میں قید رہے، لمحہ بہ لمحہ مرتی رہے، روح چھلنی ہو، اذیتیں سہے مگر اُف تک نہ کرے ورنہ بلوچ مرد ”بلوچی غیرت“ کا تلوار لیے قتل کرنے نکل پڑتی ہے۔

رخسی اب میں فقط ایک زندہ دربہ در لاش ہوں جسے قبرستان میں دفن ہونے کو بھی جگہ میسر نہیں۔ میرے پنجگور چھوڑنے کے بعد مجھے ”رَن“ اور دھندہ کرنے والی عورت ہونے کا اعزازی خطاب مل چکا ہے۔ میری معصوم بچی کو بھی ان ظالموں نے نہیں بخشا ہے۔ اسے بھی کوٹھے کی بدچلن عورت قرار دی جا چکی ہے۔
میں اپنے لیے تو پریشان نہیں کہ میں نے زندگی جہنم میں گزار دی ہے، بچوں کا بھی فکر نہیں کہ وہ مرد ہیں معاشرہ انہیں تسلیم کر ہی لے گا مگر میری بچی ماہ نور کا کیا بنے گا، وہ تو معصوم ہے، اس نے بچپن دیکھا نہ جوانی کی سکون و خوبصورت خواب دیکھے۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اس کے جسم سے آہنی سلاخوں کے ذریعے اس کی روح سفاکیت کے ساتھ روح نکال دی گٸی ہو۔ کبھی کبھی میں اسے زہر دے کر اپنے ساتھ مارنے کا سوچتی ہوں مگر اس میں اس بچاری کا کیا قصور، نہ تو وہ اپنی مرضی سے پیدا ہوٸی اور نہ ہی اپنی مرضی سے جی سکی۔ ارے ہمیں تو لاپتہ افراد کی طرح موت بھی اپنی مرضی کا میسر نہیں۔

یہ کہتے کہتے ماہ گنج نڈھال ہوگٸی اور بلک بلک کر رونے لگی، میں گم سُن زندہ لاش بنی سنتی رہی۔ یہی سوچنے لگی کہ کیا بلوچ سماج میں عورت پیدا ہونا جرم ہے، اگر ہے بھی تو ہمارا اختیار تو نہیں کہ ہم پیدا ہی نہ ہوں اگر ہوں بھی تو بلوچ عورت پیدا نہ ہوں۔ کیا خدا بھی ہمیں پیدا کرکے ہم سے کوٸی انتقام لے رہے ہے یا پھر وہ ہمیں پیدا کرکے بھول جاتا ہے کہ میں نے کچھ مظلوموں کو ان کی مرضی کے بغیر پیدا کر کے جہنم میں جھونک چکا ہوں۔ کیا خدا بھی مَرد ہے جو اسے ان تمام مظالم کا احساس تک نہیں ہوتا، اذیتیں نہیں دِکھتیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.