بلوچستان کی لاپتہ بیٹیاں
تحریر : رژن بلوچ
تاریخ کے اوراق سے یہ بات بہتر انداز میں واضح ہوجاتی ہے کہ جب بھی کسی قوم پر بیرونی یا اندرونی بورژوا طبقے نے یلغار کرتے ہوئے اپنی ڈکٹیٹرشپ قائم کی ہے تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے عام عوام محکوم طبقے کو مسلسل زیر کرنے کے لیے استحصالی پالیسیاں بھی تشکیل دی ہیں جن کے توسط سے وہ مسلسل سرمایہ کے حصول اور اپنی بقا کو دیر پا کرنے کی تگ و دو بھی کرتے رہے ہیں اور عام عوام کو اپنی دہشت زدہ قوانین سے دباتے بھی رہے ہیں۔ قدیم جاگیر دار سماج سے لے کر آج کے جدید سرمایہ دار سماج تک حکمران طبقے نے مسلسل ریاستی ساخت و نام نہاد جمہوریت کو زندہ رکھنے کےلیے جو جبری و استحصالی سماجی ڈھانچہ قائم کیا اس میں اکثر عام پرولتاریہ کے خون سے بوژوا طبقے نے مسلسل اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔
پری کمیون سماج کے بعد جوں ہی انسان نئی دریافتیں کرتا رہا اور مسلسل سماجی ڈھانچے کو نئے ترقیاتی سفر پر استوار کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے تو اس مکمل سفر میں سماج کا ایک طبقہ (جسے بورژوازی کہا جاتا ہے) ایک متبادل استحصالی پالیسی بھی پروان چڑھاتے رہے ہیں۔ اور ہر نئے دور میں انہوں نے اس استحصالی پالیسی کو مسلسل ایک نئے ڈھنگ اور زیادہ ڈراونی شکل میں پیش کرنے کی بھی کوشش کی ہے ۔ اور اس دوراں سماج میں جس طبقے پر سب سے زیادہ جبر کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں وہ عام عورت ہی ہے جس نے مختلف صورتوں میں استحصال برداشت کیا اور مسلسل ازیت سہتی رہی ہے۔
غلام دارانہ سماج کی مثال لیں اس میں مالک جس طرح ایک عورت کو مسلسل جنسی حوس کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی زاتی ملکیت سمجھ کر درندہ صفت سلوک کرتا رہا ہے اس نے عورت کو مکمل مفلوج کردیا تھا مگر وہ پھر بھی چپ رہی اور سہتی رہی ۔
جاگیرداری عہد کا اگر جائزہ لیا جائے تو زیادہ دور نہیں پاکستان کے صوبہ سندھ میں جاگیر داروں نے عورت کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا تھا یا اب بھی رکھتا ہے اس کا داستان کچھ یوں ہے کہ جو کسان ان کے کھیتوں میں کام کرتے تھے ان کی عورتوں کو ایک تو ان کی مکمل محنت کے عوض کم سرمایہ دیاجاتا تھا اور اس کے علاوہ ان کسان عورتوں کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق بھی عام بات تھی ۔ الغرض اس تمام تر دورانیہ میں اگر بوژواہ طبقہ کسی مرد پر ظلم کرتا تب بھی ازیت عورت ہی کبھی ماں کی صورت میں کبھی بہن کی صورت میں تو کبھی بیٹی کی صورت میں سہتی رہی ہے۔ اس تمام تر جبر کی داستان نے ایک بات تو مکمل طور پر واضح کیا کہ جب بھی کسی سماجی ڈھانچے کے اندر ایک بھی عورت غلام ہے تو یہ پورا سماجی ڈھانچہ غلام ہی ہے عورت کی آزادی تمام تر سماجی پرتوں کی آزادی کو واضح کرتی ہے ۔
اس کے علاوہ اگر آج کے اس سرمایہ دار سماج میں بھی عورت کی نجی زندگی یا کہ سماجی زندگی کو دیکھا جائے تو کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقسیم ہندوستان کے وقت قریباً کئی ہزار عورتیں اس خونی جنگ کے دوران بلا وجہ مارے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں عورتوں کو فوج نے اغواء کرکے جنسی درنگی کا نشانہ بنایا تھا ۔ بنگلہ دیش کے قیام کے وقت فوج نے جب آپریشن شروع کیا تھا تو واضح طور پر اتنی درندگی سے یہ آپریشن بنگالیوں کے خلاف سرانجام دیا گیا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں بنگالی لڑکیوں کو فوج نے حوس کا نشانہ بناکر حاملہ کردیا تھا کٸی سارے سِکھ عورتوں کے ساتھ دونوں ملکوں کی افواج نے یہی کارنامہ سرانجام دیا تھا پس یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عورتیں ہر سماج میں ہر دور میں تشدد زدہ زندگی گزرانے پر مجبور تھے اور یہ تسلسل اب بھی خصوصاََ بلوچ سماج میں بھی جاری ہے ۔
واضح رہے کہ بلوچستاں پر جب ریاست نے جبری تسلط قائم کیا تو اس کے بعد سے اب تک ایک تسلسل کے ساتھ بلوچ مرد و زن استحصالی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس پورے عرصے کے دوران میں سمجھتی ہوں کہ ریاستی یا قبائلی اسٹرکچرز نے جس شدت کے ساتھ مرد کو ازیت کا شکار بنایا ہے اس کے اثرات بلاوسطہ یا بلواسطہ بلوچ عورتوں پر ہی پڑے ہیں۔
بلوچستان کی عورتوں نے ماں کی صورت میں سالوں سے اپنے بچوں کے انتظار میں جو ازیت سہا ہے یا کہ بہن کی صورت میں اپنے جبری طور پر گمشدہ بھائی کا انتظار کرتے رہے ہیں آج بھی وہ کرب و ازیت کاٹ رہی ہیں۔ یہ سمی یا سیما کی صورت میں سالوں سے اذیت برداشت کررہی ہیں جو کہ سالوں سے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے۔ اس جبری گمشدگی کے سفر میں بلوچ عورتوں نے تو بہت ازیت برداشت کیا ہے مگر ریاست کو تو چونکہ نام نہاد جمہوریت کی مانگ پوری کرنی ہے تو ایک لمبے عرصے سے اب بلوچ عورتیں براہِ راست ان کے لیے ان کے جمہوری نظام کے زد ہورہی ہیں اب تسلسل کے ساتھ ہی بلوچ عورتوں کو اغوا کاری کا بھی شکار بنایا جارہا ہے۔
کوئی بھی ریاست یا کہ سماجی نظام جس میں انسان خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہا ہے اور مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے تو اس میں اخلاقی یا کہ آئینی طور پر ایک مضبوط طبقے کی طرف سے کمزوروں پر بزور بندوق جبر یا تشدد یا کہ اغواہ کاری غیر تہذیبی و غیر آئینی بات تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ اس ریاستی ڈھانچے میں عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ بھی ہے جو کہ عوام میں مزاحمت کے جذبات کو ابھارنے میں اہم کردار بھی ادا کرتا ہے۔
مگر یہاں جب بلوچ کی بات کریں تو یہ واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح بلوچ کی سرزمین کو بزور شمشیر مقبوضہ بنایا گیا ہے اب اسی طرح اس سماج کے عام عوام پر بھی بزور بندوق جبر اغواہ کاری کا تسلسل جاری ہے جس کے زد میں ایک لمبے عرصے سے تو بلوچ مرد تھا ہی مگر اب اس گھٹن زدہ جبری سفر میں بلوچ عورتوں کو بھی گھسیٹا جارہا ہے جوکہ ایک واضح طور پر سفاکیت بھرا کالونیٸل ، غیر انسانی و غیر آئینی عمل ہے۔
بلوچ عورتوں کی جبری آغوا کاری کا تسلسل اس وقت شروع ہوا جب پہلی بار 2005 کو کراچی ائیرپورٹ پورٹ سے زرینہ مری کو اس کے دو سالہ بچے کے ساتھ اپنے کزن کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجات منعقد کرنے کے جرم میں اغوا کیا جاتا ہے جو کہ تاحال لاپتہ ہیں۔
زرینہ بلوچ ایک اسکول ٹیچر تھیں انہیں بعد میں2007 کو ملیر جیل میں شفٹ کیا گیا تھا اور اس دوران اسے مسلسل جسمانی و زہنی تشدد کا شکار بنایا جاتا رہا اسی طرح وہ ہانی بلوچ ہو یا کہ حبیبہ بلوچ ہو سب اسی جبر کا شکار رہے ہیں اور مسلسل ٹارچر سیلوں میں گھٹن زدہ زندگی گزارنے پہ مجبور رہی ہیں۔ ان سب کے بعد حالیہ دور میں دیکھتے ہیں کوئٹہ سے ایک دن رشیدہ زہری اور انکے شوہر کو لاپتہ کیا جاتا ہے لواحقین کی طرف سےمسلسل احتجاجات کے بعد ان کو بازیاب تو گیا مگر وہ خوف ناک زہنی دباؤ کا شکار مرتے دم تک رہیں گی اور یہ زہنی الجھنوں کا وجہ بنیں گے۔ اب یہ بازیاب عورتیں وہ نہیں رہیں گی جو وہ لاپتہ ہونے سے پہلے تھیں۔
ان کے بازیابی کے ساتھ ہی ہم دیکھتے ہے کہ سیٹلایٹ ٹاؤن کوئٹہ سے ماھل بلوچ کو دہشت گرد قرار دے کر جبری گمشدگی کا شکار بنایا جاتا ہے جو کہ اب تک ریاستی قید خانوں میں تشدد زدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ماھل کے لواحقین کی طرف سے مسلسل احتجاجات ہوئے دھرنے دیے گئے پریس کانفرنسز ہوئے مگر اس گھٹن زدہ سماج کے سفاک حکموں کو کوئی فرق نہیں پڑا اور آج بھی ماہل بلوچ کے دونوں بیٹیاں پلے کارڈز اٹھا کہ کہتی ہیں کہ انہیں جینے کا حق دیا جائے ہماری ماں کو بازیاب کیا جائے۔
الغرض اہم مدعا یہ ہے کہ بلوچ سماج کو آج کے دور میں اندورنی و بیرونی طاقتوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور اس میں سب سے اہم کرار خود مکمل ریاستی مشینری کا ہے اس میں اس کے تمام تر ڈھانچے شامل ہیں جو الگ الگ طریقوں سے بلوچ زن و مرد کا استحصال کر رہے ہیں۔
ایک طرف تو ترقی کے نام پر وسیع پیمانے پر آپریشنز کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف بنیادی سہولیات سے محروم عام بلوچ کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ کبھی خستہ حال سڑکوں پر حادثات، تو کبھی گندے پانی کی وجہ سے یا پھر خوراک کی کمی کی وجہ سے بیماری کا نظر بلوچ بچہ بلک بلک کے مرجاتا ہے تو کبھی را یا کسی دوسرے کا ایجنٹ قرار دے کر زنداں بدر کر دیا جاتا ہے۔
یہ تسلسل برسوں سے یوں ہی جاری ہے اور اس مکمل دور میں عام بلوچ کے ذہن میں اس پورے جبری نظام کا جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا جو جزبہ پیدا ہوا ہے ہر زی شعور بلوچ کا یہ بنیادی حق فرض ہے کہ وہ اس مزاحمتی سوچ کو پروان چڑھائے اور اجتماعی زیادتی کے شکار لوگوں کو اس جبر سے آزاد کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ تاکہ پھر کوئی ماحل ان درندوں کے زنداں میں نہ ہو، تاکہ پھر کوئی کریمہ یوں قتل نہ ہو، تاکہ پھر کوئی سیما، ساہرہ، ماہ زیب یا سمی اپنے باپ بھائی کی بازیابی کےلئے دربدر نہ ہو ۔