دماغ کا بلاتکار

تحریر: سہیل نصیر

یہ قصہ ان دنوں کا ہے
جب میں ماں کی کھوک میں
ساتھی سپرمز کو شکست دے کر
بنا نتائج جانے
مے_ وجد نوش فرمانے کے
تگ و دو میں مگن
بھری جنگل میں
نئے پودے کی طرح
توانائی سے بھرپور
اپنی جڑیں مضبوط کررہا تھا
جیسے کسی درخت میں
ہزاروں پتوں سے لدھے
اس ایک پتے کی طرح
خود کے لیے جگہ بنانا ہے
جس کو یہ تک نہیں معلوم
کہ
اس گنجان آبادی میں
خود کی اقدار کو
کیسے اس جہانِ خراب میں
منوانا ہے
جوں جوں مرا دماغ تعمیر ہوتا گیا
اس کا احساس مری ماں کو ہی تھی
کہ اب میں سننے اور سمجھنے کے قابل ہوگیا ہوں
اور وہ دل ہی دل میں
مجھ سے اپنی زندگی کے تجربے
جو لگ بھگ تمام تلخ ہی تھے
سناتی اور زار و قطار رونے لگتی
اور وہ تمام باتیں بتاتی
جو پدرشاہانہ سماج میں
عورت کی اقدار کو عیاں کرتی
یوں اس طرح کے اور بھی
معلومات وہ مجھے دیتی
اور میں( انسان) فطرتاً متجسس ہونے کے سبب
ماں کے پیٹ پر لاتیں اس غرض سے مارتا
کہ ان سے مزید معلومات بٹورا جا سکے
جو مرے لیے کسی حادثے سے کم نہ تھے
انہیں اپنی long term memory میں جگہ دے سکوں
ایک طرح سے میں ان کی مجبوری
ہمنوا کی عدم دستیابی کا
فائدہ ہی اٹھا رہا تھا
مگر میں آدم جس کی نفسیات ہی
تجسس کے اینٹوں سے تعمیر ہوئی ہے
جس کے کارن وہ خلد ہاتھوں سے گنوا بیٹھے ہیں
سے ماں کے مجبوری کا فائدہ اٹھانے کو
گناہِ صغیرہ سمجھتا ہوں
یوں اس طرح سے ماں کی بے بسی
اور مری معلومات بٹورنے کی حرص نے
مرے دماغ کے بلدکاری کا آغاز کردیا
بلآخر 2001 کے یکم نومبر کو
شاید! ماں کو مری چالاکیوں کا علم ہوگیا تھا
اور وہ مجھے مزید ہم راز نہیں رکھنا چاہتی تھی
جب انہیں یہ علم ہوا کہ میں ان کی بے بسی کا فائدہ اٹھا رہا ہوں تو اس دکھ نے انہیں درد سے نڈھال کردیا
اور انہوں نے مجھے باہر کردیا اپنی راز داروں کی لسٹ سے
کیونکہ ان پر یہ خوف طاری تھی کہ
اگر میں ذہنی طور پر مزید پختہ ہوگیا تو
ان کے اسرار آشکار نہ کردوں
اور پدرشاہانہ سماج کی ظلمتوں کی انبار ان پر لگ جانی ہے۔
اور جب جب وہ مجھے دیکھتی تو وہ مجھ پر مہربان ہوتی مجھ سے پیار کرتی میرے بوسے لیتی اور وہ کوشش کرتی کہ مجھے راز افشاں کرنے کا مواقع نہ دیتی
یا پھر یہ مہر و محبت ماں کی اپنے بچے کو لے کر فطری تھی بہرحال جو بھی تھا میں بہت مطمئن تھا ماں سے
اور ان کی وش دلی کی وجہ سے میرا رشتہ ان سے اس قدر مضبوط ہوگیا جیسے دل کا اس کے ریشوں سے ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کےلئے ناگزیر ہیں ویسا ہی کچھ ماں مرے لیے تھی۔ یہ قوت ماں کے ہی پاس ہے کہ وہ بچہ جو ان کی بے بسی کے فائدے اٹھاتا رہا ہے سے ایسی برتاؤ رکھ رہی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور ہمہ وقت مری ارتکائی مراحل میں توازن کی برقراری یعنی ‘نشوونما’/ پرورش میں لگی رہتیں اور مری تحفظ کے واسطے شال ( کوئٹہ) کی چار دشائی پہاڑوں کی طرح بیرونی قوتوں سے نپٹنے کے غرض سے کہساریت کا لبادہ اوڑھے چمن کی باغبانی کا بہادرانہ اعلان کرتی ہے اور اس احساس میں کئ فرعونوں کی سامراجیت کو سپوتاژ کرنے کی جنون کو دیکھا جا سکتا تھا۔
خیر ماں کی تقدس پر جس قدر لکھا جائے تشنگی قائم رہتی ہے۔

جوں جوں وقت جس پر قابو پانا جو کہ مجھ آدم کی بس سے بہت پرے ہے اپنی مدار میں مگن مجھے گزارتے ہوئے گزرتا جارہا تھا اور مجھ پر ان چیزوں کی حقیقت آشکار ہوتی جارہی تھی جو ماں نے مجھے میرے جنم سے پہلے اپنی تجربات کی نوحہ نوائی میں سنائی تھیں اور جب کبھی بھی میں ماں کی اور دیکھتا اور ان پر بیتی کو محسوس کرتا تو آنکھیں بن موسم کی بارشیں بے ساختگی کے ساتھ سیلاب برپا کرتیں اور روز نت نئے تصورِ برقراری ءِ وجد مجھے مرے اردگرد کے ماحول سے سیکھنے کو ملتیں جو کہ حسد سے بھرپور مرے حق میں تھیں۔ جیسے مری بہن سے مجھے فوقیت کا ملنا، کھلونوں کی ڈھیر جو مرے ہم عمر ساتھیوں کے پاس نہ ہوتیں، ابا جی کا اماں کو ڈانٹنا، بڑوں سے کسی غلام کی طرح جھکی آنکھوں سے آداب میں جھکائے سر مخاطب ہونا، عورتوں کو انسانی حیثیت نہ دینا اور اس طرز کے کئ بیہودہ رسومات شامل تھے ان چیزوں پر غور کیا جائے تو یہ کسی بچے کیلئے کسی المیے سے کم نہیں ہیں اور ہمارے متعدد جنریشنز کی تعمیر اس طرز یا اس سے بھی بدتر کی گئی ہے، ایسے میں کس کو ٹھہرائیں دوشی اور کس کی بلائیں لیں یا پھر بے بسی کا رونا روئیں؟

چند سال گزرنے کے بعد میں اس قابل ہوگیا تھا کہ سننے اور سمجھنے کا اہل گردانا جاتا اور میرے والدین نے مجھے پڑھنے کے غرض سے سکول میں داخل کرایا جہاں مجھ جیسے کئی بولنے والے جانوروں کی تعلیمی تربیت کسی وحشی جانور کے زیرِ نگرانی کی جاتی تھی جس کے ہاتھ میں “گز” ( درخت) کی لکڑی ہوتی تھی اور ہم جانوروں کو من چاھے مار مار کے اپنی بے چینی دور کرتا تھا، میں جب کبھی بھی ان کے وحشی پن کو دیکھتا تو مجھے ان پر بھی دکھ ہوتا کیونکہ مجھے یہ سب ایک تلخ اور غضبناک ماضی کا رد عمل دکھتا تھا شاید ان کی تعلیمی ترتیب بھی ہماری طرح یا اس سے بھی اندوہناک طرز میں کسی وحشی نے کی ہوگی جس کے کارن ان کے لاشعور میں ان واقعات نے جگہ کرلی ہوگی اور وہ اس منظر کو خود پر بیتی سے رلیٹ کرتا اور ہمارا ستیاناس کرتا رہتا اور اس طرح ہمارے اندر بھی ایک ایسا ڈھیٹ انسان تعمیر ہورہا تھا جو بعد ازاں سماج کیلئے ہَنی کارک ثابت ہوتا۔

نصاب میں پڑھائی جانی والی مواد کی اگر بات کریں تو ہمیں متعدد بادشاہوں جو جابرانہ رویوں کے مالک جو عورتوں اور غلاموں کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے کے قصے پڑھائی جاتیں اور انہیں بہادری کا لبھادہ اوڑھ کر ہمیں بھی ایک طرح سے ان کے جیسا بننے کی طرف اشارہ کرتے اور یہ حقیقت ہے جب کبھی بھی ہم دوستوں کے ساتھ بیٹھتے تو ہم ان جابروں سے خود کو تشبیہ دیتے ایک دوسرے پر رعب جماتے تھے مزید ہمیں یوسف عزیز بھٹی کے بہادری کا وہ منظر پیش کرتے جس سے ہم پرجوش ہوکر انڈیا کو گالیاں نکالتے اور پاکستانی فوج میں بھرتی ہوکر یوسف عزیز بھٹی کی طرح شہادت نوش فرمانے کا سوچتے، یہ تو اس کے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے جو ہم نے قائد اعظم زندہ باد و پاکستانی قومی ترانے رٹے لگائے ہوئے تھے جنہیں گنگناتے ہوئے چہرہ لال اور رگیں پھٹنے کو آتیں اندازہ لگالیں کہ کس قدر قومی جذبے سے سرشار تھے ہم اس طرز کے اور کئی ایسی بے ہودہ چیزیں تھیں جو ہمارے دماغ کا بلاتکار کرتیں۔

جس معاشرے میں، میں نے پرورش پایا اور جن لوگوں کے گرد میری تربیت ہوئی وہ سکول میں سکھائے جانی والی گند سے کئی گنا بدتر اور بدبودار تھی، جہاں انسان مختلف فرقوں، مختلف رنگ و نسل، اور مختلف طبقوں میں بٹے ہوئے تھے اور نفرت اور بے آبروٸی کا پارہ ہمیشہ اونچائی کی سطح پر براجمان تھا جہاں برادری پرستی اس مقام پر تھی کہ روز یہ خبر ملتی کہ فلاں قبیلے کے لوگوں نے فلاں قبیلے کے اتنے اتنے لوگ مارے اور جب لوگ واقعات پر تبصرے کرتے تو مارے جانے والوں پر افسوس کا اظہار کم مارنے والوں کی بہادری کے نغمے گنگناتے، جہاں مذہبی بنیادوں پر شیعہ، دیوبندی و بریلوی اور اہل سنت کے دلدل میں پھنسے ایک دوسرے سے اتنا خار کھاتے کہ آپس میں بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتے، جہاں وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری کی غضب ناک صورت پائی جاتی ہے اور جاگیرداروں نے کسانوں کو کئی نسلوں سے غلام بنایا ہوا ہے اور ان سے گدھوں جیسی مشقتیں لی جاتی ہیں اور ان کا جینا، کھانا، پینا، اور رہن سہن ان کے قبضے میں ہے وہ جس طرح چاھیں اس طرز سے کام لے سکتے ہیں جو کہ اکیسویں صدی میں انسانی استحصال کا بدترین مثال ہے اور مذکورہ بالا تمام ظلمتوں کو دیکھتے ہوئے ہم جوان ہوتے ہیں اور کچھ اس طرز سے ہماری ذہن سازی ہوتی ہے۔

اب رخ کرتے ہیں ہمارے ہاں پائی جانے والی سیاسی جماعتوں کی طرف جو ذہن سازی کے حوالے انتہائی اہم آرگنائزیشنز ہیں، جن کے نعروں سے لیکر ان کی مینی فیسٹو اور رہنماؤں کے خطاب تک عام عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جس میں ہمارے پاس چند ایک سیاسی جماعتیں ہیں وہ کس طرز سے ہماری ذہن سازی کرتی ہیں، جس میں سب سے پہلے ” بی این پی” ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچوں کا قومی جماعت ہے جس کے سربراہ ایک سردار ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ عام عوام کی ضروریات اور مسائل کو سمجھتا ہے جو کہ کسی بھی پہلو سے سچ نہیں ہے وہ شخص جو کھانا تیار ہونے سے لیکر کھانے کے بعد ہاتھ دھونے تک نوکریں رکھے ہوئے ہے وہ کیا جانے کہ روز بلوچستان کے اندر کتنے لوگ بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں، وہ جماعت جن کا سیاسی رویہ ہی نسلی بنیادوں پر بلوچ اور پشتون کے مابین نفرت کو ہوا دینا ہے وہ ہمارے ترجمانی تو کجا یہ ہماری ذہنی پسماندگی کو ہوا دے رہے ہیں جو کسی انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ نفرت کرنا سکھائے وہ معافی کے مستحق نہیں ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں مکمل طور پر مسترد کیا جائے اور سب سے بڑھ کر بات یہ کہ یہ وہ جماعت ہے جس کا اندرونی ڈھانچہ بھی غیر جمہوری ہے سمپلی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خود میں ہیunorganized جماعت ہے جس سے کوئی توقع رکھنا ہی بیکار ہے اور دوسری پارٹی، این، پی ہیں جو کہ کہنے اور سننے کے حد تک آرگنائزڈ پارٹی ہے مگر عملی طور پر وہ بھی عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے، اب ان کے ترجیہات میں بلوچ قومی مسئلہ رہا ہی نہیں ہے اور وہ پاکستان کو مستحکم کرنے کےدگ و دو میں مگن ہیں اب کی بار ان کے سیاسی نعرے بھی اس نوعیت کے ہیں جس میں مفاد پرستی و موقع پرستی کی جھلک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے ان میں بلوچستان اور بلوچوں کے مسائل دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں، تو بدقسمتی سے یہی ہماری سیاسی جماعتیں ہیں جو اس قدر بیہودہ سیاسی کلچر کو پروان چڑھا چکی ہیں جس سے مجموعی طور پر پوری بلوچ سماج کی ذہن سازی کا عمل متاثر ہوتا ہے

اگر جامعات کی بات کریں جامعات کا ظہور اعلیٰ تعلیم کے مقصد کے حصول سے ہوا ہے، انسانی معاشرے میں جامعات کا کردار ایک گائیڈ پوسٹ کا کردار ہے، جو قوم کو اعلیٰ تر منازل کی نشاندھی کے ساتھ ساتھ انہیں حاصل کرنے کا راستہ بھی مہیا کرتی ہیں جس سے تہذیب و تمدن میں نکھار پیدا ہوجاتی ہے، کسی معاشرے کی ترقی کی رفتار ذہنی اور فکری صحتمندی کا انحصار اعلیٰ تعلیم کے ان مراکز پر ہوتا ہے، غرض یہ کہ معاشرے کی زندگی کا انحصار علم پر اور علم کی تنو مندی کا انحصار جامعات کے متحرک کردار پر ہے، پاکستان کے جامعات کے ساتھ ساتھ دیگر تعلیمی درسگاہیں جمود کا شکار ہیں، تحقیق اور دریافت کا کام پاکستانیوں نے یورپ کے سپرد کر رکھا ہے، جہاں طلباء کو محض یاد کرنا سکھایا جاتا ہے نہ کہ یہ سمجھایا جاتا ہے کہ وہ اس تعلیم کو عملی زندگی اور سماجی ڈھانچوں کا عملی طور پر مشاہدہ کریں۔

پاکستان میں جامعات کا انتظامی امور میں کردار اپنی فطری شرح کو کھو کر نصابی اور اعلیٰ تحقیقی سرگرمیوں کے حق میں ایک آسیب کا منظر بن کر رہ گیا ہے، پاکستان کی مختلف ادوار میں تشکیل پانے والی تعلیمی پالیسیوں پر غور کیا جائے تو ان میں تحقیقی سرگرمیوں پر کم اسلامائزیشن پر زیادہ زور دیا گیا ہے جس کے کارن اساتذہ فلسفے کے کلاس میں بھی مذہب کو کہیں نہ کہیں سے گھسیڑ دیتے ہیں جس کے سبب مختلف جامعات میں جمیعت کے مجاہدین نے اسلام کی بچاؤ کا بیڑا اٹھا کر طلباء سیاست کو بھی منتشر کر رکھا ہے۔

ایسی صورتحال میں ہمیں ڈی کنسٹرکشن کی حکمت عملی اختیار کرکے اتنے عرصے ہونے والی گند بھری ذہن سازی کو سپوتاژ کرنا ہوگا اور وہ اختیار آپ کے پاس ہے کہ آپ اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق کن آلات کا چناؤ کرکے خود کو تعمیر کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.