نوآبادیت اور انقلابی جدوجہد

تحریر: سجاد بلوچ

انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں عالمی سطح پر نئے ابھرنے والے سیاسی و معاشی تبدیلیوں کے اثرات دنیا یک دم بدل گئی۔ چین کی منصوبہ بند معیشت کا یک دم سرمایہ دارانہ معیشت میں تبدیل ہو جانا مشرقی یورپ میں دیوار برلن کا گرنا سوویت یونین کا انہدام ہوجانا امریکہ کی سربراہی میں عالمی سامراجیت کا ایک نئے انداز میں ابھر کر سامنے آنا اور دنیا کو سرمایا داریت کے پیرول پر وآپس لا کھڑا کرنا عالمی سطح پر سامراجی طاقتوں کا یہ دعوا کرنا کہ اب سرمایہ دارانہ نظام ہی دنیا کی آخری فتح ہے یہی وہ نظام ہے جو تمام تر ابھرنے والے تضادات، معاشی پسماندگی کا خاتمہ اور عالمی سطح پر امن و امان قائم رکھنے کا گہوارہ ہے، ان تمام تر واقعات نے ایک ایسے عہد کو جنم دیا جو شاید جدید انسانی تاریخ کی رجعتی عہدوں میں شمار ہوتا ہے۔

عالمی سطح پر موجودہ معاشی بحران اور اس کے کارن تیسری دنیا کے ملکوں میں محکوموں کی آئے روز کی ہڑتالیں جلسے جلوس، سرمائے اور طاقت کے حصول کیلئے استعماری طاقتوں کی جانب سے محکوم قوموں پر چڑھائی کرنا ان کی ساحل و سائل پر اپنا تسلط جمانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ عہد انتہاء کو چھو رہا ہے جس کی وجہ ہے مزید تباہ کاری اور جنگوں کا لاوا پک کر تیار ہو رہا ہے۔ آج اس سفاک سرمایہ دارانہ رجعتی عہد نے عالمی سطح پر اپنی گرفت اتنی مضبوط کر رکھی ہے جو ہر اس عمل کو تیزی سے کاؤنٹر کر رہا ہے جو اس سرمایہ داریت کو ہلانے کی کوشش کر رہا ہو ہر اس طاقت کو ملیامیٹ کر رہا ہے جو اس دیوھیکل پہاڑ کو گرانے کی کوشش کر رہا ہے اس دیوھیکل پہاڑ کا مقصد صرف لوٹ کھسوٹ ہے اس کے سواء اور کچھ نہیں۔

عہد جدید میں اس نظام کو چیلنج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس تمام تر فرسودہ ڈھانچے کے متبادل کوئی منصوبہ بند معاشی ڈھانچہ وجود میں لایا جائے، اسی منصوبہ بند معاشی ڈھانچے کو اس عہد حاضر کی سفاک سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے لا کھڑا کرنا ہوگا جو رفتہ رفتہ اس فرسودہ ڈھانچے کی دیواروں کی جڑوں کو کھود کر اس تمام تر اسٹرکچر کو یک دم زیر کرسکے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے ایک ایسے انقلابی پارٹی کی تشکیلِ نو کرنی ہوگی جو اس تمام تر ڈھانچے کو جڑ سے ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جس میں اصلاحات کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہے جس کا اولین مقصد انقلابی تحریک کے گرد گھیرے ڈال کر اسے فتح کی جانب بڑھانا ہو اور یہی انقلابی پارٹی ریاست کے اندر محکوموں کےلیے ایک الگ ریاست کی مانند ہو جو انقلاب کے بعد محکوموں کی منصفانہ ریاست بنے۔

عالمی سطح پر سیاسی و معاشی تبدیلیوں کے اثرات براہِ راست بلوچ خطے پر بھی پڑ رہے ہیں بلوچ عوام جو کہ دہائیوں سے قبضہ گیر طاقتوں کے چابک تلے خواری و ذلت آمیز زندگی جینے پر مجبور ہیں بلوچستان پر حالیہ سامراجی یلغار کی داستان 1948 سے شروع ہوتا ہے جہاں سامراج کی جانب سے مقامی لوگوں کو بزور طاقت اپنے تابعداری کرنے پر مجبور کرنا خود کو اس سرزمین کے تمام تر سیاہ و سفید کا مالک بنانا اور اس خطے کے تمام تر قومی ساحل و سائل، زرائع پیداوار پر اپنا تسلط جمانا مزید اپنی تاناشاہیت کو برقرار رکھنے کے لیے سماجی حکمران طبقات سے دوستی کے تعلقات استوار کرنا، انہی حکمران طبقات کی ملی بھگت سے مزید مقامی لوگوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ گرا کر انہیں خواری و ذلت آمیز زندگی جینے پر مجبور کرنا حق صداء پر آواز بلند کرنے والے سرزمین کے بہادر فرزندوں کو ڈرا دھمکا کر انہیں قید و بند کر کے ان کی آوازوں کو دبانے کا یہ طریقہ دہائیوں سے جاری ہے۔

مگر ہر عہد میں ظالم طاقتوں کو شکست دینے کی خاطر وطن کے فرزندان ان کے سامنے ایک مضبوط و توانا اوزار کی طرح سینا سپر ہو کر کھڑے ہوئے ہیں۔ پہلی بار ریاستی یلغار کے خلاف شہزادہ آغا عبد الکریم نے مزاحمت کا جھنڈا بلند کر دیا ریاستی اداروں نے ہر وہ ممکن کوشش آزمائی جس سے آغاز عبد الکریم کی آواز کو دبایا جاسکے مگر ریاست کی ہر ممکن کوشش بے سود ثابت ہوگئی۔ کیونکہ ریاستی جبر کے خلاف عبدالکریم کی اس بغاوت نے پورے بلوچ سماج میں ایک نٸی جان بیدار کردی جس سے بعد میں نواب نوروز خان نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت وطن کو ظالم طاقتوں کی یلغار سے نجات دلانے کے لیے پہاڑوں کی چٹانوں پر ڈیرا ڈال دیا مگر مکّار اور ظالم نوآباد کاروں نے نواب نوروز خان کو قرآن کے سہارے پہاڑوں سے اتار کر ساتھیوں کو پھانسی کے گھاٹ پر چڑھا دیا۔

اسی طرح ساٹھ کی دہائی میں بابو شیر محمد مری کی سربراہی میں پراری تحریک نے سر اٹھانا شروع کر دیا جو نوآباد کاروں کے خلاف ایک سخت ترین عوامی ردعمل تھا مگر اسے بھی چکنا چور کرنے کیلئے ریاستی اداروں نے اس کے سرغنہ شیروف مری کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کردیا اور تحریک یوں آہستہ آہستہ بکھرنے لگی مگر تب بھی عوام میں باغیانہ پن موجود تھا جو ہر لمحہ انہیں ظلم و جبر کے خلاف جہد کرنے پر مجبور کر دیتا تھا اور اسی جذبے کے ساتھ سماج کے دانشور سیاسی حلقے نے راجی نوجوان جنز کو یوں تقسیم ہوتے دیکھ کر انہیں شعوری طور ایک چھاتر چھایہ یکجاء کرنے اور ایک ہی منزل کی راہی بنانے کی خاطر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایا اور یہ ادارہ جلد ہی بلوچ سماج اتنی مقبولیت حاصل کرتی گئی کہ بلوچستان کے طول و عرض میں اس کی سرخ ترنگے کی لہریں یک دم پھیل گئیں۔

بی ایس او کی مقبولیت کوئی حادثہ نہیں تھی بلکہ ظالم طاقتوں کی جانب سے بلوچ سرزمین پر دہائیوں سے جاری جنگی تابکاری کی وجہ سے جو معروض پک کر تیار تھا اسی معروضی حالات کے سبب بی ایس او پہلی بار ایک موضوعی عنصر (انقلابی تنظیم) کے بطور معاشرے میں وجود میں آتے ہی ان تمام تر نوجوانون کی جذبات و توانائیوں کو سمیٹ کر انہیں ایک واضح سمت مہیاء کرتے ہوئے اصل مقصد کو پایہ تکمیل کرنے کی جانب بڑھنے لگی بی ایس او وہ واحد تنظیم ہے جس نے بلوچ تاریخ میں کبھی بھی ریاستی زوراکیوں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ ان تمام تر ظلم و زوراوری کا جواب ہمیشہ شعوری و سیاسی بنیادوں پر دیتا رہا یہ ادارہ بیک وقت عالمی سامراج، عالمی سامراجی چوکیدار اور چوکیدار کے مقامی گماشتوں سے نبردآزما تھا۔ مگر عالمی سامراج اور اس کی چوکیدار کو اس ادارے کی یہ عمل کسی بھی طرح قبول نہیں تھی اسی وجہ سے انہوں نے اس سرکش تنظیم کو ریخت کرنے کی خاطر ہر ممکن کوشش آزمائی مقامی حاکم طبقے کی ملی بھگت سے کبھی ان کی یہ کوششیں کامیاب ہوا کرتے تھے مگر وطن کے انقلابی فرزند وآپس اس ادارے کو محفوظ کرتے ہوئے اس کی تمام بھکرے ہوئے زنجیروں کو یکجاء کیا کرتے تھے جس سے ریاستی ادارے انتہائی پریشان تھے۔

اُس وقت عوامی سطح پر ریاستی مشینری کی بربریت کو روکنے اور عام عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی ایسا متبادل وجود نہیں رکھتا تھا کہ جس کی مدد سے عام عوام مجموعی طور پر اس بربریت کے خلاف اپنی آوازیں بلند کر سکیں پہلی بار بی ایس او نے ہی عوامی جذبات کو سہارا دے کر عوامی سطح پر طاری اس سیاسی جمود کو توڑنے اور ایک ایسا کھیپ تراش کر سماج میں منتقل کر دیا جنہوں نے عوامی سطح پر جلد ہی سیاسی بحران پر قابو پاتے ہوئے ایک متبادل سیاسی پارٹی بلوچستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ جس نے تیزی سے عوامی سطح پر سیاسی جمود کو توڑ کر عام عوام، پیر، ورنا، مزدور، کسانوں کو اپنے چھاتر چھایہ تلے یکجاء کرتے ہوئے ان میں قومی شعور و جذبات پیدا کردیا اسی طرح یہ پارٹی عوامی سطح پر امید کی کرنوں کی مانند ایک طوفان کی طرح دور دور پھیل گئی جو عوام کیلئے ان ظالم طاقتوں کے سامنے ایک ٹھوس و مضبوط دیوار کی مانند تھی مگر جب اس پارٹی کی قیادت مقامی قبائلی شخصیات کے ہاتھوں منتقل ہوگئی تو انہوں نے قومی امنگوں کو روندتے ہوئے قومی و مجموعی مفادات کی جگہ ذاتی و گروہی مفادات کو پس پشت ڈال کر اسے دو لخت کردیا اور اسی کے ساتھ ان قبائلی معتبرین نے اپنی قد و قامت بڑھانے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کےلئے مادر علمی درسگاہ بی ایس او کو بھی تقسیم کر دیا جس کی بدولت آج دن تک یہی قبائلی شخصیات اپنے دامن کے داغ دھبوں کو بی ایس او کی پاک پوتر بیرک سے صاف کرتے ہوئے آرہے ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ آج بی ایس او جیسے مادر علمی کو سیاسی جماعتوں نے کچھ اس طرح سے گمراہی کی راہ پر گامزن کیا ہے جس سے اس ادارے کی شعوری و نظریاتی ساخت اور لچک پن غائب ہوکر محض غنڈہ گرد و بھتہ خور اور سیاسی جماعتوں کی پاکٹ آرگنائزیشن بن کر رہ گئی ہے۔ تاریخی ستم دیکھیے کہ بی ایس او کو پارٹیوں کی پاکٹ تنظیم بنانے والے گروہوں نے براہِ راست بی ایس او (پارٹی طلبہ ونگز جنہیں وہ بی ایس او کہنے پر بضد ہیں) کو حکومتوں میں بھی شراکت دار کرتے رہے.

آج ایک بار پھر دھرتی ماں چاروں اطراف سے آگ میں جُلس رہی ہے اور اس تنظیم کے نوجوان کبھی شاہی درباروں میں ٹھوکریں کھاتے ہیں تو کبھی چند مراعات کی خاطر ان شاہی خاندانوں کی قد و قامت بڑھانے اور ان کو قومی رہبر کی طرح پیش کرنے کے لیے بی ایس او کو ان کی گود میں رکھ دیتے ہیں جو کہ بلوچ تاریخ کے ساتھ ایک عمیق ترین جبر کے سواء اور کچھ نہیں۔

آج ریاستی اور مقامی حکمرانوں کی ایک صف میں موجودگی اور دونوں طاقتوں کی جانب سے بلوچ قومی ساحل و سائل پر پر مضبوط گرفت رکھنا اور مقامی لوگوں پر ظلم و ہتھیا چار کے نئے وارداتوں سے معروضی حالت پک کر تیار ہوچکے مگر شومئی قسمت کہ اب بھی سماج میں عوامی سطح پر سیاسی بیگانگی پائی جاتی ہے۔ اب بھی موضوعی عنصر (انقلابی پارٹی) کی بحران سے ریاستی اور مقامی افسر شاہی حکمرانوں کی یلغار سے عام عوام، مزدور، کسانوں کی حالت تباہی و ذلت آمیزی کا شکار ہے کوئی پرسان حال نہیں کوئی ایسا متبادل موجود نہیں جو اس ریاستی ظلم و بربریت کو کاؤنٹر کرکے عوامی ریاست کی حیثیت رکھتے ہوئے ظلم و جبر کا جواب شعوری و سیاسی بنیادوں پر دے سکے۔ اسی کمزوری و بحران وجہ سے ریاستی و مقامی حکمرانوں کی یلغار روز بروز شدت اختیار کر رہا ہے۔

عوامی سطح پر سیاسی بیگانگی و سیاسی جمود کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے بلوچ سیاست کی نرسری بی ایس او کو اس کے اصل انقلابی و نظریاتی اساس اور بیانیے پر بحال کر کے اُن جمودی طاقتوں کی چنگل سے آزاد کر کے اسے ارتقائی سوچ رکھنے والے عام بلوچ انقلابی طلباء کے ہاتھوں سونپ دیا جائے جو عالمی سطح پر وقت و حالات کی بدلتی ہوئی صورتحال اور اس بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کی مقامی سیاست پر پڑھنے والے مثبت اور منفی اثرات کا ادراک رکھتے ہوئے قومی سیاست میں اپنا بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ محض بی ایس او ہی وہ واحد قومی ادارہ ہے جو عوامی سطح پر اس سیاسی جمود کو تھوڑ کر اس میں نئے بیج بونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.