بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں کی جبری گمشدگی ریاستی بوکھلاہٹ کا واضح عکس ہے- بی ۔ایس۔او
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہیکہ بی ایس او کے مرکزی چیئرمین جیئند بلوچ، سینئر وائس چیئرمین شیرباز بلوچ اور انکے ہمراہ فواد بلوچ اور امان اللہ مینگل کو کل رات اسپنی روڈ کوئٹہ سے مسلح ریاستی اہلکاروں نے جبری طور پر گرفتار کر کے لاپتہ کیا ہے۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا گزشتہ چند روز کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو گوادر میں ہونے والے جلسہ “راجی مُچّی” کی تیاریوں میں مصروف درجنوں سیاسی کارکنوں کو جبری اغوا کیا گیا ہے ۔ جبکہ کوئٹہ کراچی سمیت بلوچستان بھر میں بلوچ آبادیوں پر ریاستی اداروں کیجانب سے عوام کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جنکی تعداد اب تک ہزاروں میں ہے۔ تمام شاہراہیں سفر کے لیے بند کر دی گئی ہیں، جبکہ گوادر و تربت میں موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سروسز بند کر دیے گئے ہیں ۔
بلوچ فرزندوں و سیاسی رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ دھائیوں پر محیط ہے، مختلف ادوار میں سیاسی رہنماؤں کو لاپتہ کرکے ٹارچر سیلز میں انسانیت سوز سزائیں دی گئیں ہیں، اس طرز کی شدت پسندی کا اظہار ریاست کے شکست کو مزید عیاں کرتی ہے۔
بلوچستان میں حالیہ عوامی موومنٹ ریاستی جبر و بربریت کے خلاف عوامی غم و غصہ کا اظہار ہے۔ ریاست مزید انہی پالیسیز پر کاربند رہتے ہوئے صرف اور صرف اپنی شکست کا سامان تیار کررہی ہے۔
مرکزی ترجمان نے آخر میں کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تنظیمی قائدین کے جبراً اغواء کو بلوچ قومی مادر علمی پر حملہ تصور کرتی ہے جو کسی بھی صورت قابل تسلیم نہیں،
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے قائدین کا مقدمہ لڑنے کے لیے ہر ممکن حد تک جائیگی۔تنظیم اپنے آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان جلد پریس بریفنگ کی صورت میں کریگی۔