سامراج اور بلوچ مزاحمتی جدوجہد۔
تحریر : سجاد بلوچ
عالمی منظر نامے پر موجودہ عوامی سیاسی تحریکوں کا اُبھار، ظالم و مظلوم طبقات کے درمیان صدیوں سے جاری بقاء کی یہ تمام جنگیں واضح کرتی ہیں کہ موجودہ سرمایہ دارانہ سامراجی عہد مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور مزید اس نظام کے ترقی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ آج بنگلادیش سمیت فلسطین، کشمیر، کینیا اور بلوچستان میں لاکھوں لوگ اس موجودہ شکست خوردہ نظام کی صدیوں پرانی روایات کو مسخ کرنے اور متبادل تلاش کرنے کے لیے جِدوجہد کر رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے مظلوموں کے جدوجہد کی یہ تمام داستانیں ابھی کے نہیں بلکہ یہ دہائیوں سے جاری ان تمام ظالم طاقتوں کی وحشیانہ اور خوفناک عزائم کے خلاف ایک عوامی ابھار ہے جو ہمیں موجودہ دور میں تحریکوں کی شکل و صورت میں نظر آرہے ہیں۔ مظلوموں کی ان تمام جنگوں و تحریکوں کا بنیادی مقصد سامراج و اس کے حواریوں سے زمینی، سیاسی، معاشی و سماجی خودمختاری ہے۔ اسی انقلابی مقصد کے حصول کو ممکن بنانے کیلئے آج دنیا بھر کے مظلوم اپنے ملکی و قومی منڈیوں کو ان تمام جابر طاقتوں کی پنجوں سے آذاد کرانے اور انہیں سماجی و قومی بنانے کیلئے سامراجی طاقتوں و مقامی قومی حکمران طبقے سے برسر پیکار ہیں۔ دنیا میں اس وقت ایک ہی طاقت کا راج ہے اور وہ ہے سرمایہ (زَر)، سرمایہ ہی وہ طاقت ہے جو دیگر تمام طاقتوں کا سرچشما ہے اور اسی سے ہی موجودہ نظام کے پیئے حرکت میں آتے ہیں۔
موجودہ نظام نے سرمایہ کو ایک ایسا طاقتور شئے بنادیا ہے جسے حاصل کرنا ہر ایک انسان کی اولین خواہش بن چکی ہے، اور وہ انسان جو سرمائے تک دست رس حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے تو سرمائے نے اُس انسان کو اس قدر طاقتور بنادیتا ہے کہ جس کے پنجے میں دنیا بھر کے یہ تمام اقدار، رسم و رواج، قوانین، سیاسیات، مذاہبِ حتیٰ کہ طاقت سے محروم دوسرے انسان بھی مقید رہنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔ مارکسی تاریخی مادیت کے مطابق دنیا کی تاریخ دو طبقات کے درمیان بقاء کی جِدوجہد کی تاریخ ہے، ایک طبقہ وہ جو بغیر کسی محنت و مزدوری کے سماج کے تمام مادی وسائل پر قابض ہے جس نے اپنے بنائے ہوئے قوانین سے ہر اس انسان پر قدرت حاصل کرنے کا حق اختیار کیا ہے اور دوسرا طبقہ وہ جو انہی حکمرانوں کی طاقت میں اضافے کے لیے فیکٹریوں، ملوں اور دیگر ذرائع پیداوار کے مقامات پر مال تیار کرنے پر مجبور ہیں جو مادی و سائل سے محروم ہیں جن کے پاس ماسوائے زنجیروں اور غلامی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ انہی دو طبقات کے درمیان تاریخی کشمکش، طبقاتی تضادات، جنگوں و تحریکوں نے دنیا کے پہیوں کو آگے کی جانب بڑھانے اور مادی دنیا کو ایک نظام سے دوسرے نظام تک پہنچا دیا ہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ سرمایہ تمام طاقتوں کا سرچشما ہے تو ظاہر ہے سرمایہ سے بننے والی یہ طاقت بھی انسان کو (خواہ وہ کسی ریاست کے مرکزی حکمران ہو یا کوئی سردار، جاگیردار یا ڈکٹیٹر ہو) اس قدر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ مزید زائد سرمایہ حاصل کرنے کی حصول کیلئے اس طاقت کا بے دریغ استعمال کرے۔ زائد سرمایہ حاصل کرنے کی حصول کو ممکن بنانے کیلئے سب سے پہلے وہ اپنے ملک کے مظلوموں پر جبر کرنا شروع کردیتا ہے انہیں فیکٹریوں ملوں اور دیگر پیداوری مقامات پر کم اجرت پر مزدوری اور زائد پیداوار تیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے، ان پر اس حد تک بد سے بدتر قسم کے ظلم ڈھاتا ہے کہ وہ مزدور، کسان، لوہار ان تمام مظالم کو برداشت کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے مجبورا خودکشی کرنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ مگر پھر بھی یہ حکمران کسی نہ کسی طریقے سے پیداوار کی بڑھوتری اور سرمایہ کے حصول کیلئے مختلف ذرائع ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
یہ سب کچھ ہونے کے بعد جب اسے احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ طاقت جس کیلئے وہ دنیا جہاں پر حکمرانی کی امید کی آس لگائے بیٹھا ہے وہ اب بھی حاصل نہیں ہوا ہے! اور کسی بھی طریقے سے اس طاقت تک پہنچ کر اسے حاصل کرنا اس کا اولین ہدف بن جاتا ہے۔ اسی لالچ میں وہ اپنے ملکی سرحدوں کو عبور کر کے دوسرے پسماندہ ممالک پر ناجائز طریقے سے چڑھائی کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس پسماندہ ملک کی تمام تر پیداواری ذرائع، مادی وسائل الغرض تمام سیاہ و سفید پر اپنا قبضہ جما لیتا ہے۔ تب یہاں سے وہ باقاعدہ ایک سامراجی شکل میں ڈھل جاتا ہے اور مزید اپنی سامراجی طاقت کو بڑھانے اور دنیا پر حکمرانی کی خواہش کو حقیقت میں بدلنے کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ پسماندہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر ناجائز طریقے سے قبضہ جمانا شروع کر دیتا ہے۔
بلوچستان، کشمیر اور کردستان موجودہ دور کے وہ خطے ہیں جنہیں طاقت کی زور پر سامراجی طاقتوں نے اپنے نوآبادیات بنادیے ہیں ان کی تمام پیداواری زرائع کو اپنے فائدے کیلئے استعمال میں لانے کے ساتھ مقامی آبادی پر ایک بدترین قسم کا جبری قانون بھی نافذ کردیا گیا ہے جس کے اثر سے مقامی لوگ انتہائی تشویشناک حالات زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ نوآبادیات میں سامراج کی ان تمام مظالم کے ردعمل میں مقامی باشندے طاقت کے اس ناجائز استعمال کو خود پر روکنے اور سامراجی طاقتوں کی ناجائز تسلط کو مسخ کرنے کی کوشش میں بغاوتیں بھی شروع کر دیتے ہیں۔ سامراج مقامی مظلوموں کی اس بغاوتی رجحان کو روکنے کے تمام طریقے آزمانا شروع کر دیتا ہے اس کا پہلا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مقامی باشندوں کو رنگ و نسل کی بنیاد پر، جغرافیائی بنیادوں پر اور مذہبی تفرقات کی بنیاد پر تقسیم کرنا اور ان پر حاکمیت کرنا شروع کر دیتا ہے۔
دوسرا حربہ یہ استعمال کرتا ہے کہ مقامی آبادی کے قومی بورژوا (حکمران) طبقے کو اپنا آشیربادی بنادیتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ سامراج کا یہ نوآبادیات قبل از قبضہ گیریت کے انتہائی پسماندگی کا شکار ہوتا ہے۔ پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ قومی حکمران طبقہ صدیوں سے پیدواری زرائع اور ان سے جو بننے والی پیداوار اور سرمایہ ہے اسے اپنے ذاتی تصرف میں رکھتے آیا ہے۔ مطلب قومی بورژوازی ایک ایسا طبقہ ہے جو سامراج کی قبضہ گیریت سے قبل تمام قومی منڈی پر ایک با اثر حیثیت رکھتا تھا، اور منڈی پر مضبوط گرفت رکھنے سے مراد تمام ملکی معاملات خواہ وہ سیاست ہو، سماجی دیگر معاملات ہوں یا مذہب ہو یا قانون ہو تمام کے تمام معاملات کو اپنے قابو میں رکھنے کی مترادف ہوتا ہے۔
قبضہ گیریت کے شروع میں سامراج کو سب سے زیادہ خطرات بھی قومی بورژوازی سے ہی لاحق ہوتا ہے کہ یہ طبقہ منڈی پر بیرونی تسلط کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا اور کسی بھی طرح سے سامراج کو بے دخل کرنے اور قومی منڈی پر اپنا ذاتی قبضہ برقرار رکھنے کیلئے سامراج سے جنگیں لڑنا شروع کر دیتا ہے۔ قومی بورژوازی کی اسی بغاوتی سوچ کو بھانپ کر بیرونی سامراج اسے مراعات و حاصلات سے نوازتا رہتا ہے اور اسے اپنے انتہائی قریبی دوست بنانے کیلئے اور خوش کرنے کیلئے اسے ہر قسم کے دیگر آسائشوں سے مالامال کر دیتا ہے۔ بیرونی سامراج اور مقامی حکمران طبقے کا ایک ایسا گھٹ جوڑ بنتا ہے جس کی بنیاد لالچ، بے ضمیری اور وسائل و طاقت سے محروم افراد پر طاقت کا بے دریغ استعمال اور ان کے استحصال پر مبنی ہوتا ہے۔
سامراج اور اس کے زر خرید مقامی حکمران طبقے کی یہ تمام استحصالی واقعات کی داستانیں دہائیوں سے ہمیں بلوچستان بھر میں نظر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف چینی سامراج اپنے استحصالی پروجیکٹس کے نام پر بلوچوں کی سرزمین پر مستقبل میں قبضے کی پلاننگ تیار کرنے کی کوششیں کر رہا ہے اور وہیں دوسری جانب پاکستان جیسے زر خرید سامراجی چوکیدار ملک کو مالی و عسکری طاقت سے لیس کرکے بلوچستان کے مقامی باشندگان کی گوادر سمیت پورے بلوچستان کو سامراجی تسلط سے پاک کرانے کی انقلابی تحریکوں کو کچلنے کا ٹاسک دیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ریاست پاکستان خود بھی بلوچستان کی زرخیز زمینوں، بلوچوں کی سائل وسائل اور دیگر تمام معدنی ذخائر سمیت عام بلوچ عوام کو دہائیوں سے لوٹ رہا ہے، انہیں مسمار کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر حالیہ برسوں میں بلوچ تحریک کو کچلنے میں پاکستانی فوجی اداروں کے عسکری قوت میں بڑھوتری اور بھلا جھجک کے مظلوم بلوچوں پر بدترین ظلم و جبر کرنے کے یہ تمام تر کوششوں کے پیچھے چینی سامراج کا بھی ہاتھ ہے۔
دوسری طرف مظلوم بلوچوں نے بھی ہر دہائی میں ان تمام ریاستی ظلم و زوراکیوں اور ریاستی تشدد کا جواب مقامی تشدد (مسلح بغاوت) اور عوامی انقلابی تحریکوں کی شکل میں دیا ہے۔ 1948ء میں خان آف قلات میر احمد یار خان کے بھائی آغا عبد الکریم کی قیادت میں پہلی بار ایک مسلح بغاوت شروع ہوئی جو قلات اسٹیٹ سے لے کر افغانستان کے بلوچ علاقوں تک اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب رہا مگر اس مسلح بغاوت کو کچلنے کیلئے ریاست نے ہر اس منافقانہ ہتھکنڈے کو اختیار میں لانا شروع کردیا جو اس بغاوت کو شکست دینے کے لیے کارگر ثابت ہوسکتا تھا۔ آخر کار ریاست نے آغا عبد الکریم کو ہمراہیوں سمیت بلوچستان کے پہاڑوں سے گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا اور اس تمام مسلح بغاوت کا قلع قمع کر دیا گیا۔ دوسری مسلح بغاوت 1958ء میں نواب نوروز خان کی قیادت میں ابھر کر سامنے آئی یہ بھی ایک انتہائی و غیر معمولی بغاوت تھی اسے بھی ریاست نے ایک انتہائی بدترین اور منافقانہ طریقے کچل کر رکھ دیا۔
اسی طرح 60ء اور 70ء کے دہائی کے بلوچوں کی انقلابی بغاوتوں کو بھی ریاست نے سفاکی و عیاری سے کچلنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ بعد از 2000ء کے بلوچ تحریک میں نئے تبدیلیاں رونما ہوتے نظر آنے لگی ان تبدیلیوں میں ایک خوبصورت تبدیلی یہ ہوئی کہ بلوچ تحریک میں مردوں کے برابر قلیل مقدار میں عورتیں بھی تحریک میں شامل ہونا شروع ہوئے، 2006ء میں ریاست کے ہاتھوں نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد تحریک اس حد تک بڑگئی کہ بلوچستان کے ہر گلی، سڑکوں، چوک و چوراہوں پر سیاسی احتجاجات، دھرنے شروع ہوتے گئے، مُجھے یاد ہے ان دنوں خاران میں بی ایس او آزاد سے منسلک نوجوانوں نے پورے ایک ہفتے تک شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دیتے ہوئے شہر کے تمام کاروباری مراکز، دکانیں وغیرہ تمام کے تمام بند کیے اور روڑوں پر احتجاجات کی صورت میں نظر آنے لگے۔
اُس وقت اس تمام تحریک کو لیڈ کرنے کیلئے کوئی ایسا کیڈر بیسڈ سیاسی پارٹی وجود نہیں رکھتا تھا کہ جس کی قیادت میں یہ تحریک اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ثابت ہوسکتا، اگرچہ اس زمانے میں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی وجود رکھتے تھے مگر یہ برائے نام کے تھے(اور آج بھی یہ دونوں نام نہاد نیشنل پارٹیوں کے سواء اور کچھ نہیں ہیں)، حالات کے خوف نے انہیں اس حد تک بزدل بنادیا کہ بجائے وہ ان تمام بھکرے ہوئے تحریکوں کو منظم کراتے، ان کی تنظیم سازی کرتے، انہیں ایک جامع سیاسی نقش پر استوار کرتے ہوئے آگے بڑھاتے بلکہ اس کے برعکس وہ الٹا ریاست اور اس کے اداروں کے گھود میں بیٹھ کر ڈینگیں مارنے لگے۔ اگر اُس وقت کے عوامی تحریکوں کو کوئی کاندا نصیب ہوا تو وہ بی ایس او آزاد سے منسلک نوجوان سیاسی کارکنان تھے جو قومی زمہدار یوں کو اولین نظر سے دیکھتے تھے۔
مگر دوسرا المیہ یہ بھی تھا کہ بلوچ طلباء تنظیم “بی ایس او آزاد” ایک طلباء تنظیم ہونے کے ناطے تششد (گوریلا جنگ) کے طریقے کار کا حامی و ناصر تھا۔ اور محض ایک ہی نعرے “آزادی کا ایک ہی ڈھنگ___ گوریلا جنگ، گوریلا”پر عمل پیرا تھا، جس کے نتیجے میں سفاک ریاست نے اس پورے ادارے پر 2008 میں ایک بدترین قسم کا کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ یہ ریاستی کریک ڈاؤن اس وقت تک ایک بھیانک شکل میں جاری رہا تاوقتیکہ اسے باقاعدہ کلعدم قرار کرار دے کر 2013 ( قوم دوست ترقی پسند دانشور زلفقار علی زلفی کے مطابق 2018) میں بین کردیا گیا۔
بلوچوں کی اولیں بغاوت سے لے کر 2013 تیرہ کے عشرے تک یہ تمام تحریکوں کے بکھرنے کی بنیادی وجوہات جہاں ایک طرف ریاست کی سفاکانہ کارروائیاں تھیں وہیں دوسری جانب بلوچ عوام کی ادارہ جاتی یا تنظیمی سیاست کی جانب بڑھنے کی کمزوریاں ہیں۔ آخر الذکر مسئلے کی وجہ سے جہاں ایک طرف بلوچوں کی ایک پوری نسل کو قید و بند، جبری گمشدگیاں اور شہادتوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں دوسری جانب بلوچ طلباء کی مادر علمی سیاسی تنظیم “بی ایس او” بھی انہی مسائل کے لپیٹ میں آکر ہر دور میں تقسیم در تقسیم کے بھینٹ چڑھتا گیا۔ اور بعد از 2013ء کے بلوچ سرفیس پالیٹکس پر کوئی ادارہ فرنٹ لائن سیاست کرنے کیلئے بلکل ناپید ہوگیا۔
بلوچ مزاحمتی تاریخ کے پچھلے تمام تحریکوں کی ناکامیوں کے اصل وجوہات میری نظر میں اداراجاتی یا تنظیمی سیاست کی جانب بڑھنے میں کمزوریاں تھیں۔ خواہ وہ آغا عبد الکریم کی پہلی مزاحمتی جنگ ہو یا 2006ء میں نواب بگٹی کے شہادت کے بعد سے ہونے والی بلوچ تحریک ہو ان تمام تحریکوں کے بکھرنے کی بنیادی وجوہات پارٹی پالیٹکس پر غیر یقینی کیفیت تھی۔ ان تمام واقعات کے بعد ایک بڑی مدت کیلئے بلوچ سماج میں سیاسی جمود اور گھٹن زدہ ماحول کا سیاہ تاریک رات پیدا ہونے لگا، عام لوگ سیاست سے دور بھاگتے گئے کسی بھی جگے پر سیاسی ہلچل کا کوئی نام و نشان تک نہیں رہا اور دوسری طرف ریاستی جبر بھی ایک بھیانک صورت میں جاری تھا گھروں سے، تعلیمی اداروں کے ہاسٹلوں اور ہوٹلوں سے حتیٰ کہ ہر جگہ سے بلوچ نوجوانوں کو جبراً اٹھا کر لاپتہ کر دیا جاتا تھا۔ اور اس تمام ریاستی وحشیانہ طریقے کار کو لگام دینے کے لیے ماس لیول پر نا کوئی ادارہ موجود تھا اور ناہی اس سے منسلک کوئی سیاسی قیادت وجود رکھتا تھا۔
برسوں بعد ایک وقت آیا کہ جس نے اس تمام سیاسی جمود کو سرے سے کاٹ کر دور کردیا اور سماج کو مکمل طور پر سیاسی حوالے سے بیدار کردیا۔ وہ حالات 2020 کے اگست کے مہینے کے بعد سے پیدا ہوئے۔ جب 26 اور 27 اگست کے دوران رات کی تاریکی میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں نے تربت، ڈنّک میں ایک عام بلوچ شہری گھر کو لوٹنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے تو گھر میں موجود ملکناز نامی عورت کے مزاحمتی ردعمل سے ان چوروں کا مقصد تو ناکام ہوا البتہ اس دوران ان ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے مزاحمت کار عورت ملکناز کو بیدردی سے شہید کردیا اور اس کی کمسن بچھی برمش بلوچ کو زخمی کرکے وہاں سے فوراً بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
اس انسان سوز واقعے نے بلوچ سماج کو ایک اذیت میں مبتلا کردیا اور ردعمل کی صورت میں تربت سمیت بلوچستان بھر کے تمام اضلاع میں اس ریاستی نسل کشی کے خلاف “برمش یک جہتی کمیٹی” کے پلیٹ فارم سے تحریکوں کا آغاز ہوا۔ اس مسئلے کے بعد تربت میں حیات بلوچ نامی شخص جس کو اس کے باپ کے سامنے بلوچستان فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں نے گولیوں سے بھون کر شہید کردیا۔ حیات بلوچ کی بے رحمانہ قتل کے خلاف بلوچستان کے لوگ ایک بار پھر زور و شور سے اس ریاستی جلاد پن کے خلاف روڑوں پر احتجاجات و دھرنے دینے کیلئے نکل پڑے۔ اس عوامی سیاسی ابھار نے برمش یک جہتی کمیٹی کو بدل کر بلوچ یک جہتی کمیٹی کا نام دیا اور تب سے لے کر آج دن تک بلوچ یک جہتی کمیٹی مظلوم بلوچوں کی وہ آواز بن گئی کہ بلوچستان کے جس کونے میں کسی ایک بلوچ پر بھی ریاست کی جانب سے غیر آئینی و غیر قانونی طریقے جبر ہوتا ہے تو یہ کمیٹی پورے بلوچستان کو اس ریاستی نارواء پن کے خلاف بغاوت کیلئے گھروں سے نکال کر روڑوں، چوک و چوراہوں پر مزاحمت کرنے کیلئے آمادہ کرتا ہے۔
اسی طرح آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ 29 نومبر 2023 کو تربت سے بالاچ نامی شخص پر ریاست کی جانب سے بدترین و بے بنیاد الزامات کی پاداش میں گرفتار کر لیا جاتا ہے اور بعد ازاں انہیں ایک جعلی انکاؤنٹر کے زریعے ریاستی ادارہ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں بہیمانہ طور پر قتل کیا جاتا ہے، بالاچ بلوچ کی اس بہیمانہ قتل کے خلاف پورا بلوچستان “بلوچ یک جہتی کمیٹی” کی قیادت میں ایک بار پھر سراپا احتجاج ہوتا ہے بلوچستان کے ہر شہر و گاؤں میں ریاستی سفاکیت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا ایک نہ رکھنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس دوران ریاستی منافقیت اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ بجائے شہید بالاچ کے لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کے بلکہ الٹا ان احتجاجیوں کو سبوتاژ کرنے اور مظاہرین پر جعلی ایف آئی آر کرنے کی کوششیں کی جاتی ہے۔ ان تمام وحشت ناکیوں میں مقامی بلوچ قومی بورژوازی مینا مجید سمیت سرفراز بگٹی، قدوس بزنجو، جمال رئیسانی، ثناء اللہ زہری و دیگر قوم فروش اِیلٹ کلاس کے افراد بلوچوں پر ناجائز طریقے سے مسلط کردہ جبر میں ریاستی اداروں کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔
ان تمام وحشت ناک صورتحال سے نکلنے کیلئے اور انصاف کے حصول کےلئے کمیٹی کے لیڈرشپ نے آئندہ دنوں میں اس جاری احتجاج کو تربت سے شال براستہ کوہلو، ڈی جی خان، تونسہ شریف سے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسلام میں جاکر پچاس سے ساٹھ دنوں تک شہید بالاچ بلوچ کی بہیمانہ قتل اور بلوچستان میں جاری سامراجی کشت و خون سے مستقل چھٹکارہ پانے کی حصول کی خاطر احتجاج کرنے والے بلوچوں پر اسلام آباد پولیس اور باقی دیگر ریاستی اداروں نے انتہائی جابرانہ قسم کے ظلم کیے، دسمبر اور جنوری کی دورانیے سرد راتوں میں جب یہ قافلہ اسلام آباد پہنچی تو اسلام آباد پولیس نے انکا استقبال ان پر پانی پھینکنے سے کیا تاکہ قافلے میں شریک شرکاء کو منتشر کیا جا سکے، اس کے علاؤ ریاست نے انہیں منتشر کرنے اور ان کی آوازوں کو بنانے کے ہر ہیڑی چھوٹی کا زور لگایا۔
پھر آخر کار انصاف کے چوکھٹ سے مایوس ہوکر یک جہتی کمیٹی کی لیڈرشپ نے فیصلے کیا کہ ہم اس تمام احتجاجی عمل کو بلوچستان و مضافات میں ہی جاری رکھیں گے تاکہ بلوچ عوام شعوری طور موجودہ سامراجی سفاکیت کے خلاف یک جھٹ ہو کر مزاحمت کی جانب بڑھیں۔ اس احتجاجی اعلان کے بعد بلوچستان بھر کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں میں اس کی حمایت میں ایک بار پھر احتجاجات و جلسے جلوسوں کا نہ رکھنے والا سلسلہ شروع ہوا جسے ریاست نے ایک عیاری و مکاری سے کچل کر رکھ دیا۔ احتجاجات میں شریک بیشتر افراد پر ریاست کی جانب سے جعلی ایف آئی آر کاٹے گئے۔ انہیں عدالتوں و کچہریوں کے چکروں میں پھنسا کر آہستہ آہستہ سے تمام تحریک کا گھلا گھونٹ دیا گیا۔
چینی سامراج اور ریاست پاکستان کی ملی بھگت سے بلوچوں پر جاری ظلم و جبر کے ان تمام سفاک وارداتوں کے خلاف ابھرنے والی حالیہ تحریک ایک بار پھر اپنے جوش و خروش سے بلوچ یک جہتی کمیٹی کی قیادت میں آگے کی جانب بڑھنے کیلئے غوطیں لگا رہی ہے۔ بلاشبہ موجودہ و حالیہ تحریک ان تمام انقلابی تحریکوں کا ایک تسلسل ہے جو پچھلے چھتر سالوں سے بلوچستان میں ریاستی جبر کے خلاف اٹھے ہیں اور وقت و حالات کی نزاکتوں سے معدوم ہوتے گئے ہیں۔ حالیہ تحریک کی ایک خاص بات یہ ہے کہ گوادر میں منعقد “بلوچ راجی مچی” (بلوچ قومی اجتماع) کے نام سے منسوب ایک گرینڈ اجتماع اصل میں پورے بلوچستان کا رخ گوادر کی جاب مبذول کرانا چاہتی ہے۔
گوادر کی نام نہاد ترقی کے حوالے سے ڈینگیں مارنے و افواہیں پھیلانے والی ان تمام ریاستی اداروں کے اصل و مکروہ چہرے کو عام بلوچ عوام کے سامنے عیاں کرنے کیلئے ضروری تھا بلوچ عوام ظاہری طور پر گوادر کے اصل زمینی حالات، وہاں کے مظلوم بلوچوں کی کچے گھروں اور محنت کش ماہی گیروں کی جفاکشی اور اس کے علاؤہ چینی سامراج کی عالیشان محلات و عمارتوں پر بھی نظر دوڑا سکیں اور یہ سوچ سکھیں کہ کس بیدردی سے ہم پر مسلط سفاک ریاست اور چینی سامراج ہمارا استحصال کر رہے ہیں۔ بلوچ راجی مچی کی ایک اور انتہائی دلچسپ و خاص بات یہ بھی ہے کہ اس قومی اجتماعی طاقت سے بلوچ اپنے قومی جرت و قومی طاقت کا بھی اندازہ لگا سکیں کہ گوادر جیسے علاقے کو بلوچوں کیلئے ریاست کی جانب سے ایک انتہائی ریڈ زون کرا دیا گیا ہے مگر اس قومی اجتماع و قومی طاقت کے توسط سے بلوچ نے ان تمام ریاستی بندشوں کو عبور کرکے اور اس ریڈ زون کے افواہوں کو مسترد کرکے اسے اپنا یعنی مقامی زون بنانے میں کامیاب ہوئے28
جولائی کو گوادر میں منعقد راجی مچی میں شریک ہونے کیلئے بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے لوگ قافلوں کی صورت میں نکلتے گئے مگر ان تمام شرکا کو راستوں پر انتہائی بدترین قسم کے ریاستی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاست نے اس عوامی اجتماع کو ناکام بنانے کیلئے جس طرح 20 جولائی سے سیاسی کارکنوں پر بدترین کریک ڈاؤن شروع کیا جس سے بلوچستان بھر سے سینکڑوں افراد کو جبری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں بی ایس او کے مرکزی چیئرمین جیئند بلوچ اور تنظیم کے وائس چیئرمین شیرباز بلوچ بھی شامل تھے۔ اسی طرح 26 جولائی کو بھی بلوچستان کے تمام مین ہائی ویز پر کنٹینر لگا کر انہیں باقاعدہ طور پر سیل کر دیا گیا۔ مگر عوامی طاقت کے سامنے یہ تمام مصنوعی رکاوٹیں کسی بھی صورت ٹک نہیں پائے اور عوام نے بہادری سے ان تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے کسی بھی طریقے سے گوادر پہنچنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ مگر دوسری جانب روڑوں پر موجود ایف سی چیک پوسٹوں پر تعینات بے شمار سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے باقی دیگر علاقاجات کے قافلوں کو بزور طاقت روکنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
کوئٹہ دشت کے مقام پر پہلی بار ڈیرہ جات سے آئے وائے قافلے کو کوہٹہ کے قافلے کے ساتھ ریاست کی جانب سے روکا گیا مگر عوامی مزاحمت کی وجہ سے دشت کے میدان سے پولیس نے کنٹینرز کو ہٹا دیا اور اس قافلے کو یہاں سے نکلنے کیلئے راستے صاف کیے گئے مگر آگے چل کر مستونگ کے مقام پر موجود ایف سی چیک پوسٹ پر ایک بار پھر اس قافلے کو رکاوٹوں اور اب ایک بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا۔ ایف سی کی فائرنگ سے قافلے میں شریک درجن بھر شرکاء زخمی ہوئے جن میں ایک کی حالت حالات تشویشناک بتائی جارہی ہے اور وہ اس وقت موت اور زندگی کے کشمکش میں مبتلا ہے۔ یہ قافلہ ایک بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا کرنے کے بعد چار دنوں تک مستونگ میں ڈھیرے ڈال کر بیٹھا رہا اور پانچویں دن وہاں سے اٹھ کر کویٹہ ریڈ زون کی جانب نکل مکانی کرنے لگا اور اب باقاعدہ طور پر ریڈ زون پر دھرنے کی صورت میں موجود ہے۔
اس کے علاؤہ رخشان، جھالاوان اور مکران کے کئی قافلے راستے میں رکاوٹوں کے باوجود گوادر کی طرف رواں تھے مگر انہیں تربت سے آگے اور گوادر سے چند کلومیٹر دور تلار کے مقام پر موجود ایف سی چیک پوسٹ پر سیکورٹی فورسز نے زور زبردستی سے روکے رکھا ہے، اور قافلے کے شرکاء پر سٹریٹ فائرنگ کی گئی جس سے ایک سو کے قریب افراد زخمی، بی وائی سی کے مرکزی قائد ڈاکٹر صبحیہ بلوچ کے مطابق بیس کے قریب شہید اور ایک سو پچاس سے زائد گاڑیوں کے شیشے اور ٹائروں کو برسٹ کرنے کی وجہ سے گاڑیوں کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی، حب، گڑانی اور اور باقی دیگر علاقاجات کے بلوچوں کے قافلوں کو بھی یوسف گوٹھ سے لے کر حب بھوانی بھائی پاس، اوتھل زیرو پوائنٹ جیسے مقامات پر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے درجنوں بلوچ افراد زخمی ہوئے۔ ان تمام ریاستی مظالم کے خلاف بلوچستان بھر میں ہڑتالیں شروع ہوگئے دوکانیں، کاروباری مراکز اور دیگر ذرائع تمام کے تمام لا محدود مدت کے لیے بند کیے گئے ہیں “بلوچ یک جہتی کمیٹی” کے مطابق اس دوران ریاست کی جانب سے جبراً لاپتہ کیے گئے سیاسی افراد کو اگر رہا نہیں کیا گیا اور گوادر کیلئے جانے والے تمام قافلوں کو باحفاظت گوادر جانے نہیں دیا گیا تو مزید بلوچستان بھر کے شہروں کو لامحدود مدت کیلئے بند کردیا جائے گا۔
ریاست کی جانب سے مظلوم بلوچوں پر ڈھائے گئے ان تمام ظلم و زوراکیوں کا نہ رکھنے والا سلسلہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ موجودہ سفاک ریاست کسی بھی طریقے سے مظلوم بلوچوں کی شعوری و سیاسی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کرسکتا وہ اپنی تمام طاقت پر مبنی مشنری فورس کو مظلوم بلوچوں کو کچلنے کے لیے استعمال میں لارہا ہے۔ اس تمام ریاستی جبر کو شکست دینے کیلئے مظلوم بلوچوں کے پاس اس وقت ماسوائے مزاحمتی جدوجہد کے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ موجودہ عوامی تحریک اس نہج تک پہنچ چکا ہے جسے موجودہ بحران زدہ ریاست تو کیا اس کے سامراجی آقا چین سمیت امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے تمام سیاسی و عسکری قیادت بھی نہیں کچل سکتے۔ مگر دیکھا جاسکتا ہے کہ عالمی منظر نامے پر ایسے بہت سے طاقتور تحریکیں ابھرے ہیں اور بدترین ریاستی جبر اور لیڈرشپ لچک پن کی وجہ سے منزل تک پہنچنے سے پہلے معدوم ہو گئے ہیں۔
ان کے بھکرنے کی بنیادی وجہ یہی رہا ہے کہ یہ تحریکیں افرادی قوت اور عوامی باقی دیگر پرتوں کی شمولیت سے محروم رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ بلوچ تحریک بھی عوام کے اکثریتی علاقوں کے دور دراز گاؤں سے کھٹا ہوا ہے، بلوچستان کے دور دراز گاؤں میں موجود کسانوں، چرواہوں اور دوسری جانب سماج کے باقی دیگر نچلے طبقات کی پرتوں یعنی شہری دہاڑی دار اور کاروباری مراکز پر موجود مزدوروں سے بھی یہ تحریک اس حد تک جُڑ نہیں پایا ہے جس حد تک اس عوامی تحریک کی کامیابی کیلئے ضروری ہے۔ ان تمام نچلے طبقوں سے وابستگی قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ “بلوچ یک جہتی کمیٹی” ان تمام نچلے طبقات پر مشتمل ان کی علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں قائم کرے ان کو ایک منظم سیاسی طریقہ کار سے گزار کر ان میں سے لیڈرشپ کی ایک بھاری کھیپ تراش کر تیار کرے اور انہی نچلے طبقات میں سے کسی ایک انقلابی طبقے میں انقلابی قیادتی خصوصیات ڈھونڈ کر اسے تحریک کی قیادت کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے لیے تیار کرے اور باقی دیگر تمام عوامی پرتیں اسی انقلابی طبقے کی قیادت میں بلوچستان بھر کے تمام پیداواری زرائع اور دیگر معدنی وسائل پر بیرونی سامراج سمیت مقامی اشرافیہ کی گرفت کو تھوڑ کر ان تمام پیداواری زرائعوں کو آزاد کر کے بلوچستان میں باقاعدہ ایک سماجی انقلاب برپا کردیں۔
سیاسی اور زمینی خودمختاری کی اس تمام تحریک کو مکمل سماجی نظام کی تبدیلی میں بدلنے کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے باقی دیگر نام نہاد آزاد ممالک انڈیا، بنگلادیش، ایران، پاکستان، افغانستان وغیرہ یہ تمام ممالک سیاسی لحاظ سے تو آزاد ہیں مگر ان ملکوں کے اندرونی سماجی و معاشی حالتیں اس حد تک بے کار ہو چکی ہیں کہ وہاں موجود ایک عام آدمی دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہا ہوتا ہے۔ موجودہ بنگلادیش کی طلباء تحریک، ہندوستان میں دہائیوں سے جاری نکسل وادیوں اور خالستانی تحریک، گزشتہ سال ایران میں ژینا مہسا امینی کی بیہمانہ قتل کے خلاف ابھرنے والی یہ تمام بغاوتی تحریکیں اس بات کی واضح مثال پیش کرتے ہیں کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہ کر آذادی کی امید کی آس لگائے بیٹھنا انتہاء درجے کی احمقی کے سواء اور کچھ نہیں ہے۔ تو اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ کی یہ جدوجہد نہ صرف سامراجی چوکیدار ریاست کی سفاک جبری قبضہ گیریت سے نجات حاصل کرنے لیے ایک قومی انقلابی جدوجہد ہو بلکہ قابض کی قبضہ گیریت کے ساتھ مقامی اشرافیہ طبقے کی قومی منڈی پر ناجائز قبضے کی خلاف قومی جِدو جہد کے ساتھ ایک طبقاتی جدوجہد بھی ہو، پھر اس مکمل سماجی انقلاب کے بعد سماج کے تمام زرائع پیداور کو عام بلوچ عوام کے دست رس میں لائیں، تب جا کر بلوچ باقاعدہ ایک خودمختار قوم کے طور پر خطے میں ابھر کر سامنے آئے گا۔