بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون کا سینئر باڈی اجلاس زیر صدارت زونل آرگنائزر یونس بلوچ منعقد ہوا۔

اجلاس کا آغاز حسب روایت شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا جب کہ اجلاس کی کارروائی زونل ڈپٹی آرگنائزر سنگت میر وائس بلوچ نے چلائی۔ اجلاس میں علاقائی و بین الاقوامی سیاسی صورت حال، تنظیمی امور، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے

ساتھیوں نے عالمی و علاقائی تناظر پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا ایک شدید قسم کے بحران کا شکار ہے جس کا ہمیں واضح شکل 2019 میں کرونا وائرس کے دنیا میں پھیل جانے کی صورت میں ہمیں نظر آیا یہ وبا پورے عالمی دنیا میں ایک سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے جس نے انسانوں کو گھروں تک محصور کیے رکھا جس کی وجہ سے ایک عالمی سطح کا  معاشی بحران  پیدا ہوا جس نے اس سرمایہ دارانہ نظام کے انسان دشمن چہرے کو مزید واضح طور پر عیاں کیا اور سامراجی قوتوں کے اندرونی تضادات کو مزید واضح کیا جو ہمیں دنیا میں نئے عالمی جنگوں کے شکل میں نطر آئے۔  روس کا یوکرین کے اوپر حملوں نے ایک نئی  عالمی جنگ کی شروعات کی اس جنگ کے سبب یوکرین کے اندر ہزاروں کے تعداد میں لوگ نکل مکانی پر مجبور ہوئے اور عالمی سطح کا بحران شروع ہوا، ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونا اور اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہو جانا جس سے عام محکوم عوام ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور سامراجی قوتیں اپنے مفادات کو تخفظ دینے میں لگے ہوئے تھےاور اس جنگ نے سامراجی قوتوں کو مزید دست و گریباں کیا جس کو ہم امریکہ اور روس کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف عالمی منڈیوں میں پابندیوں اور اپنے سامراجی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے محکوم عوام کا استحصال اور نئے ورلڈ آڈر جس میں مختلف قوتوں کا ایک دوسرے کے خلاف یکجاہ ہونا اور اپنے مفادات کو تخفط دینے کے لیے محکوم قوموں کو استعمال کرکے ایک اور نئی جنگ کا آغاز کرنا ہے جو ہمیں فلسطین اور اسرائیل کے صورت میں دکھتی ہیں جس میں اپنے سامراجی مفادات کے لیے اسرائیل کے اوپر حملہ اور ایک نئے جنگ کا آغاز کرنا جس میں ہزاروں فلسطینی جوان، عورتیں اور بچے اس جنگ کے سبب مارے جاتے ہیں اور آج تک مر رہے ہیں اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہو جاتےہیں۔

ساتھیوں نے مزید کہا کہ دنیا کے اندر یہ تبدیلیاں  بطور قوم ہم کو بھی  اثرانداز کر رہی ہیں پاکستان جیسی قوت جو شروع دن سے ہی ایک تنخوادار ملک جو مختلف سامراجی قوتوں کے مفادات کو اس ریجن میں تخفط دیتا ہے جس کو ہم تاریخی طور پر دیکھتے ہیں کہ جب سوییت یونیں کے خلاف پاکستان کو امریکہ جیسے سرمایہ دار ممالک ایک ڈھال کے طور پر افغانستان میں استعمال کرتے ہیں اور  اپنے مفادات کو تخفظ اور مظلوم طبقات کے مزید استحصال میں اضافہ بنتا ہے اور اسی طرح مختلف حربے استعمال کر کے قومی تحریکوں کو ختم کرنے کی کوششیں آج تک جاری ہیں لیکن یہ سامراجی قوتیں جو ہی کمزور ہوتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں پاکستان جیسے ممالک بھی یکسر بحران کا شکار ہو جاتا یے اور اپنا ایک طاقت جو اس کو سامراجی قوتوں کی طرف سے فراہم تھی وہ مزید کم ہوجاتی ہے اور یہ کمزوری اس کو ایک سیاسی انتشار کی طرف لی جاتی ہے اور نئی سیاسی تحریکوں کا باعث بنتی ہیں جس طرح ہم دیکھتے ہیں جب عمران خان کے نام نہاد حکومت کو ختم کر کے ایک نئی حکومت بنائی جاتی ہے تو ایک نئی سیاسی بحران پاکستان کے اندر شروع ہوتا ہے اور پاکستان کے اسٹبلشمنٹ کے اندر مختلف طاقتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑی کرتی ہے اور ریاست اپنے ساخت کو بچانے کے غرض اور اس سیاسی انتشار کو زور زبردستی دبانے کے لیے لیے عام عوام کے اوپر کریک ڈاؤن شروع کرتے ہیں جس میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کرنا اور ان کی خاندانوں کو اذیت دینا تاکہ ان کے خلاف اٹھنے والے آواز کو دبایا جائے لیکن یہ تشدد لوگوں میں ریاست کے خلاف مزید  غم و غصے کا باعث بنتا ہے اور نئی عام عوامی تحریکوں کا باعث بنتے ہیں جس میں کشمیر اور گلگت بلتستان کے اندر عام لوگ مہنگائی کے خلاف سڑکوں پہ نکلتے ہیں اور بلوچستان کے اندر اس ریاست کے ظلم اور جبر کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کا حالیہ تحریک کی شکل میں ہمیں نظر آتا ہے جو مزید قومی تحریکوں کا منظم اور مضبوط ہونے کا باعث بنتا ہے

جس طرح بلوچ قوم کے اوپر شروع دن سے ہی سامراجی قوتوں کی یلغار جاری ہیں اور اپنے نوآبادیاتی نظام کو مزید وسعت دینے کی کوشش بھی جاری ہے اور بلوچ سرزمین کی لوٹ مار اور لوگوں کا استحصال ان سامراجی قوتوں کی طرف سے جاری ہے  جس میں روز بہ روز جبری گمشدگیوں میں اضافہ، سیاست پر  کدغن لگانا اور بیرونی قوتوں کے ذریعے خانہ جنگی کی سماں پیدا کرنا اور روز بہ روز لوگوں  کی معاشی قتل عام میں اضافہ جو حالات کو مزید سخت کر رہے ہیں اور بطور قوم ہم کو آنے والی یلغار کے لیے ہر طرح سے تیار اور اپنے دفاع کے لیے بلوچ قومی سیاست میں شامل قوتوں کو یکجاہ ہو کر ان کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے

تنظیمی امور کے پر بات کرتے ہوئے ساتھیوں نے کہا بی ایس او ایک کیڈرساز ادارہ ہے جو کہ آنے والے دشوار وقت و حالات کے لیے کیڈرز پیدا کرتا ہے جہاں کامریڈز کو اپنی نظریاتی، سیاسی اور قومی تعمیر پر زیادہ سے زیادہ ترجیح دینا ہوگا تاکہ وہ نئی سماجی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کر سکیں۔

تنقید برائے تعمیر کے ایجنڈے پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل میں ساتھیوں نے تنظیم کے معاشی اخراجات کےلیے تمام ممبران پر ماہانہ سبز کی ادائیگی ضروری قرار دیا اور ممبرشپ کے حوالے سے محتلف فیصلہ لیے گئے ، اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن مادرِ علمی کی روایات کے مطابق ہفتہ وار اسٹڈی سرکلز کے انعقاد اور بی ایس او کے 57 یوم تاسیس کے حوالے زون کے سطح پر محتلف تعلیمی اداروں کے اندر اسٹڈی سرکل کا انعقاد کرنے کا فیصلہ لیا گیا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.