بی ایس او وڈھ زون کی جانب سے مشرقی وسطیٰ کے بدلتے ہوئے صورتحال پر اسٹڈی سرکل کا انعقاد
بی ایس او وڈھ زون کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات پر ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا، جس میں بی ایس او کے مرکزی سینیئر جوائنٹ سیکریٹری کامریڈ آصف نور سمیت دیگر ساتھیوں نے تفصیلی گفتگو کی۔ گفتگو کے دوران ساتھیوں نے کہا کہ پچھلے چند سالوں سے دنیا جنگی ماحول کا سامنا کر رہی ہے۔ کئی جنگی محاذ کھل چکے ہیں، جہاں پہلے ممالک اندرونی تضادات اور مسلح کارروائیوں کا شکار تھے، اب وہ براہِ راست ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اس کی واضح مثال روس-یوکرین جنگ اور مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ نے خطے کے دیگر ممالک کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے، جن میں ایران، لبنان، اور یمن براہِ راست ملوث ہیں۔ ساتھیوں کا کہنا تھا کہ ان جنگوں سے صرف عالمی سامراج، بالخصوص امریکہ اور ایران، کے مفادات وابستہ ہیں، جو اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے خطے کی مظلوم اور محکوم اقوام کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔
شام میں حالیہ تبدیلیاں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت، جو پچاس سال سے اقتدار پر قابض تھی، بالآخر ختم ہو چکی ہے۔ اس جابر حکومت کے خاتمے کو مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ پچھلے 13 سال کی خانہ جنگی کے بعد شامی عوام کو آزادی ملی۔ تاہم، اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تبدیلی کن بیرونی قوتوں کی مدد سے ممکن ہوئی اور ان کے پیچھے کیا مفادات کارفرما ہیں۔
شامی خانہ جنگی کے دوران مختلف باغی دھڑے اور مذہبی شدت پسند حکومت کے خلاف برسرپیکار تھے، مگر عالمی طاقتیں بھی اس تنازع میں کود پڑیں۔ روس اور ایران بشار الاسد کے حامی تھے۔ ایران نے حزب اللہ کے ذریعے اسلحہ اور مالی مدد فراہم کی، جبکہ روس فضائی حملوں کے ذریعے بشار حکومت کی حمایت کرتا رہا۔ دوسری طرف، کچھ عرب سنی ممالک اور ترکی باغیوں کو مدد فراہم کر رہے تھے، جبکہ امریکہ داعش کے خلاف کردوں کی حمایت کر رہا تھا۔
ہیت التحریر الشام کی حکومت کا قیام کچھ لوگوں کے لیے خوش آئند ہے، لیکن کرد اقلیت اور دیگر گروہوں کے لیے یہ باعث تشویش ہے۔ ترکیہ اور اس کی حامی سیرین نیشنل آرمی سمیت داعش اب بھی SDF کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملے کر رہے ہیں۔ شامی حکومت کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان باغیوں کو ترکیہ کی مدد حاصل کرنے کے پیچھے مخصوص مفادات کارفرما تھے۔
اس اسٹڈی سرکل میں ساتھیوں نے اس بات پر زور دیا کہ مشرق وسطیٰ کے حالات کو عالمی سامراجی مفادات کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ یہ جنگیں خطے کے مظلوم عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہیں، اور ان کے اثرات آنے والے وقت میں مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔