موجودہ عہد کے ان تاریخی تبدیلیوں،انتشار و بد حواسی کی کیفیت میں بلوچ نوجوان منظم سیاسی عمل کا حصہ بن کر اپنے تاریخی ذمہ داریوں کو نبھائیں، بلوچ سماج کے سیاسی و شعوری اساس کے دفاع کی جدوجہد میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔ بی, ایس, او وڈھ (زون).
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن وڈھ زون کی جانب سے چھ جنوری بروز جمعرات زیر صدارت زونل آرگنائزر ریاض عالم بلوچ سینیئر باڈی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اجلاس کے مہمان خاص مرکزی سیکریٹری جنرل حسیب بلوچ تھے۔ جبکہ اجلاس کے اعزازی مہمان خاص مرکزی وائس چیئرمین شیرباز بلوچ، اور سینیئر جوائنٹ سیکریٹری کامریڈ آصف نور بلوچ تھے ۔ جبکہ اجلاس کی کاروائی زونل رکن قدیر بلوچ نے چلائی۔اجلاس کا باقاعدہ آغاز شہداء بلوچستان سمیت دنیا بھر کی مظلوم و محکوم جہدکار شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔ تعارفی نشست کے بعد مختلف ایجنڈاز پر تفصیلی بحث کی گئی جن میں بین الاقوامی اور علاقائی صورتحال، تنظیمی امور، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کے لائحہ عمل شامل تھے۔بین الاقوامی اور علاقائی تناظر پر بات کرتے ہوئے ساتھیوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سرمایہ دارانہ گلوبل ڈیموکریسی انسانی دنیا کے نجات دہندہ کے دعویدار کے طور پر ابھری اور ساری دنیا کو یہ منوانے کی کوشش کی کہ اس نظام میں ہی انسانی نسل کے لیے مکمل نجات ہے، اور اسی پر تاریخ کا اختتام ہے۔ مگر آج عالمی دنیا کی کیفیت دیکھی جائے تو ہر طرف انتشار، ٹوٹ پھوٹ، بے چینی، سر اٹھاتی چپقلشیں غالب منظرنامہ کے طور پر اپنا اظہار کررہی ہیں۔ ان جنگوں کی وجہ سے دنیا آج بنیادی ضروریات سے محروم ہو چکی ہے۔ مختلف اقوام دو وقت کی روٹی کے لیے خانہ جنگی کے طرف بڑھ رہی ہیں۔ معاشی بدحالی سے نڈھال یورپ کے باشندے دوبارہ تنگ نظری اور قوم پرستی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ساتھیوں نے کہا سرمایہ دارانہ نظام کے فطری تضادات جنگوں کو اس سامراجی نظام سے جڑا ایک ناگزیر مظہر بنا دیتے ہیں۔ مزید برآں اجلاس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان جو اس سرمایہ دارانہ نظام میں ایک تاخیر زدہ فوجی ریاست کے طور پر جڑا ہے، پاکستانی سماج و ریاستی مشینری کو اپنے تاریخ کے شدید ترین سیاسی تقسیم و انتشار کا سامنا ہے، یہ کیفیت ریاستی سیاسی اشرافیہ کے مراکز، جوڈیشری، انتظامی ڈھانچہ، اسٹیبلشمنٹ سے لیکر ریاستی جڑوں تک اپنا اظہار کررہی ہے۔ ان تیز ترین تضادات کے سبب جہاں ریاستی بحرانات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔وہی ان بحرانات کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاست محظ طاقت و غیر جمہوری روایات پر عمل پیرا ہونے کو ہی ممکنہ حل کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں بالخصوص پاکستان میں موجود دیگر زیرِ دست اقوام کی لوٹ مار اور جبر و وحشت اپنے انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ساتھیوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا بلوچستان کے ساتھ اگر کوئی تعلق پنپتا ہے تو وہ بلوچ دھرتی پر فوجی آپریشن، شرمناک لوٹ کھسوٹ ، قتل و غارت کی داستانوں پر مبنی ہے ۔ ریاستی جنگی مشینری کے زیر دست بلوچ سماج کو اس وحشت و بربریت کے سامنے شدید ترین سیاسی و ثقافتی بحران، ٹوٹ پھوٹ و انتشار کا سامنا ہے ۔ حالیہ بلوچ نسل کشی کے خلاف ابھرنے والی تحاریک و بلوچ نوجوانوں کے خودکشیوں میں اضافہ اس سماجی گھٹن و پر تشدد کیفیت سے جنم لے رہی ہے ۔ ریاست بلوچ سماج کی آہ و بقا کے جواب میں ماضی کی طرح زیادہ سے زیاد طاقت کے استعمال کی روش اپنائے ہوئی ہے۔ جسکے نتیجے میں بالخصوص بلوچ طلبا و نوجوانوں کو آئے روز جبری گمشدگی،ماورائے عدالت قتل اور گرفتاریوں کا سامنا ہے۔ بندوق برداروں اور کرپٹ مافیا کے زیر دست تعلیمی ادارے شدید ترین مالی و انتظامی بحران کا شکار ہے، جبکہ بلوچ سماج کو سیاسی و شعوری تمام سرگرمیوں پر شدید پابندیوں کا سامنا ہیں ۔مزید برآں زونل اراکین نے تنظیم کے ایجنڈے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پچھلے چھ دھائیوں سے بلوچ نوجوانوں کی سیاسی شعور کی درسگاہ کی حیثیت سے بلوچ قومی تحریک کا دفاع کرتی آرہی ہے۔ موجودہ عہد کے ان تاریخی تبدیلوں میں بلوچ نوجوان منظم سیاسی عمل کا حصہ بن کر اپنے تاریخی ذمہ داریوں کو نبھائے، بلوچ سماج کے سیاسی و شعوری اساس کے دفاع کی جدوجہد میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرتے ہوئے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن وڈھ زون کے جنرل باڈی اجلاس کا انعقاد، ہفتہ وار اسٹڈی سرکلز سمیت دیگر فیصلہ جات لیکر انقلابی مزاحمت سے سرشار جزبوں کے ساتھ اجلاس کا باقاعدہ اختتام کیا گیا ۔