تعلیم اور بلوچ نوجوان

تحریر: سجاد بلوچ

بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں دہائیوں سے ریاستی جبر اور استحصال کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاستی طاقتوں نے بلوچستان کو ایک باقاعدہ جنگی خطہ بنا دیا ہے، عام بلوچ عوام کو ان کے تمام تر بنیادی حق و حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہ حالات کسی حادثے کے طور پر پیدا نہیں ہوئے بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل سامراجی منصوبہ بندی ہے، جس کا مقصد بلوچ قوم کو شعوری طور پر پسماندہ رکھنا اور ان کی مزاحمتی طاقت کو کچلنا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری اس جنگی ماحول میں روزانہ کی بنیاد پر بلوچ نوجوانوں کو ان کے گھروں سے، تعلیمی اداروں اور کھیل کے میدانوں سے اغوا کر کے جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی بلوچ نوجوان کو سیاسی عمل میں ملوث پاکر یا تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے یا پھر ریاستی کال کوٹھریوں میں ڈال کر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس طویل دورانیے میں بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں کو ریاست نے ایک منظم سازش کے تحت ملٹری کیمپوں میں تبدیل کر دیا ہے تاکہ بلوچ طلباء کی سیاسی سرگرمیوں کو کاؤنٹر کیا جا سکے اور انہیں محض اکیڈمک معاملات میں الجھا کر ان کے قومی و مزاحمتی شعور کو ختم کیا جائے۔ جامعہ بلوچستان سمیت بلوچستان کے بڑے شہروں میں موجود کئی تعلیمی ادارے ریاستی عقوبت خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، جہاں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔ ریاست اپنے اسی منظم پروگرام کو کامیابی کی طرف بڑھاتے ہوئے آج لسبیلہ یونیورسٹی کو بھی ملٹری کیمپ میں تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، جہاں سیاسی سرگرمیوں کے خاتمے کا آغاز کیا جا چکا ہے۔

حال ہی میں لسبیلہ یونیورسٹی اوتھل میں بلوچ طلباء کی جانب سے یونیورسٹی فوڈ فیسٹیول میں کتاب اسٹال لگانے پر یونیورسٹی انتظامیہ نے ریاستی آلہ کار کا کردار ادا کرتے ہوئے طلباء کو ہراساں کیا، ان کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر زمین پر پھینک دی گئیں، اور طلباء کو دھمکایا گیا کہ آئندہ یونیورسٹی احاطے میں کوئی تنظیم بک اسٹال قائم نہیں کر سکتی۔ اسی دوران انتظامیہ نے کئی طلباء کو یونیورسٹی سے ریسٹیکیٹ بھی کر دیا۔ لسبیلہ یونیورسٹی میں نئے تعینات ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر مالک ترین کی آمد کے بعد طلباء کے خلاف ریاستی جبر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اسٹڈی سرکلز پر پابندی، سیاسی اور علمی پروگرامز کی روک تھام، یونیورسٹی میں سیکیورٹی فورسز کو تعینات کر کے خوف و ہراس پھیلانا، اور طلباء کو ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاسی تعلیم و نظریاتی جدوجہد بھی ہمارا بنیادی حق ہے، جسے کوئی بھی ریاستی طاقت یا یونیورسٹی انتظامیہ ہم سے چھین نہیں سکتا۔ دنیا کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں طلباء سیاست پر پابندی نہیں، تو بلوچ طلباء کو سیاست سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ موجودہ سامراجی عہد میں، میں سمجھتا ہوں کہ طلباء سیاست ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعے مظلوم اقوام خصوصاً طلباء اپنے حقوق کی بازیابی اور قومی سوال پر شعور حاصل کر سکتے ہیں۔12

مارچ کو لسبیلہ یونیورسٹی میں بلوچ طلباء نے انہی ریاستی جبر اور پابندیوں کے خلاف ایک پُرامن احتجاجی ریلی نکالی، جو ڈی وی ایم ڈیپارٹمنٹ سے ہوتے ہوئے ایڈمن بلاک تک پہنچی۔ جہاں طلباء نے اپنے حق میں تقاریر کیئے اور جب طلباء کی جانب سے اس دھرنے کو احتجاجی کیمپ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تو یونیورسٹی کے سیکیورٹی اہلکاروں نے طلباء پر دھاوا بول کر ان کے ہاتھوں سے ٹینٹ چھین لیا اور طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ لیکن طلباء نے خوف کے بجائے مزاحمت کا راستہ اپنایا اور واپس دھرنے کی جگہ پر بیٹھ کر اعلان کیا کہ جب تک ہمارے بنیادی مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔

ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ بلوچ نوجوانوں کو شعور، تعلیم اور سیاست سے دور رکھنا دراصل انہیں ذہنی غلام بنانے کی سازش ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ قومیں شعور کی طاقت سے زندہ رہتی ہیں، اور بلوچ طلباء اپنے شعوری و نظریاتی جدوجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.