بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن اوتھل زون کی جانب سے ”جاگیرداری“ کے عنوان سے اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔

رپورٹ: پریس سیکرٹری بی ایس او اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے 7 دسمبر 2022 بروز منگل کو ” جاگیرداری“ کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل منعقد کیا گیا، جس پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کے جونیٸر جوائنٹ سیکریٹری کامریڈ گلین بلوچ نے لیڈ آف دی سرکل کی صدارت زونل صدر کامریڈ بامسار بلوچ نے کی اور سرکل کی کارروائی زونل جنرل سیکریٹری سجاد بلوچ نے چلائی۔

سرکل کا آغاز بی ایس او کے انقلابی روایتی انداز سے کیا گیا جس میں ساتھیوں نے دنیا بھر کے انقلابی شہداء کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی اختیار کیا گیا اور پھر باقاعدہ طور پر سرکل کا آغاز کیا ۔

اسٹڈی سرکل کا آغاز کرتے ہوٸے کامریڈ نے کہا کہ آج کا عہد سرمایہ داری کا عہد ہے جو کہ زوال پذیر ہے۔ اور یقیناً ایک زوال پذیر استحصالی عہد ہمیشہ کےلیے انسانیت کا مقدر نہیں بن سکتا۔ ساتھی نے کہا ہر چیز اور نظام تغیر پذیر ہے اور اس مادی دنیا میں مستقل کوٸی شے کوٸی نظام نہیں ہے ہر شے و نظام حرکت میں ہے، یہ حرکت ایک طرف نٸے تضادات کے تحت فنا کا بھی سبب بن رہا ہے تو دوسری طرف تخلیق و پیداٸش کا بھی۔ آج کے عہد میں پہنچنے سفر طے کرنے کےلیے انسان نے ھزاروں سال کا بے تہاشا جدوجہد کیا ہے اور اس نظام سے نکلنے کےلیے بھی ابھی انسانیت کی جدوجہد جاری ہے۔

ساتھی نے کہا انسانیت مختلف نظاموں سے ہوتے ہوٸے اور ان نظاموں کے عروج و زوال کو دیکھتے اور انہیں بناتے و مٹاتے ہوٸے یہاں تک پہنچا ہے۔ سب سے اولین نظام جس میں انسانیت نے ھزاروں برس گزارے وہ قدیم اشتراکی سماجی نظام تھا جس میں ذراٸع پیداوار انتہاٸی سادہ تھا اور زاتی ملکیت کا تصور تک نہ تھا۔ یہ وہ اولین نظام تھا جس میں سماج کے تمام تر زن و مرد کو برابری کے اختیارات حاصل تھے اور پیداوار میں محنت اور اس کی تمام تر تقسیم مشترکہ تھی۔ ابتداٸی کمیونسٹ سماج میں زاٸد پیداوار کا تصور نہ تھا کیونکہ پیداواری اوزار انتہاٸی سادہ تھے جس کی بدولت تمام تر سماجی پیداوار فقط انسانی ضرورتوں کو پوری کرنے کےلیے تھی۔ اس طرح استحصال سے پاک ایک قدیم اشتراکی سماج وجود رکھتا تھا۔

لیکن جس طرح سماجی ساٸنس کا اصول ہے کہ کوٸی بھی سماجی نظام ہمیشہ سے وجود نہیں رکھتی اور نہ ہی ہمیشہ کےلیے ہوتی ہے۔ قدیم اشتراکی سماج کے ٹوٹنے کا سبب یہ بنا کہ انسان نے اپنے پیداواری آلات میں جدت لایا اور ان آلات میں جدت کی وجہ سے زیادہ پیداوار ممکن ہوا۔ اس دوران ایک ایسا بھی دور آیا کہ قدر زاٸد اجناس کی پیدوار ممکن ہوٸی اور ان اجناس کا تبادلہ دوسرے علاقاٸی سماجوں کے ساتھ ممکن ہوا۔ اور جو جدید آلاتا پیداوار تھے ان پر ایک مخصوص طبقے کا قبضہ ہوا جس کی بدولت وہ طبقہ پھر زیادہ سرمایہ اکھٹا کرنے کے قابل ہوا۔ زیادہ دولت اکھٹا کرنے کی شکتی نے اس طبقے کو باقی سماج سے طاقتور کیا اور اس طرح وہ طاقتور طبقہ باقی ماندہ سماج کے لوگوں کو اپنے زیر تسلط رکھنے اور حکم چلانے کے قابل ہوا جس کی بدولت غلام دارانہ سماج کا آغاز ہوا۔ غلام دارانہ سماج میں آقاٶں کا طبقہ باقی ماندہ محروم لوگوں کو اپنا غلام بناتا اور ان سے مختلف قسم کے کام لیتا، ان پر جبر کرتا ان کی محنت کا استحصال کرتا اور ان سے زمینوں پر کام بھی کرواتا جس سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا ممکن ہو جاتی۔ غلام دارانہ سماج نے پھر آقاٶں کے اس طبقے کو اتنا طاقتور اور دولت مند بنایا کہ وہ نہ صرف اپنے سماج کے اندر لوگوں کو غلام بناٸیں اور زمینوں پر قبضہ کریں بلکہ وہ اس طاقت و دولت کی بدولت باقی قباٸل و کمیونٹیز کے افراد و زمین، وساٸل پر بھی قبضہ کرنے اور ان استحصال کرنے میں کامیاب ہوٸے۔ اس قبضہ گیری میں ایک طبقے کے ہتھے بہت ساری زمینیں اور دوسرے زراٸع پیداوار لگے جس سے جاگیر دارانہ سماج کا آغاز و قیام ممکن ہوا۔

مزید سرکل کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جاگیرداری عہد میں زمین کی تمام تر ملکیت فقط ایک طبقے کے پاس ہوتی تھی اور باقی ماندی انسانیت اسی طبقے کا غلام ہوتا اور ان کی زمینوں پر کام کرتا تھا۔ یہ طبقہ نہ صرف ھزاروں لاکھوں ارضی کی جاگیریں رکھتا تھا بلکہ پوری کی پوری سلطنتین ان کی جاگیر ہوا کرتی تھیں اور اس میں بسنے والا رعایا بھی ان کی ملکیت ہوتا تھا جس پر وہ بادشاہت کرتے تھے۔ جاگیر داری کے عہد میں انسانیت کی تذلیل و توہین اور استحصال کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک طرف مٹھی بھر لوگ حاکم و بادشاہ تھے جو کوٸی محنت نہیں کرتے دوسری طرف ھزاروں لاکھوں لوگ تھے جو محنت کرنے کے باوجود کسمپرسی اور خوف و جبر کی حالت میں زندگی گزارتے تھے۔ جاگیرداری عہد کے اندر مذاہب نے عروج پایا اور بادشاہ سلامت خود کو خدا کے برگزیدہ ہستی بتاتے اور لوگوں اپنی تابعداری غلامی کے لیے الہامی قصے کہانیاں سناتے تھے۔ جاگیرداری عہد کے اندر یورہین سماج میں ایک طرف مقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی صنعتوں کا قیام ممکن ہوا تو دوسری طرف بہت ہی محدود پیمانے پر ایک مڈل کلاس طبقہ بھی ابھر آیا۔ وہ لوگ جو کہ بادشاہت میں بھی براہ راست حصہ دار نہیں تھے اور وہ باقاعدہ طورپر کسان بھی نہیں تھے۔ اس طبقے کے وجود سے نٸے خیالات ابھرنا شرو ہوٸے اور انہوں نے آزادی و غلامی کی اپنی طرح سے تشریح کرنی شروع کردی۔

یورپ کے نشاطِ ثانیہ کے دوران سیکڑوں ھزاروں لوگوں نے بادشاہت، کلیسا اور جاگیرداری کے جدوجہد میں اپنی جانیں دیں۔ سیکڑوں دانشور اس تاریک عہد کے خلاف مسلسل بولتے اور لکھتے رہے اور اس جدوجہد کی پاداش میں اذیتیں بھی سہیں۔ تب جا کر یورپ میں جاگیرداری کا یہ سفاک نظام ٹوٹا اور سرمایہ داری کے نظام کا آغاز ممکن ہوا۔

آخر میں سرکل میں موجود ساتھیوں نے اس حوالے سے سوالات کیے اور کامریڈ نے سوالات کے تسلی بخش جواب دیتے ہوئے سرکل کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.