بلوچستان کے وساٸل سے پنجاب انڈسٹریلاٸز ہو چکا جبکہ بلوچ کے حصے میں بھوک، جبر اور مسخ شدہ لاشیں آٸیں: چیٸرمین چنگیز بلوچ

ہم بحیثیت مرکزی قیادت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آج آپ سے مخاطب ہو کر انتہائی پر امید ہیں کہ آپ ہماری آواز کو اپنے اخبارات و جرائد کے ذریعے عوام کے وسیع تر حلقوں تک پہنچائیں گے۔

معزز صحافی حضرات

بلوچستان کی موجودہ صورتحال ظلم و زیادتی کی ایک بھیانک ترین مثال ہے۔ جہاں آئے دن ظلم و زیادتیوں کی نئی مثالیں قائم کی جارہی ہیں۔ بلوچ سماج مجموعی طور پر سیاسی و معاشی قتل عام اور ملکی و بین الاقوامی سامراجی طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ جنگوں کا اکھاڑا بنایا گیا ہے۔ بلوچ عورتوں اور طلبہ کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ، تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے عوام کو محروم رکھنا انہی سامراجی پالیسیوں کا تسلسل ہے اور یہ تمام مظالم دنیا بھر کی دیگر محکوم اقوام کی حالتوں کی بھی عکاسی ہے۔

مجموعی طور پر عام عوام نہ صرف سیاسی و معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر ہیں بلکہ ملکی و بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ بلواسطہ جنگی حالات میں دھکیل دیے گئے ہیں اور عوام ہر لمحہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

دنیا بھر میں آج قومی غلامی اور طبقاتی جبر کے خلاف تحریکیں ابھر رہی ہیں جو آنے والے وقتوں میں انقلابات کو جنم دیں گی اور ان کے اثرات دنیا کے ہر حصے کو متاثر کریں گے۔ ایسے میں بلوچ عوام بھی مسلسل اپنے اظہار کو آگے بڑھا رہے ہیں اور گوادر حق دو جیسی تحریکیں ہر حصے میں پنپ رہی ہیں۔

کوہلو بلوچ مزاحمت کا استعارہ ہے جس کی وجہ سے جبر و استحصال کا بھی مرکزی نقطہ بھی رہا ہے۔ حکومتی پراجیکٹس مذید استحصال کےلیے راہ ہموار کرتی ہیں، اور عوام کو کھوکھلے دعوٶں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔

کوہلو کے عوام جو دہائیوں سے بدترین جبر کا شکار رہے ہیں، اکیسویں صدی میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، ہسپتال کی بلڈنگ ہے جہاں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں اور اسکول اور کالجز کے بڑے بورڈز ہیں پر جہاں تعلیم فقط نام کی ہے۔ گرلز کالج کے نام پر اربوں روپے لوٹے گئے لیکن آج بھی ایک کھوکھلی عمارت کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ اس پر ظلم یہ کہ محدود تعلیمی انفراسٹرکچر کو بھی سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کیا جاتا ہے، سکولز کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کےلیے بیٹھکوں میں تبدیل کردیا گیا ہے اور کوہلو کی واحد پبلک لائبریری کو ضلعی چیئرمین کا دفتر بنا دینا مقتدرہ قوتوں کےلیے شرمندگی کا مقام ہے۔ پچھلے پانچ سالہ حکومتی دور میں جہاں وزیر تعلیم کا تعلق بھی کوہلو سے رہا ہے وہاں کی تعلیمی زبوں حالی باعثِ افسوس ہے۔

گراں قدر صحافی حضرات

ماڑی گیس پراجیکٹ بلوچ دھرتی کی بےدریغ لوٹ مار کا ایک نیا طریقہ ہے جو بلین ڈالرز کے وسائل لوٹ کر لے جائے گی اور بدلے میں عام عوام اس کے ثمرات سے محروم ہی رہیں گے۔

ترقی کے نام پر نام نہاد دعوؤں کے پیچھے یہ پراجیکٹس استحصال میں نیا اضافہ ہیں جو پنجاب کی خوشحالی اور ہماری زندگیوں میں مذید گراوٹ کا باعث بنیں گے۔ ان پراجیکٹس کے ساتھ تشدد کی ایک نئی لہر بھی ہمارے علاقوں کی طرف آرہی ہے جو مستقبل میں کئی مسائل کا باعث بنے گی۔

بلوچستان میں دہائیوں سے جاری استحصالی پراجیکٹس نے نہ صرف ہمارے وسائل کا بے دریغ استحصال کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ ہماری غلامی کو بھی مذید تقویت بخشی ہے۔

دہائیوں سے بلوچستان سے گیس اور دیگر معدنیات نکالے گئے لیکن کہیں ایک ڈسپنسری تک ان پراجیکٹس کے توسط سے عام عوام تک نہیں پہنچائی گئی، بلکہ ابھی تک سوئی کی قریب ترین آبادیاں بھی گیس کی سہولت سے فیض یاب نہیں ہوسکیں اور انڈین بارڈر کے ساتھ کی پنجابی آبادیاں گیس سے دنیا کی سستی ترین قیمتوں پر استفادہ حاصل کر رہی ہیں۔ اسی گیس پر پنجاب انڈسٹریلاٸز ہو چکا ہے جب کہ ہمارے حصے میں فقط بھوک، جبر اور مسخ شدہ لاشیں آٸیں۔

کوہلو میں زبان بندی اپنی انتہاٶں کو چھو رہی ہے ایک طرف حکومتی دھونس و دھمکیاں ہیں تو دوسری جانب وڈیرہ شاہی کی بدمعاشی ہے جو ظلم و زیادتی کو پردہ فراہم کرتی ہے۔ ایسے میں عام عوام کی آواز اور امنگوں کا اظہار و نمائندگی ناممکن ہوچکی ہے۔

معزز صحافی حضرات

اس کے ساتھ ہی اس پلیٹ فارم کے توسط سے ہم پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم فرید بلوچ کی جبری گمشدگی و گرفتاری کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں، ہماری دھرتی کے مسلسل استحصال کے باوجود ہمیں تعلیم حاصل کرنے تک کا حق حاصل نہیں اور بلوچ نوجوان نہ تعلیمی اداروں میں محفوظ ہیں اور نہ ہی اپنے گھروں میں۔

آخر میں ہم مقتدرہ قوتوں پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ کوہلو میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے فوری طور پر ڈگری کالج سمیت ہائی سکول کے مسائل حل کیے جائیں اور گرلز ڈگری کالج کو بحال کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی لائبریری کو ضلعی انتظامیہ کے قبضے سے چھڑا کر عام عوام کے لیے کھول دیا جائے۔ بصورت دیگر ہم بھرپور عوامی تحریک نکالنے پر مجبور کردیے جائیں گے۔

آپ سب کا شکریہ

چیئرمین چنگیز بلوچ: چیئرمین، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن۔

جیئند بلوچ۔ سینیر وائس چیئرمین، بی ایس او
اورنگزیب بلوچ۔ سیکرٹری جنرل، بی ایس او
شیرباز بلوچ۔ جوائنٹ سیکرٹری، بی ایس او
نصیر بلوچ۔ ممبر مرکزی کمیٹی
نظر بلوچ۔ رہنما کوہلو زون۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.