بورژوا اور پرولتاری سیاسی تنظیموں میں فرق۔
تحریر : کامریڈ سجاد بلوچ
تنظیم کسی خاص مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والی ایک اجتماعی طاقت کا نام ہے۔ تنظیم تمام ہم فکر و ہم خیال لوگوں کا ایک مجموعی ادارہ ہے، جہاں سماج کے تمام لوگ اپنے طبقے کی مفادات کے تحفظ کیلئے جمع ہوجاتے ہیں۔ مثلاً: مزدور طبقے کی تنظیم میں مزدور اور سماج کے باقی دیگر گرے پسے ہوئے طبقات کے لوگ اپنے مجموعی مفادات کی خاطر جمع ہوجاتے ہیں۔ طلباء تنظیموں میں طلباء و طالبات اپنے آئینی حقوق کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں وغیرہ…۔ یہ فرض کرلینا کہ تنظیم محض سماج کے پچھڑے ہوئے محکوم و مظلوم طبقات کی طاقت و توانا اوزار ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ تنظیم جیسے دیوہیکل طاقت سے سماجی حکمران (بورژوازی) بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سامراج و سامراجی ممالک بھی اس آلے کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
فی الوقت یہ جاننا ضروری ہے کہ محکوموں اور سامراجی طاقتوں کو تنظیم جیسے دیوہیکل طاقت کی ضرورت کیوں پڑتی ہے ؟ وہ کونسے ایسے اسباب ہیں جو ان کو تنظیم جیسے آلے کو استعمال کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں؟ یقیناً ان اہم سوالات کے جوابات کو ڈھونڈنے کیلئے ہمیں عالمی سطح پر موجودہ بحرانی حالات کا جائزہ لینا پڑے گا۔ آج عالمی سطح پر سرمایہ داری نظام کے بحران سے پیدا ہونے والے پراگندگی و انتشار نے دنیا بھر کو جنگی جوکھنوں میں ڈال دیا ہے۔ دنیا بھر کے طاقتور ترین سامراجی ممالک مختلف سیاسی محازوں و مختلف کیمپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان سامراجی طاقتوں کا اس طرح ایک دوسرے سے علیحدہ گروہوں کی شکل اختیار کرنا اور دنیا بھر کے محکوموں اور پچھڑے ہوئے قوموں کو لوٹنا اور انہیں یرغمال بنا کر ہمیشہ ان پر غالب رہنے کا یہ عمل دراصل ان کی سامراجی مقاصد کو عیاں کر دیتا ہے۔
نیٹو کے اغراض و مقاصد دنیا بھر کو کمیونسٹ نظریات سے بچانا اور سرمایہ دارانہ نظریات کو وسیع پیمانے پر عالمی سطح پر پھیلانے کے تھے۔ اور آج بھی نیٹو اپنے اسی اہم مقصد پر کاربند ہے۔ اس کے علاوہ سینٹو، سیٹو بھی ایسے ہی سامراجی تنظیم تھے جو کمیونزم کے اشتراکی نظریات کو عالمی نقشے پر پڑنے سے دیوار نما رکاوٹ بن کر کھڑے ہوئے تھے۔ اور یہ تنظیم اپنے مقصد میں اس وقت کامیاب ہوئے جب 90 کی دہائی میں سوویت اشتراک کا سورج غروب ہوگیا اور پھر سے دنیا سامراج کے رحم و کرم پر رہ گیا۔ موجودہ دور میں بھی سامراجی طاقتوں نے بہت سی سامراجی تنظیمیں/اتحادیں تشکیل دی ہیں جس سے وہ اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کیلئے ایک کُل کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ان میں سے کواڈ، اوکس، برکس، جی سیون وغیرہ جیسے سامراجی اتحادیں آج بھی عالمی سطح پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اور وہ اپنے اس خاص مقصد (یعنی لوٹ مار، جنگ و جدل، نا انصافی و نابرابری جیسے سرمایہ دارانہ نفسیات) کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر تنظیم جیسی اجتماعی طاقت کا سہارا لیتے ہیں۔ ان سامراجی طاقتوں کو تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت اس لئے بھی پڑتی ہے تاکہ وہ اجتماعی صورت میں اپنے بلمقابل طاقتوں کا مقابلہ کرسکیں، انہیں شکست فاش دے سکیں اور با آسانی اپنے اہداف کو حاصل کر سکیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نیٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) جیسے انٹرنیشنل تنظیم کا وجود میں آنا اسی نقطے کی ایک اہم کڑی ہے۔
اس کے برعکس دنیا بھر کے محکوم و مظلوم بھی ان سامراجی جرائم پیشہ تنظیموں کیخلاف ہر دور میں حق و انصاف کا جھنڈا ہاتھ میں تھامے بلند آوازوں میں اپنے ہم فکر مظلوم و محکوم طبقات و قوموں کو ایک کُل کی شکل اختیار کرنے کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ تاریخ میں محکوموں کی بہت سی ایسی سرکش تنظیمیں/پارٹیاں رہی ہیں جنہوں نے سامراج کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اور سامراج مسلسل انہیں نیست ونابود کرنے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کرتا تھا۔ مگر پر بھی ناکامی سامراج کی نصیب میں ہی لکھی تھی۔ سماجی انقلابی تاریخ میں قابلِ ذکر پارٹی بالشویک پارٹی تھی جس نے روس جیسی غلام قوموں کو زار کی تسلط سے آزاد کرایا تھا۔ اور دنیا کے باقی دیگر ممالک میں سرمایہ داری و قومی جبر سے آذادی کی تحریکوں کو توانائی بخشنے کا کام سر انجام دیتا تھا۔ اور مکمل انسانیت کو سرمایہ دارانہ مظہر سے بچانے اور سوشلزم کی جانب دھکیلنے کا ایک انتہائی ناقابلِ فراموش جدوجہد کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ میں سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کے ایک بڑی آبادی کو جاگیرداری نظام کی پراگندگی اور انتشار سے بھرے پڑے گندگی سے مکتی دلا کر انہیں ارتقائی سفر میں داخل کر دیا۔ اور انسانی سماج کو پچھڑی ہوئی ماحول سے نکال کر ترقی و تعمیراتی مراحل تک پہنچا دیا ہے۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تمام تر ترقی و ترویج کا یہ سفر یہاں ہرگز رکنے والا نہیں ہے۔ جدلی و تاریخی مادیت کی رو سے یہ رہتی دنیا کسی بھی سماجی نظام میں مستقل سکونت اختیار نہیں کرتا۔ یہ حتمی بات ہے کہ ایک سماج اپنی منزل تک پہنچ کر زوال پزیر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس زوال پزیر سماجی نظام کی جگہ ایک نیا سماجی نظام لے لیتا ہے۔ اور اس عہد میں مزدروں کی انقلابی پارٹیاں اپنی جدوجہد کی فلسفے سے اس تاریخی عمل کو انقلاب کی صورت میں مزید تیز تر کرنے کا کام سر انجام دیتے ہیں۔بقولِ کارل مارکس: انقلابات تاریخ کے انجن کا رول ادا کرتے ہیں۔
مزدور طبقے کا جمیعت سازی کی جانب بڑھنا اور ایک نیا معاشرتی نظام تعمیر کرنے کی جدوجہد کرنے کے اس عمل سے آج عالمی سامراج کو پیروں تلے زمین کھسک رہی ہے اور وہ ان خطرات سے نمٹنے کیلئے گروؤی شکل اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس طبقاتی جدوجہد سے آج محکوم اپنے اصل دشمن یعنی سرمایہ دار و جاگیردار پر بلواسطہ وار کرنے اور انہیں شکست دینے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ سامراجی و بورژوازی تنظیموں کے برعکس مزدور تنظیموں کا نصب العین اس رہتی دنیا کو سرمایہ داری جیسے عالمی وبا سے پاک کرنا ہے۔ اور سوشلزم کیلئے رائیں ہموار کرنا ہے۔
بورژوا سیاسی پارٹی اور پرولتاریہ (مزدوروں) کی سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے جاننے سے پہلے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سماج کا بالائی ڈھانچہ (شعور، اخلاق، عادات، خیالات و نظریات) ہمیشہ معاشرے کی بنیادی ڈھانچے (معاشی نظام) سے جڑا رہتا ہے۔ اور بنیادی ڈھانچے کے زیر اہتمام بالائی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے۔ اب موجودہ طبقاتی سماج میں جہاں سماج کی تمام تر معیشت چند ہاتھوں(حکمران طبقے کے ہاتھوں) میں مرتکز ہے تو یہاں مجموعی شعور یعنی سماجی بالائی ڈھانچہ بھی حکمران طبقے کے عین مطابق ہوگی، جو ہمیشہ اپنی ضد (انقلابی شعور) کو دبانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ “مجموعی شعور” میں نے اس لیے کہا کہ بورژوازی عام عوام کو مختلف طریقوں سے استعمال کرنے کے لئے ان کا اعتماد جیت لیتے ہیں۔ مثلاً: انہیں مراعات و حاصلات دے کر انہیں اپنے پارٹیوں میں شامل کرتے ہیں۔ اور پھر انہیں اپنی بورژوازی نفسیات کی پرچار کرنے کے لئے ہر طرح سے استعمال میں لاتے ہیں۔
لہٰذا حکمران طبقے کا بورژوا شعور اور مزدور طبقے کا انقلابی شعور مسلسل ایک دوسرے کو دبانے کے لئے حرکت میں ہوتے ہیں۔ عین اسی طرح کسی معاشرے میں بھی دو متضاد قوتیں ہمیشہ تکرار میں رہتے ہیں۔ وہ تضادات جس نوعیت کے بھی ہوں مگر وہ ہمیشہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کے لئے کشمکش میں رہتے ہیں۔ مزدور اور بورژوا سیاسی پارٹیاں بھی ہمیشہ ایک دوسرے کی نفی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ فطرت ہمیشہ ارتقائی عمل کو دوام بخشنے والا مہربان ہے۔ وہ کبھی کسی جامد و ساکت چیز کا ساتھ نہیں دیتا۔ تاریخ اس بات کی دلالت دیتی ہے کہ ہر سماجی نظام کو ایک جگہ پر ساکت و جامد رکھنے کے لئے حکمران طبقات نے ہر اول کردار ادا کیا ہے۔ اور اب بھی سماجی ارتقائی عمل کو روکنے کیلئے وہ اپنی ہر ممکن کوشش آزما رہے ہیں۔
بورژوا سیاسی پارٹیوں اور پرولتاریہ سیاسی پارٹیوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ بورژوازی سیاسی پارٹیوں میں صرف جاگیر دار، سرمایہ دار، کارخانہ دار جیسے سماجی بالائی طبقوں کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اور یہی تنظیمی قیادت کی مکمل بھاگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔ اس کے برعکس مزدور طبقے کی پارٹیوں میں مزدروں کے علاوہ سماج کے باقی دیگر گرے پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ اور تنظیم انہیں مختلف تجربات سے گزار کر انہیں مجموعی سیاسی قیادت کیلئے تیار کرتا ہے۔ مزدوروں کے تنظیم کے کچھ بنیادی اغراض و مقاصد ہوتے ہیں سماج کا جو بھی فرد ان کو قبول کر کے تسلیم کر لیتا ہے تو اسے مزدور پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں باقی کسی بھی صورت عام لوگوں کو پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
بورژوا سیاسی پارٹیوں میں ہمیشہ پارٹی رہنماء (لیڈر) کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ پارٹی لیڈر کی کلٹ پرسنالٹی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ عوامی رائے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ پارٹی لیڈر جو بھی فیصلہ کرے اسے تمام پارٹی ممبران کو برحق تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ پارٹی میں کوئی تنقیدی سلسلہ نہیں ہوتا۔ جس سے پارٹی کے نچلے سطح کے اراکین حوصلہ شکنی کا شکار ہو جاتے ہیں اور پارٹی میں دھڑے بندیاں بننی شروع جاتی ہیں ۔ ہر معاشرے میں حکمران طبقات کی تنظیمیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ سرمایہ داروں کی ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی کے سبب معاشرے میں ان کی سیاسی پارٹیاں بھی بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس تقسیم سے جہاں ایک طرف مزدور طبقے کو فائدہ پہنچتا ہے وہیں دوسری جانب مزدوروں کو نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ فائدہ اس وجہ سے کہ سرمایہ دار ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں انہیں شکست دینے میں آسانی ہوگی۔ مگر نقصان اس وجہ سے ہے کہ بورژوا سیاسی پارٹیوں کی سماج میں بڑی تعداد میں موجودگی اور ان پارٹیوں کی موقع پرستی عام عوام کو اصل سیاست و سیاسی پارٹیوں سے بدظن کرتے ہیں۔ اور عام عوام کا تمام سیاسی جماعتوں سے بھروسہ ٹوٹ جاتاہے۔ اور دوسری جانب بورژوازی مسلسل “انٹر ازم” کے حربے کو استعمال میں لاکر مزدور پارٹیوں کو تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ “انٹر ازم” ایک ایسا حربہ ہے جو حریف اس طرح اختیار کرتاہے کہ جس ادارے یا پارٹی/تنظیم کو برباد کرنا ہو اسی کے اندر پختہ اعتماد جیت کر اس کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ واردات یہ ہے کہ حریف باہر سے اداروں اور پارٹی/تنظیم میں قیادت کی لیول سنھبال رہا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس مزدور طبقے کی پارٹیاں مارکسزم و لیننزم کی تھیوریز کو اپنا انقلابی رہنما سمجھتی ہیں۔ مارکسی و لیننی نظریہ اور طریقہ کار ہی مزدروں کو بورژوازی کی فاسد نظریے سے بچائے رکھنے کا کام کرتی ہے۔ یہی مارکسی و لیننی نظریات پر عمل پیرا تنظیم ہی مزدروں کی مستقل قوت ہوتی ہے۔ جو ہر وقت سوشلزم کے لئے مزدوروں کی نشوونما کرتی ہے۔ یہ پارٹی ہمیشہ عام عوام سے رابطے میں رہتی ہے۔ یوں سمجھیں کہ یہ پارٹی عوام میں رہتا ہے۔ اور ایک مکمل عوامی شکل اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ اس پارٹی کا نصب العین ہی یہی ہوتا ہے کہ عام عوامی رائے و مفادات کو زیرِ طاق رکھ کر ان کیلئے مسلسل جدوجہد کرنا۔ پرولتاری پارٹی کی بنیاد”ڈیموکریٹک سینٹرل ازم” پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ جدلیاتی طور پر دو مربوط عناصر “جمہوریت” اور “مرکزیت” پر مشتمل ہے۔
یہاں “جمہوریت” سے مراد کھلم کھلا بحث مباحثہ اور “مرکزیت” سے مراد تنظیمی اتحاد و سخت نظم و ضبط ہے۔ مزدور پارٹی کو منظم و مربوط رکھنے کے لئے جمہوریت و مرکزیت کا دائمی طور پر موجودگی ضروری و لازمی ہوتا ہے۔ ایک کے بغیر تنظیم اپنی سیاسی توازن کو برقرار رکھنے میں ناکامیاب ہوگا۔ اگر تنظیم میں مرکزیت کو ختم کردیا جائے تو تنظیم میں نظم و ضبط کا ماحول دھرم بھرم ہوجائے گا۔ اور تمام تر بحث مباحثے بے سود ثابت ہو جائیں گے۔ اسی طرح اگر جمہوریت کو ختم کر دیا جائے تو تنظیم ایک پولیٹیکل کلب کی مانند ہوگا، جہاں محض فردِ واحد یعنی پارٹی لیڈر کی پرستش شروع ہوجاتی ہے۔ بھلے اس میں کوئی شک نہیں کہ انقلابی پارٹی لیڈر کی جدوجہد قابلِ تحسین ہوتے ہیں۔ اور انقلابی پارٹی لیڈر داد کے مستحق ہوتے ہیں۔ مگر لیڈر کی پرستش یا اس کے کسی بھی فیصلے پر تنقید کیے بغیر اسے من و عن تسلیم کرنے سے عام پارٹی ممبران کی سوچ، خیالات و عملی سرگرمیوں میں کمزوریاں پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے تنظیم میں مجموعی سیاسی قیادتی بحران جنم لیتا ہے۔
اسی طرح اگر “مرکزیت” کو تنظیم سے خارج کیا جائے تو تنظیم میں آمرانہ رویے جنم لیتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ تنظیم کے نچلے سطح کے ارکان حوصلہ شکنی کے شکار ہو کر تنظیم میں دھڑے بندیوں میں بٹ جاتے ہیں۔ جمہوری مرکزیت کا اصول ہی پرولتاریہ کی پارٹی کو بورژوا پارٹی سے مختلف اور مضبوط بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اسی لیے مزدور پارٹیوں میں آزادنہ بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور اکثریتی رائے کو اقلیتی رائے سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک بار اکثریتی رائے سے فیصلہ جات سامنے آئے تو تنظیم کے تمام اراکین ایک سخت آئینی ڈسپلن کے مطابق تنظیمی فیصلوں پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ یہی جمہوری مرکزیت کا اصول ہے۔ یہی عمل تنظیم کو مجموعی طور پر قیادت کے لیے تیار کر دیتا ہے۔ اس عمل سے تنظیمی اراکین شخصیت پرستی اور تنظیم لیڈر کی کلٹ پرسنالٹی کو زیادہ اہمیت دینے سے باز رہتے ہیں۔ اور خود کو زیادہ سے زیادہ سخت ترین حالات سے نمٹنے کیلئے شعوری طور پر تیار کرتے ہیں۔