قومیت، سامراجی ریاستیں اور قوموں کے حقِ خودارادیت سے کیا مطلب ہے؟

کتاب: قوم اور قومیت

مصنف: جوزف اسٹالن

تبصرہ: سجاد بلوچ

قومیت سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے۔

اسٹالن قوم اور قومیت کتاب کے تیسرے باب کو شروع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قومیں تاریخ کے ایک مخصوص دور میں پیدا ہوئے اور وہ دور سرمایہ دارانہ نظام کے عروج کا تھا۔ جاگیرداری نظام کے زوال اور سرمایہ دارانہ نظام کے عروج نے مغربی یورپ میں لوگوں کو انتشار اور پراگندگی کے دلدل سے نکال کر انہیں قومی یکجہتی اور جمیعت بندی کے رشتے سے منسلک کردیا۔ جوں ہی مغربی یورپ میں قومیں وجود میں آگئے تب مغربی یورپ کے نقشے پر آزاد قومی ریاستوں کا بھی وجود میں آنا شروع ہو گیا۔ ان قومی ریاستوں میں محض ایک ہی قوم کے افراد رہتے تھے۔ مثلاً: فرانس میں محض فرانسیسی قوم کے لوگ رہتے تھے اور برطانیہ میں محض برطانوی قوم کے افراد رہتے تھے وغیرہ۔ اسی وجہ سے ان ممالک پر کبھی بھی قومی بالادستی کے کالے بادل نہیں گرے۔ یہ قومی ریاستیں اور ان میں بسنے والے قوم مکمل طور پر آزاد تھے۔

اس کے بر عکس مشرقی یورپ میں مضبوط مرکز والے قومی ریاستیں سرمایہ دارانہ نظام سے بہت پہلے وجود میں آہ چکے تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے بعد ان ریاستوں میں مختلف قومیں شکل پزیر ہوگئے۔ تب ان ممالک کو کثیر القومی ریاستوں کا نام دیا گیا ہے۔ اور اسی وجہ سے ان کثیر القومی ریاستوں میں قوموں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے کشمکش اور کشیدگی کے ماحول نے جنم لیا۔ طاقتور قوموں نے محکوم اور پچھڑے ہوئے قوموں کو زیردست بنانا شروع کر دیا، وہ ہر طرح سے ان محکوم اقوام کے لوگوں کا استحصال کرتے تھے مثلاً: روس میں روسی قوم سب سے زیادہ طاقتور ترین قوم تھا اور یہ قوم روس میں بسنے والے باقی دیگر محکوم اقوام کے لوگوں پر ہر طرح کے ظلم و جبر کیا کرتے تھے۔ کیونکہ روسی قوم طبقہ امراء کا تھا اور ہوں سمجھئے کہ مکمل ریاستی مشینری کو چلانے والے بھی روسی قوم کے لوگ تھے۔ دوسری طرف ہنگری میں میگیار قوم نے دوسرے تمام قوموں کو ریاستی نظم و نسق کا پابند بنا دیا تھا۔

کیونکہ میگیار قوم کے افراد ریاستی مشینری کو چلانے میں باقی تمام قوموں سے ہوشیار اور چالاک تھے۔ اسی طرح آسٹریا میں جرمن قوم باقی ماندہ تمام پچھڑے ہوئے قوموں سے ترقی یافتہ تھے۔ ان کثیر القومی ریاستوں میں انہی طاقتور ترین قوموں نے تمام تر ریاستی سیاسی تنظیم سازی کو ممکن بنانے میں ہر اول کردار ادا کیا تھا۔ اسٹالن کہتے تھے کہ مشرقی یورپ کے ان کثیر القومی ریاستوں کا اس طرح عجیب وغریب انذار میں شکل اختیار کرنے کا بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ریاستوں میں اب بھی سرمایہ دارانہ نظام بہتر انداز میں مستحکم نہیں تھا۔ اور اب بھی جاگیری نظام کے باقیات موجود تھے ان ریاستوں میں۔پھر جب آہستہ آہستہ سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہوتا گیا۔ اسی کے ساتھ بڑے بڑے شہر وجود میں آگئے۔

تجارتی نکل و حرکت کو فروغ ہوا۔ ہر قوم میں اندرونی معاشی استحکام پیدا ہوگئی۔ مشرقی یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کی لہریں پھیلتی گئی کمزور و ناتواں قوموں کے تھیٹر، قومی پریس، مجلس خانے وجود میں آئے۔ روس اور آسٹریلیا کے پچھڑے ہوئے قوموں میں غلامی سے نجات حاصل کرنے کے احساسات جاگنے لگے۔ مشرقی یورپ کے باقی دیگر کثیر القومی ریاستوں میں بھی قومی دانشور طبقے کے خیالات بیدار ہوگئے اور اب یہ فطری بات تھی کہ ان قوموں کا نصب العین آذاد قومی ریاستیں بنانے کا تھا۔ مگر مشرقی یورپ کہ یہ نوزائیدہ قوموں کی آزادی اور مغربی یورپ کے قومی ریاستوں کے قوموں کی آزادی میں آسمان اور زمین کا فرق ہے۔ ان کثیر القومی ریاستوں میں طاقتور قوموں نے اب بھی ان پچھڑے ہوئے قوموں پر اپنا تسلط جمایا ہے چنانچہ ایک مضبوط قومی تحریک کے بغیر ان طاقتور قوموں سے آزادی حاصل کرنا انہتائی مشکل تھا۔ لہٰذا ان تمام تر قومی مظلومیت و محکومیت کے احساسات نے ان محکوم قوموں کو غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے قومی جدوجہد پر آمادہ کیا اور یوں ان تمام تر محکوم قوموں کی آزادی کی تحریکیں وجود میں آئے۔

مگر یہ جدوجہد مکمل طور پر دو قوموں کے درمیان نہیں تھا۔ بلکہ حاکم قوم کے سرمایہ دار اور محکوم قوم کے سرمایہ داروں اور متوسط طبقے کے درمیان تھا ان تحریکوں سے محکوم قوم کے گرے پسے ہوئے طبقے کے لوگ مکمل طور پر بے بہرہ تھے۔ مثلاً: یوکرین کی قومی تحریک نے روسی قوم کے حکومت کے خلاف قومی تحریک چلائی تو اس تحریک میں یوکرین قوم کے صرف بالائی طبقوں اور متوسط طبقے کے لوگ شامل تھے۔ اس کے علاؤہ چیکوسلواکیہ اور اور جرمن قوم کے درمیان بھی اسی قسم کی تحریک چل رہی تھی۔ اس تحریک کی نوعیت یہ تھی کہ محکوم قوم کے سرمایہ دار اور حاکم قوم کے سرمایہ داروں کے درمیان مقابلہ بازی کی جنگ چل رہی تھی اس کے علاؤہ کچھ نہیں۔

اب یہ جاننا ہے کہ محکوم قوم کا سرمایہ دار طبقہ تحریکوں میں کیوں کر حصہ لیتے ہیں۔ اس سوال کا جواب آسان ہے۔ محکوم قوم کا سرمایہ دار طبقہ یہ چاہتا ہے کہ حاکم کے مقابلے میں منڈیوں پر زیادہ سے زیادہ میں قابض ہو جاؤں اور اسی وجہ سے سب سے پہلے اس کی نظر خود اپنے قومی منڈی پر پڑھتی ہے۔ اپنی منڈی پر وہ اس وقت تک اپنا اجارہ داری قائم نہیں کرسکتا جب تک وہ حاکم قوم کے سرمایہ دار طبقے کو یہاں سے بے دخل نہ کردے تب ہی محکوم قوم کے سرمایہ دار طبقہ حاکم قوم کے سرمایہ دار طبقے سے بلواسطہ ہر طرح کی جنگ لڑنے کے لیے میدان میں کود پڑھتا ہے۔ بنیادی سوال منڈی کا ہے، اور یہی وہ بنیادی درسگا ہے جہاں سے قومی سرمایہ دار طبقہ قومیت کا سبق پڑھتا ہے۔

سامراجی ریاستیں۔

کتاب کے چوتھے باب کو شروع کرتے ہوئے کامریڈ اسٹالن عرض کرتے ہیں کہ یورپ میں جب سرمایہ داریت ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہوا آگے بڑ رہا تھا اور مغربی یورپ کے ممالک یعنی برطانیہ، فرانس، جرمنی اپنے ملکی حدوں کو پار کرکے ایشیاء، افریقہ اور امریکہ تک پہنچ گئے اور یہاں سے خام مال اکٹھا کر کے مرکزی حکومت کو سپلائی کرتے تھے۔ اور پر خام مال سے تیار کردہ پراڈکٹ کو منافع بخشی کے لئے واپس انہی علاقوں میں مہنگے داموں میں بیچتے تھے۔ سرمایہ حاصل کرنے کی غرض سے پسماندہ ممالک تک پہنچنے کیلئے مغربی یورپ کے ان قومی ریاستوں نے سمندری اور خشکی کے تمام راستوں پر اپنا مضبوط قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ اس طرح یہ مضبوط مرکز والی مغربی یورپ کے قومی ریاست پسماندہ ممالک تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور اب یہ قومی ریاستیں کثیر القومی ریاستوں میں تبدیل ہوگئے۔ اور یہاں بھی وہی ہوا ایک قوم کو دوسرے قوم پر برتری حاصل ہونا، اس قومی تفریق نے قوموں کے اندر تشدد، جنگ و جدل کے ماحول کو جنم دیا۔

دوسری طرف وہ پرانی کثیر القومی ریاستیں ہیں جو پہلے سے ہی قومی ظلم و تشدد کے دلدل میں پھنس گئے ہیں اب ان میں مزید یہ خاصیت پیدا ہوگئی ہے کہ حاکم قوم کے سرمایہ دار اپنے ملکی حدوں کو پھیلانے کی غرض سے باقی دیگر ملکوں پر چڑھائی کرنے کی کوشش کرتے تھے جیسے زار شاہی کے دور میں روس نے ترکی ۔۔۔ پر قبضہ جمانے کیلئے ان مختلف قسم کے حملے کیے اور اس طرح قومی مسئلے نے نوآبادیات کے ایک عام مسئلے کی شکل اختیار کرلی۔ پہلے ایک قوم کا دوسرے قوم پر ظلم و جبر ریاستی اندرونی مسئلہ تھا مگر اب اس مسئلے نے عالم گیر شکل اختیار کرلی ہے۔ اب ہر طاقتور قوم زیادہ سرمایہ اور طاقت حاصل کرنے کی حصول کیلئے دوسرے محکوم قوموں پر اپنا سیاسی و معاشی تسلط جمائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش آزماتے تھے۔ اس مقابلے بازی سے خود سامراجی طاقتوں کے درمیان بھی تصادم اور جنگیں پیدا ہوئے اب ہر سامراجی ملک دوسرے سامراجی ملک کو شکست دے کر اس کے نوآبادیات پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ جس مسئلے کی جڑیں پہلے ریاستی سرحدوں تک پھیلے ہوئے تھے اب وہ جڑیں مکمل طور پر عالمگیر شکل اختیار کر گئیں۔

قوموں کے حقِ خودارادیت سے کیا مطلب ہے؟

حق خودارادیت کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ہر قوم اپنی زندگی کی ترتیب و تعمیر خود اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کرے کوئی قوم کسی دوسرے قوم کے تعمیراتی کام میں روڑے نہ اٹکائے۔ ایک قوم کو دوسرے قوم پر کسی بھی قسم کی بالادستی قائم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کوئی قوم کسی دوسرے قوم کے تعلیمی، سیاسی و معاشی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ اور ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے قوم کے ساتھ وفاق قائم کرے اور اسی طرح یہ حق بھی ہے کہ کسی دوسرے قوم یا ریاست سے علیحدگی اختیار کرے۔ یہ ہیں حق خودارادیت کے وہ چند بنیادی عناصر۔

سوشلسٹ اور سرمایہ داروں کے درمیان حق خودارادیت کے سلسلے میں جو بنیادی فرق پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ سوشلسٹ قوموں کے درمیان مساوات و برابری کا رواج قائم کرتے ہیں ایک قوم کو دوسرے قوم پر برتری حاصل کرنے کی خواہشات کو ختم کردیتے اور قوموں کے درمیان تاریخی ظلم و جبر کو باقاعدگی سے مٹانے کی کوشش کرتے۔ اس کے برعکس سرمایہ دار قوموں کے درمیان مقابلہ بازی کی نفسیات کو پروان چڑھاتے ہوئے قوموں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوموں کے درمیان ظلم و جبر کی تاریخی واقعات (قومی تحریکوں) کو اور زیادہ شدید کردیتے ہیں۔

کامریڈ اسٹالن مزید حق خودارادیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تعمیراتی ترقی بغیر کسی دوسرے قوم کے دباؤ سے آزادنہ طور پر کرے۔ اور اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی تعمیراتی ترقی کیلئے کسی دوسرے قوم کا استحصال نہ کرے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ قومیں آزادنہ طور پر دستورِ حکومت کیسے چلائیں؟ ایک بہتر حکومتی ڈھانچہ تشکیل دینے کے لیے ضروری چیز یہ ہے کہ قوم کے نچھلے طبقے کے مفادات کے مطابق اس حکومت کی بنیاد رکھی جائے۔ نہ کہ قومی بورژوازی اپنے مرضی و منشا کے مطابق اس حکومت کی داغ بیل ڈالے۔

اس کی مثال کامریڈ اسٹالن کچھ یوں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حق علیدگی کے سوال کو لے لیجئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر قوم کو علیحدگی کا حق حاصل ہے اور وہ اپنی منشاء و مرضی سے کسی وفات سے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے۔ مگر یہ بات بھی ذہین نشین ہونی چاہئے کہ کیا یہ علیحدگی کا سوال اس قوم کی مجموعی تعداد یعنی محنت کش طبقے کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ کامریڈ اسٹالن یہاں ماورائے کاکیشا کے تاتار قوم کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر تاتار قوم کے لوگ اپنے مجلس قانون میں طبقے امراء، بیگوں اور ملاہوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں سوویت وفاق سے علیحدگی اختیار کرنا ہے تو ظاہر ہے یہ فیصلہ انہیں انقلاب سے پہلے کے حالات میں دھکیل دیگا اور تاتار قوم پہلے کی طرح تندگی و تنزلی کا شکار ہوجائیں گے۔

ایسے حالات میں سوشلسٹوں پر زور ڈالتے ہوئے کامریڈ اسٹالن کہتے ہیں کہ سوشلسٹ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے بجائے ان حالات کا ڈھٹ کے مقابلہ کریں۔ بھلے حق علیحدگی کا سوال قوموں کا بنیادی حق ہے۔ مگر اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جائے کیا حق علیحدگی کے سوال سے قوموں کے محنت کش طبقے کو فائدہ حاصل ہوگا یا نہیں۔ سوشلسٹ افکار رکھنے والے نظریاتی لوگوں کو محنت کش طبقے کی نجات کیلئے موثر ترین اقدامات اٹھانے ہونگے انہیں طبقہ امراء، بیگوں و ملاحوں کی تنگ نظری سے محفوظ رکھتے ہوئے میدان عمل میں آگے بڑھانا چاہیے اور قوموں کے محنت کش طبقے کے لیے بہترین ایکشن پلان تیار کرنے ہونگے۔ تاکہ ان سے تاتار قوم کے محنت کشوں کو فائدہ حاصل ہوجائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.