نرودنکوں کے مقابلے میں مارکسزم و لیننزم کی فتح۔

تحریر : سجاد بلوچ

دنیا بھر کے مزدوروں اور کسانوں کو ایکتا ئیت کی جانب بڑھانے والے، اُنہیں طبقاتی سیاسی شعور کی رو سے بیدار کرنے کی کشتیاں عطاء کرنے والے اور اُنہیں سامراج و سامراجی طاقتوں کو ختم کرنے کی ترغیب دینے والے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ کو پڑھنا اور اس کے تجربات سے اسباق حاصل کرنا اس موجودہ عہد کے ہر انقلابی کارکن کے لیے انتہائی لازمی ہے اور اس بہتر کاوش کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم سویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی ابتداء، اُس وقت کے معروضی حالات، ان حالات میں پارٹی کی راہ میں نظریاتی و غیر نظریاتی رکاوٹیں، پارٹی کی نشونما، پارٹی قیادت کی سیاسی پختگی، قیادت کی جانب سے تنظیمی کارکردگیوں میں غلطیاں اور پارٹی پھوٹ ڈالنے والے تمام تر اندرونی اور بیرونی سازشی عناصر کی منگھڑت تھیوریز اور ان عناصر کی جانب سے تیار کردہ تھیوریز کو پریکٹیکلی استعمال میں لا کر روسی سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی کے اندرونی ونگ منشویکوں اور دوسرے جاسوسوں، نرودنوں، سرمایہ داروں، لینن ازم کے مخالفوں اور نراجیوں کی تمام تر ناکام کوششوں کو سمجھنا اور اس موجودہ بحرانی دور کے تمام سوشلزم کی فتح کی جانب بڑھنے والے انقلابی تنظیموں اور پارٹیوں میں ان غلطیوں کی درستگی کرنا اور ان تنظیموں میں چھپے قوم فروشوں اور موقع پرستوں کی نشاندھی کرنا اور ان عناصر کی شر سے پارٹی کو محفوظ رکھنا ہر انقلابی کارکن کے لیے ضروری و لازمی ہے۔

روسی سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی کوئی مافوق الفطرت ھستی اور دیوتاؤں کی جانب سے تیار کردہ کوئی تصوراتی شئے نہیں تھا اور ناہی اُس وقت کے دانشمند طبقے کی عام خیالات و احساسات نے اس پارٹی کی تشکیلِ نو کی۔ اصل میں اُس عہد کے ناخوشگوار حالات و واقعات کی وجہ سے اور روسی سرزمین کی مجموعی سماجی نظام نے ہی اس پارٹی کی تشکیلِ نو میں مدد دی۔ مادی حالات ہی ہیں جو انسانی شعور کا تعین کرتے ہیں اور پِھر شعور مادی ترقی و تبدیلی میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ عین اسی طرح اُس وقت کا روس بھی زاریت کی تباہکاریوں میں جوک در جوک بے مثال تاریخی مشکلات سے دو چار تھا اور عام عوام خصوصاً مزدور طبقہ بے انتہا ذلت آمیز ذندگی جی رہا تھا۔ اس تکلف زدہ اور پرفریب دور نے روسی دانشمند طبقے کی خیالات و جذبات کو سراہا اور اس تمام تر سماجی نظام کی تبدیلی کے عمل کو ممکن بنانے میں ان کیلئے راہیں ہموار کیے۔

روسی سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی کی بنیاد 1880 کے چھوٹے چھوٹے مارکسی حلقوں کی جانب سے رکھی گئی تھی۔ یہ ان مارکسی حلقوں کے گروپ سے بنا تھا جو زاریت کے خلاف تحریکوں میں سرگرم حصہ لیتے تھے۔ پھر بعد میں یہ تمام بکھرے ہوئے مارکسی حلقے سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی کی شکل میں مشترکہ نام اور نظریئے کی بناء پر یکجاء ہوکر ایک ہی شکل میں نمودار ہوگئے۔ مگر یہ ہہت سے پرپیچ اور دشوار ذدہ حالات سے نمٹنے کے بعد ہی مستقل وجود میں آیا۔ سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی جو مارکسی و لیننی اصولوں پر مبنی مزدوروں کا ایک واحد پارٹی تھا جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نرودنک تھے۔ اور اس تحریر میں ہم آئندہ بحث مارکسزم کے دفاع میں اور نرودنکوں کے خلاف مارکسی خیالات و نظریات کے حامل لوگوں اور ان کے حلقے کی جدوجہد کے حوالے سے بحث کریں گے۔

نرودنک جو خود کو انقلابی اور زاریت مخالف کہتے تھے مگر مارکسزم سے انہیں شدید قسم کی نفرت تھی اور وہ کسی بھی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ انقلاب کا ہر اول دستہ مزدور طبقہ بے۔ وہ مزدوروں سے زیادہ کسانوں اور باقی دیگر سرمایہ دار طبقے کے پڑھے لکھے دانشوروں اور لکھاریوں کو زیادہ ترجیح دیتے تھے، اور وہ اُنہی کو زاریت اور زمینداری کا تختہ الٹنے کے قابل سمجھتے تھے۔ صرف یہ نہیں بلکہ وہ اس عمل کو پایہ تکمیل کرنے کی خاطر انفرادی دہشت انگیزی کی وکالت بھی کرنے لگے۔ 1876 میں سینٹ پیٹرز برگ میں نرودنکوں کا پہلا انقلابی تنظیم زیملیا ای وولیا (زمین اور آزادی) کے نام سے قائم ہوئی پہلے پہل اسے شمالی انقلابی نرودنک گروپ کے نام سے جانا جاتا تھا مگر بعد میں یعنی 1878 میں اس نے زیملیا ای وولیا کا نام اپنایا۔

اس تنظیم میں 70 کے دہائی کے عظیم انقلابی رہنما پلیخانوف، Kvyatkovsky، Mark and Olga Natanson وغیرہ شامل تھے۔ پھر آگے چل کر 1879 میں زیملیا ای وولیا Voronezh کانگرس میں اندرونی نظریاتی تضادات کی بناء پر دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ ایک حصے نے پلیخانوف کی سربراہی چیورنی پیریدیل نامی تنظیم تشکیل دی۔ پلیخانوف، ایکسیلروڈ، زاسولچ، دائچ اور اگناتوفنے نے آگے چل کر مارکسزم کو ہی انقلاب کا راستہ قرار دے کر مارکسی نظریات کے ساتھ خود جوڑ دیا۔ جبکہ انفرادی دہشت انگیزی کی وکالت کرنے والے گروہ نے “نارودنایاوالیا”(عزمِ عوام) کے نام سے ایک علیحدہ مسلح تنظیم تشکیل دی اور زاریت اور زمینداری کے خاتمے کے لیے انہوں مسلح جدوجہد کو ہی واحد ممکنہ حد تک کامیاب حل سمجھا۔ لینن کا بڑا بھائی بھی اسی دھڑے (نارودنایاوالیا) میں شامل تھا اور یکم مارچ 1881 میں زار الیگزینڈر دوئم کو بم سے ہلاک کرنے کی پاداش میں حکومتی اداروں نے لینن کے بھائی کو گرفتار کر کے جیل میں بند کردیا اور پھر اسے پھانسی دے کر قتل کر دیا گیا۔

لینن اس وقت اپنے ابتدائی تعلیمی مراحل سے گزر رہے تھے کہ انہیں پتہ چلا کہ انکا بڑا بھائی روسی دہشت انگیز تنظیم نارودنایاوالیا کے سرگرم رکن تھے اور روسی سرکار نے انہیں زار الیگزینڈر دوئم کو بم سے ہلاک کرنے کی پاداش میں گرفتار کر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا۔ تبھی لینن من ہی من بے حد مایوس ہوگیا اور اسی مایوسی کے عالم میں انہوں نے اپنے ہم عصر ساتھیوں اور دیگر انقلابی دوستوں سے کہا کہ نرودنکوں نے زاریت اور زمینداری سے چھٹکارا پانے کیلئے جس راستے کا انتخاب کیا ہے وہ انتہائی خطرناک اور گنجلک اور کانٹوں سے بھرا پڑا ہے جو بھلے ظاہری طور پر آسان اور سادہ دکھتا ہو مگر ہے نہیں۔ اور اس پر کامیابی کہیں بھی ممکن نہیں۔ ہم قطعی طور پر اس راستے پر نہیں چلیں گے اور ناہی ہم کسی اور دہشت انگیز راستے کا انتخاب کریں گے کہ جس سے پرولتاریہ کے انقلابی تحریک کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑے۔ زَرا نرودنکوں کی مارکسزم سے خائفانہ اور عمومیت پسندانہ مزاج تو چیک کریں کہ وہ ریاست جیسی دیوہیکل ڈائنوسار کو انفرادی دہشت ناک کارروائیوں سے شکست دینے کا سوچ رہے تھے بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ یہی تو وہ واحد اور ہر اول آلہ ہے جسے بروئے کار لاتے ہوئے حکمران طبقہ مظلوموں کو کچلتے ہیں تو سوچیں کہ کس حد تک یہ اداراہ با اثر قوت رکھتا ہے اور اسے چند نمایاں ویر و نوجوان کیسے شکست دے سکتے ہیں۔

اُس زمانے کے نرودنکوں کا روس ہمارے کیبرال کا کیپ وردے اور گنی بساؤ نہیں تھا کہ جس کی پشت پر سویت یونین کھڑا ہو اور وہیں سے گنی بساؤ کے گوریلا جنگجوؤں کو طاقت و توانائی حاصل ہورہی ہو اور نہ ہی فیڈل کاسترو کا کیوبا تھا کہ جسے امریکہ جیسے طاقت کو نیست و نابود کرنے کیلئے سوویت یونین نے ہر ممکن مدد کی تھی۔ اور ناہی یہ ویت نام اور چین تھا جنہیں سوویت رہنماؤں نے دشمن کو شکست دینے کے لیے ہر طرح کی کمک و مدد سے گنجان آباد کیا تھا۔ روس میں تو اب ابتدائی سرمایہ داری نظام کی ترقی نے سر اٹھایا تھا اور رہی بات سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی سے بننے والی طاقت یعنی مزدور طبقے کی سیاسی موبلائیزیشن کی تو ان کیلئے ابھی تک کوئی بھی ایسا سیاسی ادارہ ہی تشکیل نہیں دیا گیا تھا کہ جس سے وہ اس دیوہیکل طاقت کو گرانے میں انقلابی فتح حاصل کر سکیں۔ ان حالات میں نرودنکوں کے راستے پر چلنا بلا مقصد موت کو دعوت دینے کی مترادف تھی۔ آگے چل کر نرودنک بھی اس پرفریب راستے سے کنارہ کش ہوگئے اور زار کی حکومت سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انقلاب کی راہ میں نظریات اہم کردار ادا کرتے ہیں لینن کہا کرتے تھے کہ انقلابی نظریے کے بغیر کوئی انقلابی عمل ممکن نہیں۔ مارکسی نظریات سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ جب انقلابیوں کے نظریات سماجی امنگوں سے میل نہیں کھائے تو یہ طہ ہے کہ وہ کسی بھی انقلابی تبدیلی کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ناکامیاب رہیں گے۔

نرودنکوں کا نظریہ روسی سماجی حالات اور انقلابی دستے کی عین ضد تھی اسی وجہ سے نرودنکوں کے نظریے کو یوں ہوا کے جھونکے کی طرح مادی حالات نے تہس نہس کردیا۔ پلیخانوف، زاسولچ اور ایکسلرود وہ مارکسی نظریے کے حامل لوگ تھے جنہوں نے مزدوروں کی نجات کا پہلا مارکسی حلقہ 1883 میں تشکیل دیا تھا اس سے پہلے پلیخانوف کی نرودنکوں کے گروہ میں شامل ہونے کی وجہ سے مسلسل حکومت کی جانب سے بیرونی ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور وہی سے مارکسیت کے علم کو ہضم کرکے روسی تحریک میں انقلابی اصلاحات کیے۔ مارکسزم کے دفاع اور روسی مزدور تحریک میں مارکسی نظریات کے اصولوں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پلیخانوف نے مارکسی نظریات پر مبنی بہت سے کتابیں اور مضامین شائع کیے جن کی مدد سے آئندہ تحریک کو فتح کی جانب بڑھنے میں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

جب روس میں سرمایہ دارانہ ترقی عروج پر پہنچ گیا اور اس کے ساتھ بے شمار فیکٹریاں اور کارخانے بھی وجود میں آنا شروع ہوگئے تب مزدوروں میں بھی اسی قدر طاقت اور توانائی بڑھتی گئی اور وہ اس قدر مظبوط ہوگئے تھے کہ اب باقاعدہ طور پر وہ ایک منظم تحریک چلانے اور قابلِ یقین فتح تک پہنچنے کے اہل ہوگئے تھے۔
مگر غیر سائنسی و غیر انقلابی نظریاتی جدوجہد پر عمل پیرا نرودنکوں کو مزدوروں کی ترقی و بڑھوتری کسی بھی صورت نظر نہیں آئی وہ یہ سمجھنے سے مکمل طور پر غافل تھے کہ مزدور ہی سرمایہ دارانہ سماج کا انقلابی اور طاقتور ترین طبقہ ہے۔ اس کے برعکس وہ کسانوں اور تعلیم یافتہ روشن خیال سرمایہ داروں کو زاریت اور زمینداری کے خلاف انقلاب کا ہر اول دستہ سمجھتے تھے۔

زاریت کے خلاف جب نرودنکوں نے کسانوں کو بغاوت کیلئے آمادہ کرنے کی کوششیں شروع کردی تو سب سے پہلے اس حلقے کے تعلیم یافتہ انقلابی نوجوان بیس بدل کر کسانوں کے پاس چلے گئے اور باقاعدہ طور پر کسانوں کی طرح زندگی بسر کرنے لگے۔ اور ساتھ ہی کسانوں کو اپنی تنظیمی سرگرمیوں سے بھی آگاہ کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ مگر پھر بھی دہی کسان ان نوجوانوں کی اس انقلابی کاوش سے زار اور زمینداروں کی سرکوبی کیلئے تیار نہیں ہوئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کسانوں کی حالتِ زار، پیداواری عمل اور معاشی مستقبل سے نرودنکوں کی نظری و فکری ناآشنائی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ کسان انقلابی عمل کیلئے رہنمایانہ رول ادا کرنے سے قاصر رہے اور نرودنک اپنے اس انقلابی مقصد میں ناکام ہوئے۔ جلد ہی نرودنکوں کی تنظیمی سرگرمیوں اور زار دشمن پالیسیوں کا بھانڈا پھوٹ گیا پولیس اور باقی دیگر حکومتی اداروں نے ان کے خلاف سخت سے سخت ترین کارروائی عمل میں لانا شروع کر دیا جس کی وجہ سے کئی نرودنک پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور کئی نوجوانوں نے بیس بدل کر بیرون ممالک جلا وطنی اختیار کر لی اور باقی ماندہ بچے کچے زیر زمین اپنی تنظیمی سرگرمیوں میں ملوث رہے مگر تحریک کی جانب مجموعی عوامی رجحانات کی کمزروی اور عوام کی جانب سے تحریک میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے آخر کار انہوں نے بغیر عوامی طاقت کے زاریت اور زمینداری کے خاتمے کیلئے جدوجہد کی راہ اپنائی۔

تحریک کو طاقت فراہم کرنے کیلئے “نارودنایاوالیا” کے ممبران نےایک خُفیہ سازش کے تحت 1 مارچ 1881 میں زار الیگزینڈر دوئم کو بم سے ہلاک کردیا مگر اس عمل سے نہ حالات تبدیل ہوگئے اور نا ہی عوامی سطح پر تحریک کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ بلکہ مزید مزدوروں اور کسانوں کی حالت گھمبیرتا کی جانب بڑھنے لگی۔ مزدوروں اور کسانوں پر ظلم و جبر کرنے والے طبقے کے محض چند گنے چنے افراد کو قتل کرنے سے نہ مزدوروں اور کسانوں کی سماجی حالت زار میں تبدیلی آئے گی اور ناہی ظلم و جبر کرنے والے نفسیات کا مکمل طور پر صفایہ ہوسکتا ہے بلکہ مزید ان کی حالت تباہی و بربادی کی جانب بڑھنے لگے گی۔ اور یہاں پر بھی وہی ہوا کہ مقتول زار الیگزینڈر دوئم کے مارے جانے کے بعد حکومت کی بھاگ دوڑ زار الیگزینڈر سوئم کے ہاتھوں منتقل ہوگئی اور اس نومنتخب زار نے روس کے گرے پسے ہوئے طبقے کی حالت زار کو مزید تشویشناک بنا دیا۔ جس کی وجہ سے مزدور اور کسان تباہی و ذلت آمیزی کی زندگی جینے پر مجبور ہو گئے۔

زاریت کا مقابلہ کرنے کیلئے نرودنکوں نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ بظاہر دکھنے میں آسان اور شارٹک سا لگتا تھا مگر اصل میں ہے نہیں یہ ایک گنجلک اور کانٹے دار راستہ تھا جس پر منزل کی جانب پیش قدمی انتہائی مشکل و ناقابلِ یقین تھا۔ نرودنک عام عوام اور عوامی تحریک کی طاقت سے مکمل طور پر بے خبر و نالاں تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ عام عوام کے بر خلاف چند جانباز ویر اور انقلابی نوجوان ہی تاریخ رقم کر دیتے ہیں باقی عام عوام انہی جانباز ویروں و بہاروں کی پیروی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے عوام کے اندر کام کرنا چھوڑ دیا اور عوام کو بھیڑ بھبھڑ بیان کرکے انفرادی دہشت انگیزی کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ انہوں اسٹیپن خلتورین جو انقلابی مزدور سبھا کے ایک ممتاز لیڈر تھے انہیں بھی یونیئنائزیشن ترک کرنے اور انفرادی دہشت انگیزی کے راستے کے انتخاب کی دعوتیں دی تھی۔

نرودنک مزدور تحریک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اس گروہ نے کبھی بھی مزدوروں کو یہ احساس نہ ہونے دیا تھا کہ وہ انقلاب کا داہی اور ہر اول دستہ طبقہ ہے۔ ظلم کرنے والے طبقے کے چند افراد کو قتل کرنا اور باقی ماندہ مجموعی سماجی حکمران طبقے کی سرکوبی سے مزدوروں و کسانوں کی توجہ کو اٹھانا انقلاب و انقلابی تحریک کیلئے زیر نما کام تھا۔ اور نرودنکوں نے عین اسی طرح ہی کیا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی مزدوروں کو یونیئنائزیشن اور جمیعت سازی کا احساس نہیں ہونے دیا وہ اس شعوری منطق کو ماننے پر کسی بھی صورت تیار نہیں تھے کہ عوامی سیاسی جدوجہد ہی تاریخ کے دھارا کو بدلنے کا عزم رکھتا ہے۔

زار کی بربریت نرودنکوں کی انفرادی دہشت انگیز عمل کے خلاف اتنی تیز تر ہوگئی کہ کچھ ہی لمحوں میں حکومت کی جانب سے نرودنکوں کی جماعت کا صفایا کر دیا گیا اور باقی بچے کچے نوجوانوں کو ملک بدر اور گرفتاری کی صحبتیں جھیلنی پڑی۔ مگر پھر بھی معاشرے میں نرودنکوں کے خیالات و نظریات کے آثار موجود تھے اور وہ مارکسی رجحانات کو عام عوام تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ مزدور تحریک کو منظم و مربوط رکھنے کیلئے مارکسزم کا پھیلاؤ انہتائی ضروری کام تھا مگر اس سے بھی بڑھ کر مارکس وادیوں کیلئے اہم کام نرودنکوں کے اس انفرادی دہشت انگیز نظریئے پر قابو پانا تھا۔

پلیخانوف نے مزدوروں اور کسانوں کو یہ باور کرایا کہ نرودنکوں کے خیالات اس سماجی معروضی حالات سے کسی بھی صورت میل نہیں کھاتے بھلے وہ خود کو اشتراکیت کے پیروکار سمجھتے ہوں اور اشتراکی خیالات و جذبات رکھتے ہوں مگر ان کے نظریات سائنسی اصولوں پر استوار نہیں ہیں اور وہ کسی بھی صورت سماج کو اس بحران زدہ عہد سے آزاد کرانے میں کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ پلیخانوف ہی وہ واحد مارکسی نظریہ دان تھے جنہوں نے مزدوروں کی نجات کا پہلا مارکسی حلقہ تشکیل دیا تھا اور اس حلقے کی مدد سے آگے چل کر انہوں نے نرودنکوں کے تصوراتی خیالات کا سختی سے مقابلہ کرنا شروع کردیا۔

نرودنکوں کے نظریات میں بہت سے بنیادی غلطیاں پائے جاتے تھے جنہیں پلیخانوف نے ہوں ظاہر کرا کے انہیں شعوری طور پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ نرودنک سماجی و معاشی ارتقائی عمل سے مکمل طور پر ناواقف ہیں وہ بجائے اس منطق کو سمجھنے کے کہ سماجی ترقی طبقاتی کشمکش اور سماجی طبقوں کے درمیان تضادات، جنگ و جدل کی تاریخ ہے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ اس خیال پرستانہ نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ چند نمایاں افراد ہی تاریخ رقم کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ عام عوام کو تحریکوں میں سرگرم حصہ لینے اور مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ وہ سرمایہ داریت کو روس میں اتفاقی یا حادثاتی کرار دیتے تھے اور یہ بھی خیال کرتے تھے کہ سرمایہ داری کی ترقی و ترویج کے کوئی امکانات نہیں ہیں اور مزدر طبقہ بھی کبھی نشونما نہیں پاسکتا۔ اسی وجہ سے انہوں نے انقلاب کا ہر اول دستہ مزدر طبقے کے بجائے کسانوں کو کرار دیا تھا۔ اور کسانوں کو پڑھے لکھے سرمایہ دار طبقے کی قیادت میں اشتراکیت کے قیام کیلئے ایک انقلابی طاقت سمجھتے تھے.

نرودنکوں کے نظریات سے مقابلہ کرنے کیلئے پلیخانوف نے بہت سے مارکسی کتابیں اور مضامین لکھیں جن کی مدد سے مارکسیت کو تحریک میں پھلنے پھولنے کا بہترین موقع ملا۔ جس سے بہت سے نوجوان مارکسی تعلیم سے فیضیاب ہو کر مزدوروں کی انقلابی تحریک میں رہنمایانہ رول ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ لینن نے پلیخانوف کے لکھے گئے مضامین کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان مضامین کو پڑھنے سے روس کی بڑی پشت کو مارکسی تعلیمات سے فائدہ پہنچا ہے۔ پلیخانوف نے نرودنکوں کے نظریات کے خلاف جو کتابیں لکھی تھی ان میں اس نے یہ بھی ظاہر کرانے کی کوشش کی تھی کہ یہ سوال کتنا مہمل و بہودہ ہے کہ روس میں سرمایہ داری کو بڑھنا چاہیے یا نہیں؟ انقلابی نوجوانوں کو بجائے روسی سرمایہ داری کی راہ میں رکاوٹ بننے کے بلکہ اس سرمایہ داری ترقی سے پیدا ہونے والے انقلابی طاقت یعنی مزدور طبقے کی مدد کرے ان میں طبقاتی سیاسی شعور کے احساسات جھگائے اس کی تنظیم سازی پر توجہ دیں اور باقاعدہ ان کیلئے ہر اول دستے کا انتخاب کرے یعنی انقلابی پارٹی تشکیل دیں۔

نرودنکوں کی جانب سے مزدور طبقے کو انقلاب سے بے بہرہ رکھنا اور کسانوں کو ہی انقلاب کا سر چشمہ کرار دینے کی غلطی کا انسداد کرتے ہوئے پلیخانوف نے مارکسی فلسفیانہ اصولوں کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ مارکسزم کے مطابق سرمایہ دارانہ سماجی انقلاب کا ہر اول انقلابی دستہ مزدور طبقہ ہے بھلے روس میں مزدروں سے زیادہ کسان بڑی لمبی تعداد میں ہیں مگر پھر بھی انقلاب کا ہیرو مزدور طبقہ ہی ہے۔ اس کے کچھ وجوہات بھی پلیخانوف نے پیش کیے اور وہ یہ تھے کہ مزدوروں کی تعداد روس میں اگر چہ کم ہے مگر اس تیز رفتار سرمایہ داری نظام کی ترقی کی وجہ سے ان مزدوروں کی تعداد میں بھی بڑھوتری واقع ہوگی۔ بڑے کارخانوں اور ملوں میں بڑے پیمانے پر مزدروں کی کیفیت کی وجہ سے ان کی تنظیم سازی بھی منظم اور بہتر انداز میں ہوگی۔ اور سماج کے انتہائی پچھڑے ہوئے طبقے کی حیثیت سے ان کے پاس غلامی کے زنجیروں کے سوا اور کیا ہے کونے کو جس کی وجہ سے وہ انقلاب جیسے سماجی تبدیلی سے کنارہ کش ہوکر زاتی ذندگی کے مصروفیات یا خوشیوں میں مبتلا ہو کر رہ جائیں گے۔

مگر اس کے برعکس کسانوں کے طبقاتی مفادات اور ان کے حالات انہیں مکمل طور پر انقلابی تبدیلی کے عمل کیلئے اچھی طرح سے تیار نہیں ہونے دیتے۔ اول تو یہ کہ کسان بھلے اپنی کثرت تعداد کی وجہ سے روس میں مزدوروں سے زیادہ تھے مگر اس طبقے کا کوئی معاشی مستقبل نہیں تھا کیونکہ ان کا پیداواری عمل کافی سست و کمتر تھا بنسبت مزدوروں کے۔ اسی کم مقدار معاشی پیدائش کی وجہ سے ان کی بڑھنے کی شرح کم تھی اور ان کو منظم کرنا، ان کی تنظیم سازی کافی مشکل کام ہے۔ اگر چہ کسان معاشی ترقی کے مدارج پر پہنچ بھی جاتے تو ان میں سے کچھ “کولک” کی شکل اختیار کرتے( کولک: چھوٹی چھوٹی زمینوں کے مالک جو بمشکل انقلابی تحریک میں شرکت کرنے پر آمادہ ہوتے) اور باقی ماندہ کسان مُفلسی اور غربت کی وجہ سے نیم پرولتاریہ شکل اختیار کرتے تھے۔ کسانوں کا معاشی مستقبل ان کو مضبوطی و یکجہتی کے بجائے منتشر اور دھڑوں میں تقسیم کرتاہے اسی وجہ سے وہ بغیر مزدور طبقے کے اتحاد اور انہی کے رہنمائی میں کوئی انقلابی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے قابل نہیں ہیں۔

نرودنکوں کی تیسری اور سب سے بڑی غلطی پر شعوری تنقید کرتے ہوئے پلیخانوف نے کہا کہ سماجی ارتقاء کے جس فلسفے کو نرودنک پیش کر رہے ہیں کہ سماجی ارتقائی تاریخ چند بہادر ویر اور جانباز قائم کرتے ہیں یہ فلسفہ دراصل عینیت پسندی کہلاتاہے سماجی ارتقائی عمل کو سمجھنے کے لیے عینیت پسندی کے بجائے مارکسی جدلی و تاریخی مادیت ہی درست اور واضح فلسفہ ہے جو بجائے ویروں اور بہادروں کو تاریخ کے قائم مقام سمجھنے کے بلکہ اُن سماجی مادی حالات، سماجی ضروریات اور ان دو متضاد طبقوں کی جانب سے جو دولت کی پیدائش اور تقسیم پر قدرت حاصل کرنے کے لیے جاری کشمکش و تضادات کو ہی سماجی ارتقاء کا دارومدار سمجھتی ہے۔ مزید وہ کہتے تھے کہ خیالات انسانوں کی سماجی حالات کا تعین نہیں کرتے بلکہ سماجی حالات ہی انسانوں کی شعور کا تعین کرتا ہے۔ اگر نمایاں ویروں و شہنشاہوں کے خیالات سماجی مادی ضروریات کے عین متضاد اور مخالف ہوں تو وہ ویر و شہنشاہ بھی تاریخ کے پنوں سے غائب ہو جائینگے۔ اسی طرح اگر ان نمایاں افراد کے خیالات و نظریات مجموعی سماجی مادی حالات و ضروریات کے مطابق ہوئے تو وہ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر آئینگے۔

پلیخانوف نے نرودنکوں کے اس خیال کو بھی شعوری سطح کی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ یکسر غلط ہے کہ سماج میں عام عوام کی حیثیت بھیڑ بھبھڑ جیسی ہے اور محض چند نمایاں ویر و شہنشاہ ہی تاریخ رقم کرتے ہیں ہیں۔ اس حوالے سے پلیخانوف نے یہ رائے قائم کی کہ قوم ہی چند نمایاں افراد کو تاریخ میں ممتاز بناتی ہے۔ اور قوم ہی ان نمایاں افراد کو تاریخ کے پنوں میں سیاہی کے طور پر یاد رکھے گی کہ جن کے خیالات و نظریات مجموعی قومی و سماجی امنگوں سے میں نہیں رکھتے تھے۔ جن میں نرودنک بھی شامل ہیں۔ نرودنکوں کے خلاف پلیخانوف کے لکھے گئے کتابوں نے اگر چہ روس میں نرودنکوں کی نظری اثر و قوت کو زائل کر دیا تھا۔ مگر پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں ان کی کمیونسٹ دشمن نظریات سوسائٹی میں سرائیت کر رہے تھے۔ جنہیں بعد میں “ولادیمیر لینن” کی انتھک کوششوں اور قربانیوں نے مکمل طور پر ختم کر دیا اور مزدروں کی تحریک کو مارکسی اصولوں پر بہتر طریقے سے استوار کرکے آگے کی اؤر بڑھایا۔

نرودنکوں کی شدت پسند سوسائٹی “نارودنایاوالیا” زار کی حکومت سے شکست کھانے کے بعد اس کے تمام تر ممبران نے انقلابی سرگرمیوں سے دستبرداری کا اعلان کردیا اور حکومت سے سمجھوتہ کرنے کی جانب بڑھنے لگے۔ اور آئندہ وہ “کولکوں” کے مفادات کی نمائندگی کرنے لگے۔ 1884 اور 1887 کے عشرے میں پلیخانوف اور مزدوروں کی نجات کے حلقے کی جانب سے مزدوروں کی پارٹی کی تشکیلِ نو کیلئے پروگرام کے دو مسودے تیار کیے گئے تھے۔ مگر ان مسودوں میں بھی کچھ غلطیاں موجود تھے جن کی بعد میں لینن کی جدوجہد اور قربانیوں سے درستگی ہوئی۔ ان میں سے پہلا غلطی یہ تھا کہ ان دو مسودوں میں نرودنکوں کی انفرادی دہشت انگیزی کی کھل کر مخالفت نہیں کی گئی تھی اور دوسرا غلطی جو پلیخانوف کی آئندہ منشویک بننے کی جراثیموں کی بھی نشاہدہی کر رہا تھا وہ یہ کہ آخر کار پلیخانوف نے بھی یہ خیال ترک کر دی کہ مزدور ہی انقلاب کے دوران کسانوں اور باقی دیگر سماج کے گرے پسے ہوئے طبقات و قوموں کی رہنمائی کر سکتے ہیں اور یہی طبقہ ہر اول انقلابی دستہ کہلائے گا۔ مگر اس بجائے پلیخانوف نے روشن خیال سرمایہ داروں اور کسانوں کو انقلابی فتح کا زامن کرار دیا تھا اور ایک جگے پر وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ سرمایہ داروں اور کسانوں کے علاؤہ مجھے اپنے ملک میں کوئی ایسے سماجی عناصر نظر نہیں آتے جن سے انقلابی تحریک کو مدد مل سکے۔ مارکسزم میں ترمیم پسندی کی وجہ سے آئندہ ورشوں میں پلیخانوف ہمیں مارکسی و لیننی اصولوں کے خلاف چلنے والے منشویکوں کے گروہ میں نظر آنے لگتے ہیں۔

1884 سے 1894 تک روسی سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی مختلف اور چھوٹے چھوٹے مارکسی حلقوں میں بھٹا ہوا تھا مزدروں کی تحریک سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی مزدوروں کی رہنمائی کیلئے ان میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی تھی۔ مزدوروں کی نجات کے حلقے کی جانب سے بھی مزدروں کی تحریکوں کو خاص توانائیاں حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ابتدائی دور کے روسی سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی کے بکھرے ہوئے مارکسی حلقوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لینن نے کہا کہ روسی ڈیموکریٹک مزدور پارٹی اس بچے کی طرح ہے جو ماں کی پیٹھ میں ابھی پھل بڑھ رہا ہے جو ابھی تک اپنی اصل یعنی عملی زندگی میں داخل نہیں ہوا ہے۔ لینن نے یہ بھی کہا کہ مزدروں کی نجات کے حلقے نے مارکسی سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی کی نظری بنیاد رکھی ہے۔ اور انقلاب کی طرف اس کا پہلا قدم ہے۔ مزدوروں کی نجات کے حلقے میں پائے جانے والے غلطیوں کی درستگی اور آئندہ سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی تشکیل نو ولادیمیر لینن کی انقلابی جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی ہی بدولت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.