اوتھل یونیورسٹی کے طالب علم ظہور بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف طلبا تنظیموں کے ساتھ مل کر کلاسز کا ایک روزہ کامیاب بائیکاٹ کیا گیا

ترجمان: اوتھل زون

بلوچستان میں دہائیوں سے طلباء کو ہراسانی و جبری گمشدگیوں جیسے معاملات کا سامنا ہے، تعلیمی اداروں میں سیاسی و ثقافتی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں سے لے کر گھروں تک میں بلوچ طلبا کو ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

آج اکثر و بیشتر بلوچ طلباء میں ایک تشویش پائی جاتی ہے، انہیں وجوہات کی بنا پر اکثر طلباء تعلیمی اداروں، پریس کلبز اور چوراہوں پر اپنی حفاظت اور لاپتہ ساتھیوں کی رہائی کے لیے احتجاج کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔

حال ہی میں لسبیلہ یونیورسٹی کے طالب علم ظہور رشید بلوچ کو حب چوکی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جس کی وجہ سے لسبیلہ یونیورسٹی کے طلباء کے بیچ تشویش کی لہر دوڑ گئی، ادارے کے اندر فعال طلباء تنظیموں کی جانب سے اِس ماورائے قانون عمل کی بھر پور مذمت کی گئی، اور جامع کی کلاسز کا ایک روزہ احتجاجاً بائیکاٹ کا مشترکہ فیصلہ لیا گیا۔ تمام  طلباء و طالبات کی جانب سے ظہور رشید بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف اور انہیں فوری رہا کرنے پر ایک احتجاجی مظاہرہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔

لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف اوتھل یونیورسٹی میں طلباء تنظیموں کی جانب سے ایسے متشدد معاملات کے خلاف متحدہ حکمتِ عملی طے کی جاتی ہے، تاکہ اِن ظالم و جابر قوتوں کو مزید طلباء کے بیچ خوف اور گھٹن کا ماحول پیدا کرنے سے یک مُشت ہو کر روکا جاسکے، تو دوسری طرف بی این پی مینگل کی طلبہ ونگ ان حالات میں ریاستی بیانیے کو تقویت دیتے ہوئے ان احتجاجی مظاہروں کے خلاف بیان جاری کرتی ہے۔

بی این پی (مینگل) کا طلبہ ونگ نہ ہی مشاورتی عمل میں شریک رہا اور نہ ہی طلبا کی بازیابی کے حوالے سے کوئی سنجیدہ رویہ دکھایا، اس کے باوجود وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور غیر سنجیدہ بیان جاری کرکے نالاں دیکھائی دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور طلبا میں بدگمانی پھیلانے کی سَستی حرکتوں میں ملوث ہیں۔ حالانکہ ظہور رشید بلوچ کے لیے احتجاجی مظاہرے کے لیے مختلف طلباء تنظیموں کے بیچ ایک دن پہلے اہم گفت و شنید ہوئی تھی اور پھر دوسرے روز ایک منظم اور کامیاب احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک کیڈر ساز ادارے کی حثیت سے بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کی طرح اتھل یونیورسٹی میں بھی اپنے معاملات پر ایک انتہائی منظم و مربوط طریقے سے طلباء کے بیچ کام کر رہی ہے۔ بی ایس او نظریاتی بنیادوں پر اپنے کام کو آگے بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہے اور ہماری نظریاتی جدوجہد میں بلوچ قوم مقدم ہے۔ انقلابی عمل میں ان غنڈہ گرد اور لمپن کرداروں کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو ان غیر اخلاقی و غیر سیاسی حرکات سے بچانا چاہتے ہیں جو قطعی ممکن نہیں۔

ترجمان نے اپنے بیان میں مذید کہا کہ طلبا کی جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافہ ناقابل قبول ہے۔ ایسے واقعات سے حالات مذید انتشار کی جانب بڑھے گے۔ حکومت اپنے رویے میں سنجیدگی لاتے ہوئے فل فور ظہور بلوچ کی بازیابی ممکن بنائے اور ماورائے آئین اقدامات کا سدباب کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.