بلوچستان کا صنعتی شہر حب

تحریر: لالا ماجد 

بلوچستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر حب جہاں کم از کم 450 صنعتیں قائم ہیں. یہ ایک الگ بات ہے کہ زیادہ تر صنعتیں یہاں سے شفٹ کر کے پنجاب اور سندھ منتقل کیے جا چکے ہیں مگر آج بھی یہ صنعتی شہر کہلاتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ جہاں دوسرے صوبوں سے بھی لوگ یہاں کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔


یہ صنعتی شہر نوے کی دہائی میں ایک جنگل کا منظر پیش کرتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کی آبادی اور صنعتوں میں اضافہ ہوا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعت کاری نے حب شہر کو مختلف مسائل میں دھکیل دیا۔ جن میں حکومتوں کی نااہلی اور یہاں رہنے والے شہریوں کی جہالت دیکھنے کو ملتی ہے۔
کراچی سے کچھ ہی کلو میٹر پر واقع حب شہر کو اب تک کچھ خوبصورت منظر پیش کرنے تھے۔ مگر جب بھی یہاں کوئی حکومت آئی ہے تو وہ حکومت برائے نام ہی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے صنعتی شہر آج مختلف مسئلوں کی لپیٹ میں ہے۔


یاد رہے کہ حب شہر دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حب سٹی جبکہ دوسرا انڈسٹریل ایریا کے نام سے مشہور ہے۔ حب سٹی جہاں بہت بڑی آبادی رہائش پذیر ہے. جن میں سندھ اور بلوچستان کے دور دراز کے لوگ بھی شامل ہیں۔ حالات اور غربت کی وجہ سے یہ لوگ حب شہر کا رخ کر کہ آ بسے ہیں۔ مگر یہاں کے ماحول کو خراب کرنے میں ان کا بہت بڑا کردار بھی ہے۔ جس کا انجام حب شہر کافی سالوں سے دیکھ رہا ہے۔
چوری کے وارداتیں ہوں، لڑائی جھگڑے ہوں، اور دوسرے برائیاں سب کے پیچھے یہی لوگ پائے جاتے ہیں۔ مگر لاٹھی ہمیشہ غریب پر ہی زور ہوتی ہے اس لیے یہ کام رکنے کا نام نہیں لیتے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح دوسرے شہروں میں ہفتہ بازار، جمعہ بازار، اور اتوار بازار لگتے ہیں۔ اسی طرح حب شہر میں بھی یہ بازار لگتے ہیں۔ مگر یہاں خریدار سے زیادہ عاشقوں کا رش لگا ہوتا ہے۔ جو کریم لگا کر، بوٹ سوٹ پہن کر عورتوں اور لڑکیوں کو چھیڑنے اور ان پر غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جو شاید کسی بھی قوم کے لئے ایک اچھا عمل نہیں مانا جاتا۔
مگر ایک بات ضرور ہے۔ اگر یہ اس طرح کے عمل میں لگے ہوئے ہونگے تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہوگا۔ کیونکہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔


حب انڈسٹریل ایریا کی بات کریں تو آپ لوگوں کو لگے گا کہ اس جگہ کی تعریف کچھ اچھا ہی ہوگا۔ مگر ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ یہاں ایک بہت بڑا ادارہ جو کہ لیڈا کے نام سے مشہور ہے۔ جس کی ذمہ داری اس ایریا کی سڑکوں کی مرمت، یہاں کے پانی کے مسئلے کا حل، اسٹریٹ لائٹس لگانا اور وہ سارے کام جس سے لگے کہ انڈسٹریل ایریا واقعی میں ایک انڈسٹریل ایریا ہے۔ مگر اس ادارے کو اس کے افسران نے اس قدر کھوکھلا کر دیا ہے کہ اس کے اپنے مزدور ہر روز اپنی تنخواہ کے لیے احتجاج میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور اس ادارے کے اعلی افسران بڑے سیٹوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے انڈسٹریل ایریا بھی ایک گاؤں کا منظر بیان کرتا ہے۔


کسی بھی انڈسٹریز کے چلنے میں پانی کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ پورے حب شہر اور صنعتی ایریا کو نہری نظام کےذریعہ حب ڈیم سے پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ نہر کا پانی لیڈا کے تالابوں میں اسٹاک کیا جاتا ہے اور لیڈا اس پانی کو موٹر سے پمپنگ کے ذریعے کمپنیوں میں پہنچاتی ہے۔ حب شہر میں پانی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ٹینکرز کے زریعے شہری پانی لینے پر مجبور ہیں۔ اب یہ پانی کس حالت میں شہریوں تک پہنچ رہی ہے۔ وہ پانی پینے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔
نہر سے جو پانی آتا ہے جس میں بے حد گندگی پائی جاتی ہے۔ جس میں جانور بھی پانی پینے کے لئے آتے ہیں۔ اور نہر کے آس پاس کے لوگ وہاں اپنے کپڑے دھونے کا کام بھی کرتے ہیں۔ تو یہ پانی کس قدر صاف شفاف ہے اس کا اندازہ ہر کوئی خود ہی لگا سکتا ہے۔ جب نہر میں پانی کی قلت بڑھ جاتی ہے۔ ٹینکرز مافیا وہ پانی شہریوں تک پہنچاتے ہیں۔ جو کھڈوں میں جمع ہوتے ہیں۔ جن میں مرے ہوئے جانور کے ساتھ ساتھ اور بھی گندگی پائی جاتی ہے۔ مگر یہاں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس لیے یہ کام روز کا معمول بن چکا ہے۔ اور حالات کے مناسبت سے دیکھا جائے۔ تو آنے والوں وقتوں میں نہ نہری نظام ہوگا اور نہ ہی صنعتی شہر میں پانی۔ کیونکہ یہ وہ واحد زریعہ ہے جس سے پورا حب پانی حاصل کرتا ہے۔
یہ پانی استعمال کرنے کے بعد یقینا مختلف بیماری جنم لیتے ہوگے۔ تو شہری یہاں کے سیول اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ جو جام غلام قادر کے نام سے مشہور ہے۔ جہاں ڈاکٹر صرف اتنا ہی کہتے ہیں کہ سانس لو، اور زیادہ سانس لو، اور اسے کراچی لے جاؤ، یہاں علاج ممکن نہیں۔


بنیادی سہولیات سے محروم حب شہر جو مختلف مسائل کی لپیٹ میں ہے۔ جس کا حل صرف اتنا ہی ہے کہ جو ادارے اس کے ذمہ دار ہیں وہ کرپشن کے ساتھ ساتھ اگر تھوڑا بھی ان مسئلوں کو دیکھیں تو شاید کچھ بہتری آسکتی ہے۔ اور یہاں رہنے والے ہر اس شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے خود ہی آواز اٹھائیں اور اس کے لئے تعلیم اور شعور کا ہونا بہت ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.