باہمت کامریڈ ماہرنگ: تمہاری لڑاٸی ایک نظام سے ہے

تحریر:فرید مینگل

بلوچستان میں تو عورت پیدا ہوتے ہی رسیوں میں جکڑی جاتی ہے تاکہ وہ مستقبل میں اڑنے سے خاٸف رہے۔ وہ رسیاں عزت، غیرت، ننگ و ناموس، دقیانوسی قباٸلی روایات کی صورت میں ہمیشہ عورت پر زنجیر بن کر اسے باندھے رکھتی ہیں اور بلوچ عورت انہی زنجیروں کے ساتھ اپنی آخری سانسیں گن کر قبر میں اتار دی جاتی ہے۔

اگر کوٸی بہادر عورت غلطی سے بھی ان رسم و رواج، قباٸلی روایات اور نام و نہاد ننگ و ناموسی زنجیروں کو توڑ کر آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو پھر اس پر بے حیا، بے شرم اور بے غیرتی کے الزامات لگا کر اسے کاروکاری کے الزام میں سر عام قتل کردیا جاتا ہے۔ حتٰی کہ شرم کا مقام تو یہ ہے کہ ایسے سفاک مرد اور عورت کے قاتل انسان کو قباٸلی معاشرے میں بہادر اور غیرتمند کہہ کر اس کی حوصلہ افزاٸی کی جاتی ہے، بہادر سمجھا جاتا ہے۔ اور اس گورکھ دھندے میں ایک پورا سسٹم ملوث ہوتا ہے جسے ہم قباٸلی نظام کے نام سے جانتے ہیں اور اس قباٸلی نظام کا کرتا دھرتا سردار ہوتا ہے۔ سردار کے لیے مزے کی بات یہ ہے کہ آج تک ان میں سے کسی کا بھی خاندان کاروکاری کے جبر کا شکار نہ ہوا۔۔۔۔؟ لیکن یہ ہر اس مرد کو اپنے باقدہ جرگہ کے ذریعے بے غیرت قرار دے کر سماج میں رسوا کرتے ہیں جو سوال اٹھانے والی اپنی عورت کو قتل نہ کر سکے۔ اسے طعنے دیے جاتے ہیں اس کے لیے جینا مشکل کر دیا جاتا، اسے عورت کو قتل کرنے پر مجبور کر دیا جاتا۔ اس کو زنجیروں میں جکڑے رکھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

سردار جب بھی بولتا ہے، بات کرتا ہے تو اس کے پیچھے ایک باقاعدہ طاقتور نظام اور مشینری ہوتی ہے۔ جس کے بل بوتے پر اتنی بے باکی کے ساتھ بولتا اور فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ریاستی مشینری، قباٸلی طاقت یا پھر جاگیردارانہ طاقت ہوسکتا ہے۔ یا پھر اس سردار کے پیچھے یہ تینوں عوام دشمن اور عوام قاتل نظام ہوسکتے ہیں جو اسے اتنی بےباکی اور طاقت بخش رہے ہوتے ہیں۔

کل بلوچستان کے دارالحکومت کوٸٹہ میں ایک ایسے ہی کسی سردار نے اپنی تمام تر مشینری اور قباٸلی پددرشاہی معاشرے کے سوچ کی نماٸندگی کرتے ہوٸے ایک بلوچ طلبہ رہنما ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کو اپنے رسم و رواج اور قباٸلی روایات کے مطابق بے شرم، بے حیا قراد دے کر اس کی توہین کی اس کی تذلیل کی۔ در اصل یہ صرف ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی توہین و تذلیل نہیں تھی بلکہ ہر اس بلوچ عورت کی توہین و تذلیل تھی جو شعوری طور پر اپنے حقوق پر لب کشاٸی کرتی ہے، اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑتی ہے اور ان استحصالیوں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے۔

لیکن تم نے اس تمام تر پدرشاہی نفسیات کو للکارا ہے۔ تم نے اس مضبوط قباٸلی و پدرشاہی نظام میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی ہے اس لیے یہ پورا نظام آپ کے خلاف زہر اگلنے پر تلا ہوا ہے۔ تمہیں اس نظام کا ہر فرد بے غیرت، بے حیا اور بے شرم قرار دے کر اپنے دقیانوسی نظام کی حفاظت کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ میں تمہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب دسمبر 2009 میں ایک سردار و نواب کی ہی حکومت میں آپ کے والد محترم کامریڈ شہید غفار لانگو کو سردار کے پشت پناہ ریاست نے اغوا کیا تھا۔ اور تم اس کی بازیابی کے لیے بڑی بہادری سے نکل پڑی تھیں۔ مذاکرات کے نام پر ان چاپلوسوں نے تمہیں اور تمہاری خالہ جان کو دھوکہ دے کر گھر بھیجا تھا۔ مذاکرات کا ڈھونگ بھی اس لیے رچایا گیا کہ ایک بلوچ بچی کی اپنے گھر سے نکل کر اپنے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنا ان کے پورے قباٸلی و پدرشاہی نظام کو خطرے میں ڈال رہا تھا۔ کیونکہ ان کے رسم و رواج اور قباٸلی آٸین میں عورت کے مقدر میں صرف گھر کی چار دیواری میں درد سہنا لکھا گیا ہے، تشدد لکھا گیا ہے۔

لیکن اس لڑاٸی میں تم اکیلی نہیں ہو۔ اس نظام کا ہر باغی تمہارے ساتھ کھڑا ہے۔ تمہارے ساتھ کلثوم بلوچ کھڑی ہے، سعدیہ بلوچ، عظمٰی قادری بلوچ، سازین بلوچ، ظہیر بلوچ اور پروفیسر عابد میر سمیت سیکڑوں باغی تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔

تمہاری لڑاٸی طویل اور کھٹن ضرور ہے مگر ناممکن بالکل بھی نہیں کہ اسے جیتی نہ جا سکے۔ تمہیں اس پدر شاہی نفسیات کو شکست دینا ہوگا۔ سماج میں موجود ہر یار محمد رند سے لڑنا ہوگا۔ بلوچ عورت کو ان کے مضبوط قباٸلی و پدرشاہی جبر سے آزاد کرنا ہوگا۔ عورت کو کمتر، عزت، غیرت، ننگ و ناموس قرار دینے والی ہر سوچ کو اب بتانا ہوگا کہ عورت نہ تمہاری عزت ہے نہ غیرت ہے نہ ہی ننگ و ناموس بلکہ وہ ایک آزاد انسان ہے جس کا اپنا ایک وجود ہے۔ وہ ماہرنگ ہے، سعدیہ ہے، وہ کلثوم ہے، صبیحہ ہے۔ وہ مشال ہے نوشین ہے، وہ زرگل ہے، ماہین ہے۔ وہ صرف اور صرف ایک آزاد بلوچ عورت ہے۔

سمن دی بووار نے کہا تھا ”مرد عورت کے پر کاٹ کر کہتا ہے کہ عورت اڑ نہیں سکتی۔“ اس تناظر میں اب میں کہتا ہوں کہ عورت کو اپنی آزادی کے لیے اپنے پروں کی طرف بڑھتے ھاتھوں کو بغور دیکھنا پرکھنا اور سمجھنا ہوگا، اس سے پہلے کہ وہ ھاتھ عورت کے پروں تک پہنچ کر تمہیں اڑنے سے محروم کر دیں تم وہ ہاتھ پہلے ہی کاٹ ڈالو۔ تب جاکر ہماری مشترکہ طویل ترین لڑاٸی آسان ہوگی، ہم یکجا ہونگے ہم فتحیاب ہونگے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.