قوم اور قومیت

تحریر: واھگ بلوچ

قوم سے کیا مراد ہے

کسی بھی قوم کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ کوئی قوم کسی ایک ہی قبیلہ یا انسانی جماعت گروہ یا کسی ایک ہی نسل کے افراد پر مشتمل نہیں ہوتی۔ مثلاً یہ سوچنا غلط ہے کہ انگریز قوم کے تمام افراد ہزاروں سال پہلے کے کسی واحد قبیلے کی اولاد ہیں یا ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
جدید اطالوی قوم متعدد انسانی جماعتوں اور نسلوں سے ملکر بنی ہے. مثلاً رومی، جرمانی، ای ٹرسکی، یونانی، عربی وغیرہ ۔ اسی طرح فرانسیسی قوم بھی ابتدائی زمانے کی مختلف اور متعدد نسلوں اور انسانی جماعتوں کے خون کی آمیزش ہے جیسے پرتگالی، رومی، برطانوی، جرمن وغیرہ۔
انگریز اور جرمن قوموں کا بھی یہی حال ہے یعنی انکے خون میں بھی مختلف قوموں اور نسلوں کے خون کی آمیزش ہے۔
غرض قوم کسی ایک قبیلے یا نسل کے بطن سے نہیں جنم لیتی بلکہ قوم کی تربیت و تعمیر میں دراصل تاریخ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ تاریخی عمل اور تاریخی طاقتیں مختلف نسلوں اور جماعتوں کے افراد کو قومیت کے باہمی رشتے میں منسلک کر دیتی ہیں۔
قوموں کو تاریخ وجود میں لاتی ہے نہ کہ نسل یا قبیلہ۔۔

لیکن یہاں پر ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے وہ یہ کہ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ سکندر اعظم کی عظیم الشان سلطنتیں بھی تاریخی طاقتوں کی پیداوار تھیں لیکن کیا ان سلطنتوں کے تمام افراد کسی ایک ہی قوم کے افراد کہے جاسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں! معلوم ہوا کہ ہم ایسے انسانی اجتماع کو جسے تاریخ وجود میں لائی ہو ، قوم کا لقب نہیں دے سکتے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ سکندر یا سیرس کی سلطنت کو ہم کیوں قوم نہیں کہہ سکتے؟
دراصل یہ سلطنتیں مختلف انسانی گروہوں کے درمیان بنیادی اور اندرونی طور پر کوئی اشتراک یا اتحاد نہیں ہوتا تھا۔
یہ سلطنتیں محض کچھ خارجی طاقتوں کی بنا پر وجود میں آجاتی تھیں اور ان سے مختلف انسانی گروہوں کی سیاسی زندگی کا ایک سطحی اتحاد ہوجاتا تھا ۔
یہ خارجی طاقتیں کیا تھیں جو انھیں عارضی طور پر ایک ہی سیاسی نظام کہ ماتحت لے آتھی تھیں؟
مثلاً کسی فاتح کی فتح اور اگر بعد میں وہ فاتح یا اس کی اولاد شکست کھا گئ تو پھر اس سطحی سیاسی اتحاد کے تاروپود بِکھر جاتے تھے۔ اور سلطنت میں شامل انسانی گروہ الگ الگ ہوجاتے تھے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ایسی انسانی جمعیت کو قوم کا لقب نہیں دے سکتے جو عارضی اور وقتی طور پر وجود میں آئی ہو۔ قوم کہلانے کے لیے اس انسانی جمیعت کے اتحاد کا مظبوط اور پائیدار ہونا ضروری ہے۔ قوم انسانوں کے مظبوط اور پائدار گروہ کا نام ہے اور یہی وہ شرط ہے جس کے پورا ہوئے بغیر تاریخ کے زریعے وجود آنے والی کسی انسانی جماعت کو ہم قوم کا لقب نہیں دے سکتے۔

قومیت کا ارتقاءاور عروج
(Rise and evolution of the Nationalism)

قومیت کی ارتقاء اور عروج کو ہم مختلف دؤروں میں تقسیم کرسکتے ہیں
پہلا دور
مغربی یورپ
یہ وہ دور ہے جب یورپ میں مغربی ملکوں میں یعنی آئرلنڈ کو چھوڈ کر برطانیہ، فرانس، اور اٹلی میں کچھ حد تک جرمنی میں جاگیری نظام کو زوال ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام نے فتح پائی۔
اسی زمانے میں مغربی یورپ کی آبادی مختلف قوموں میں تقسیم ہوگئی ان ملکوں میں یہ ہوا کہ جس زمانے میں وہاں جاگیری نظام کا زوال ہو رہا تھا اور مختلف قومیں وجود میں آرہی تھیں اسی زمانے میں ان ملکوں میں مظبوط مرکز والی ریاستیں قائم ہوئیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ الگ الگ قومیں الگ الگ ریاستوں میں شکل پزیر ہوگئیں اور اسی شکل میں ترقی کی منزلیں طے کرنے لگیں. ان میں سے کسی بھی ریاست کے اندر کسی بڑی غیر ملکی یا غیر قومی جماعت یا اقلیت کا وجود نہیں تھا
چنانچہ ریاست کے اندر ایک قوم پر دوسری قوم کے ظلم و ستم تشدّد کا وجود نہ رہا
مثلاً فرانس میں کوئی غیر فرانسیسی اقلیت نہیں تھی اور نہ برطانیہ میں کوئی غیر برطانوی اقلیت ۔
چنانچہ جب وہاں قومیت نے آگے قدم بڑھایا تو غیر قومی اقلیت پر قومی اکثریت کے جبر و تشدد کا سوال ہی پیدا نہ ہوا تھا۔

مشرقی یورپ
مشرقی یورپ میں حالات اس سے مختلف تھے یعنی جس زمانے میں ہنگری، آسٹریا، اور روس میں مختلف قومیں بن رہی تھیں اور جاگیری نظام کی جڑیں کھوکھلی ہورہی تھیں اسی زمانے میں مظبوط مرکزوں والی ریاستیں قائم نہیں ہوئیں بلکہ اس سے پہلے یعنی ان ملکوں میں مضبوط مرکز والی ریاستیں ہوچکی تھیں اور کافی مدت کے بعد جاکر کہیں ان ملکوں کی آبادی مختلف قوموں میں شکل پزیر ہوئیں اور جاگیرداری نظام کا زوال ہوا۔ جس زمانے میں وہاں مضبوط مرکز والی ریاستیں قائم ہوئی اس وقت سرمایہ داری نے ابھی ترقی نہیں کی تھی بلکہ ابھی اس کی شروعات ہی ہوئی تھی جب تک سرمایہ داری کا عروج نہیں ہوتا اس وقت تک قومیں بھی وجود میں نہیں آتیں۔
اسی لیے مظبوط مرکز والی ریاستیں قائم ہوجانے کے بہت دیر بعد وہاں قومیں وجود میں آئیں ۔
ان مرکز والی ریاستیں قائم کرنے کی ضرورت اس لیے محسوص ہوئی کہ روس آسٹریا، اور ہنگیری کو ترکوں ، منگولوں اور دیگر ایشیائی حملہ آوروں سے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا تھا، چنانچہ ان ملکوں کے لوگوں نے حملہ آوروں کی مداخلت اور اپنی حفاظت کے پیش نظر یہ محسوص کیا کہ فوری طور پر مظبوط مرکز والی ریاستیں قائم ہوجائیں۔

غرض قومیت کے ارتقاء کے پہلے دور میں ہمیں دو باتیں نظر آتی ہیں۔
سرمایہ داری کہ ابتدائی زمانے میں مختلف قومیں تشیکل پزیر ہوئیں۔
مغربی یورپ میں یہ ہوا کہ خالصتاً قومی ریاستیں وجود میں آئیں ان میں سے ہر ریاست چونکہ ایک ہی قوم کے افراد پر مشتمل تھی, اس لیے ریاست کے اندر ایک قوم پر دوسری قوم کے ظلم و ستم کا سوال ہی نہ تھا۔
لیکن۔۔۔
مشرقی یورپ میں ایسی ریاستیں بنیں جن میں سے کوئی بھی ریاست کسی ایک واحد قوم پر مشتمل نہیں تھی۔ بلکہ مختلف اور متعدد قوموں پر مشتمل تھیں اور اسی وجہ سے مشرقی یورپ کی ہر ریاست میں یہ صورت تھیں کہ کوئی ایک قوم سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے اور تمام دوسری قومیں اس کے مقابلے میں پچھڑی ہوئی ہیں اور یہ ترقی یافتہ قوم ریاست میں شامل دوسری قوموں پر سیاسی لحاز سے حاوی رہتی ہےاور اگے چلکر اس کا معاشی تسلط بھی قائم ہوجاتا ہے۔


جنانچہ ھم دیکھتے ہیں کہ مشرقی یورپ میں انھیں کثیر القومی ریاستوں میں ایک قوم پر دوسری قوم کے ظلم و ستم تشدد کا سوال پیدا ہوتا ہے اور اسطرح قومی تصادم ، قومی تحریکیں اور قومی مسئلے وجود میں آئے اور ان کو سلجھانے کے مختلف طریقے پیدا ہوئے ۔ یہ تھا قومیت کا ارتقاء اور عروج پہلا دور۔

دوسرا دور

قومیت کے عروج کا دوسرا دور وہ ہے جب سامراج وجود میں آیا یعنی جب سرمایہ داری منڈیوں اور کچے مال ایندھن اور سستی محنت کی تلاش میں ملکی حدود سے باہر نکلی، سرمایہ داروں کو صنعتی اشیاء پیدا کرنے کے لیے سستے سے سستے داموں پر مزدوروں کی ضرورت تھی تاکہ جتنے کم خرچ پر اشیا تیار ہو جائیں اُتنی ہی انھیں زیادہ داموں پر بیچ کر منافع حاصل کیا جاسکے۔
پھر سرمایہ داروں کو اپنی بنائی چیزوں کو بیچھنے کے لیے منڈیوں کی ضرورت تھی اور سرمایہ دار اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں میں بھی لگانا چاہیتے تھے تاکہ دوسرے ملکوں کا اچھی طرح استحصال ہوسکے اور وہ زیادہ منافع کماسکیں ۔


جنانچہ جن ملکوں کا وہ استحصال کر رہے ہیں ان سے تعلقات کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے سمندری اور خشکی کے راستوں پر قبضہ جمانے کی ضرورت تھی۔ اسطرح مغربی یورپ کے سرمایہ دار اپنی اپنی قومی ریاستوں کے حدود کو توڈ کر نزدیک اور دور کے ہمسایہ ملکوں غلام بنا لیتے ہیں۔


قومیت کے عروج کے اس دوسرے دور میں مغربی یورپ کی پرانی قومی ریاستیں یعنی (برطانیہ، اٹلی، فرانس) بڑی بڑی کثیرالقومی ریاستوں میں بدل جاتی ہیں ۔ ان کے قبضے میں نئے نئے علاقے اور وسیع و عریض نو آبادیات آجاتی ہیں یہ کثیر القومی ریاستیں ایک قوم پر دوسری قوم کے ظلم و تشدد کا اکھاڈا بن جاتی ہیں اور نوآبادیات کے لوگوں پر سرمایہ دار حاکم قوم کا استحصال اور تشدد ہونے لگتا ہے
یہ وہی استحصال ؤتشدد ہے جو مشرقی یورپ کی کثیرالقومی ریاستوں میں پہلے سے ہی موجود تھا۔
اس دور میں یعنی قومیت کے ارتقاء و عروج کے دوسرے دور میں مغرب کی قومی ریاستیں سامراجی ریاستوں میں تبدیل ہوگئی تھیں۔

تیسرا دور

یہ دور سوویت نظام کے قائم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے، یہ دور اس طرح شروع ہوا کہ دنیا کے 1/2 حصے میں سرمایہ دار نظام کو تباہ و برباد کردیا گیا اس کے ساتھ ہی ایک قوم پر دوسری قوم کے ظلم و تشدد کا بھی خاتمہ ہوگیا اس کے شروع ہونے کے بعد دنیا کے جس حصے میں سویت نظام قائم ہوا وہاں نہ حاکم قوم کا وجود رہا اور نہ محکوم کا، نہ نو آبادیات کا سوال رہا اور نہ نوآبادیات کا استحصال کرنے والے ملک کا ۔
یہ تمام سوالات اور مسئلے کم سے کم اس خطئہ ارض کے لیے جہاں سوویت نظام قائم ہے
تاریخ کہ بوسیدہ طاقوں میں رکھ دیے گئے ہیں اس دور میں سوویت نظام کے تحت تمام قوموں کو یکساں حقوق اور ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہیں لیکن فی الحال یہ قومیں معاشی اور سیاسی اور تہزیبی ترقی کے لحاظ سے ایک ہی سطع پر نہیں ہیں، یہ نابرابری انقلاب سے پہلے کے حالات کی پیدا کی ہوئی ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.