بی ایس او کے تاریخی پسِ منظر پر بی ایس او کا آن لاٸن سرکل، بین الاقوامی سیاسی صورتحال سمیت بلوچ طلبا کو درپیش مشکلات اور اتحاد کی ضرورت پر بحث

رپورٹ: فرید مینگل

بی ایس او کا آن لاٸن اجلاس زیرِصدارت چیٸرمین ظریف رند منعقد ہوا جس میں بی ایس او کے تاریخی پس منظر اور موجودہ حالات میں اس کے بنیادی اہم کردار پر تفصیلی گفتگو کی گٸی۔ بی ایس او کے تاریخی پس منظر پر بات کرتے ہوٸے بی ایس او کے چیٸرمین نے کہا کہ بیسویں صدی استعمار مخالف انقلابات اور محکوم اقوام کے انقلابات کی صدی رہی ہے۔ دنیا کی بہت ہی نامور اور بڑی انقلابات بیسویں صدی میں ہی وقوع پذیر ہوٸیں جس میں محکوم اقوام و طبقات کو باقاعدہ آزادی کی نعمت حاصل ہوٸی۔

اسی طرح دنیا بھر کے انقلابات اور سیاسی صورتحال سے ہمارا خطہ بھی متاثر ہوٸے بغیر نہ رہ سکا اور یہاں بھی پہلی سیاسی ترقی پسندانہ قیادت 1920 کی دھاٸی میں میر عبدالعزیز کرد، یوسف عزیز مگسی، محمد حسین عنقا اور دیگر سیاسی اکابرین کی صورت میں ابھر کر سامنے آٸی۔ جس کے بعد محکوم بلوچ قوم استحصالی عناصر سے باقاعدہ نظریاتی فکر سے لیس ہو کر بلوچ وطن کی آزادی اور حکمران طبقے کی ظالمانہ عیاشیوں کے خلاف کمر بستہ ہوا۔

بیسویں صدی میں 60 کی دھاٸی ایک ایسی دھاٸی ہے جہاں دنیا بھر کے محکوم اقوام و طبقات نے سامراج مخالف جدوجہد کو عروج بخشا اور ترک نوآبادیاتی جدوجہد کی مثالیں قاٸم کیں۔ اسی دوران کیوبا، ویت نام، لاطینی امریکہ، چین اور افریقہ میں طبقاتی و قومی سیاسی بیداریاں بڑی تیزی کے ساتھ ہونے لگیں۔ فرانس میں طلبا نے نٸی انقلابی کروٹ لے کر انقلابی تحریک کی نماٸندگی کی۔

پاکستان میں بھی ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن محکوم طبقات کی بیداری اور انقلابی جدوجہد کےلیے سینہ سپر ہو کر سامنے آیا اور تھوڑے سے عرصے میں سامراج حامی حکمران طبقے کے سامنے ایک سیسہ پلاٸی دیوار بن کر کھڑی ہوٸی۔ حکمرانوں کے لیے رفتہ رفتہ یہ ناقابل برداشت ہوا اور انہوں نے بالآخر ڈی ایس ایف پر پابندی لگادی۔

حکمران طبقے نے اپنی منافقت کے تحت یہ طے کیا کہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صورت میں ایک نیا طلبا تنظیم پیش کیا جاٸے جو حاکم طبقے کا حمایتی چیلا ہو۔ مگر ڈی ایس ایف کے انقلابی ساتھیوں نے ایک سال کے اندر اندر این ایس ایف میں گھس کر اسے امرا کے ہی خلاف ایک باقاعدہ فرنٹ بنا دیا اور جمال عبدالناصر جیسے انقلابی رہنما کی کراچی میں جوش و خروش سے استقبال کرکے حکمرانوں کے ھوش تک اڑا دیے۔

اس دوران کراچی میں بلوچ طلبہ ورنا وانندہ گل اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگناٸزیشن کی صورت میں ادب اور اکیڈمکس پر کام کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ آج جو طلبا تنظیمیں اکیڈمکس اور ادب پر کام کرکے سیاسی ضرورت سے پہلو تہی کر رہے ہیں ان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تجربہ ہمارے اکابرین نے تقریبا نصف صدی قبل آزمایا تھا۔ جب انہوں نے خطے میں طلبا سیاست کی ابھار کو دیکھا تو انہوں نے بلوچ طلبا کے سیاسی جہد کی کمی و ضرورت محسوس کی۔

بلوچ ورنا وانندہ گل اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل الاٸنس کے ساتھیوں نے 25 تا 27 نومبر 1967 کو کراچی میں کونسل سیشن کرکے بی ایس او کی شکل میں باقاعدہ ایک انقلابی بلوچ طلبا تنظیم کی بنیاد رکھی۔ جس نے مستقبل قریب میں بلوچ قومی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے۔ اس سے قبل بلوچ قومی سیاست تقریباً ایک اصلاحی تحریک رہی تھی جس میں ٹیکسوں کی کمی، شمس شاہ کے بدمعاشیوں کی مخالفت اور جبری الحاق کے بعد خان کی بحالی سرفہرست مطالبات رہے تھے۔ بی ایس او نے بلوچ سیاسی قومی و طبقاتی انقلابی پروگرام دے کر بلوچ قومی جدوجہد کو بالکل ایک نیا اور مثبت موڑ دیا۔

اس دوران ہم دیکھتے ہیں کہ بی ایس او محکوم طبقات کی نماٸندہ انقلابی تنظیم بنی اور اسے ہر طبقے کے بلوچ نے گلے لگا کر قبول کیا۔ اور اس کی قیادت عام بزگ بلوچ کے ہاتھ میں تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بلوچ امرا قیادت کو بی ایس او سے اتحاد کی ضرورت تک محسوس ہوٸی تاکہ وہ اپنی سیاست بچا سکیں اور دوسری طرف بی ایس او نے نچلے طبقے سے ایک متبادل قومی سیاسی قیادت پیدا کرکے امرا طبقے کے سیاسی موت کی گھنٹی بجا دی تھی۔

اب یہاں سے قومی بورژوا سیاسی قیادت نے بی ایس او کے خلاف سہہ جہتی حکمتی عملی کا آغاز کیا۔ پہلا یہ کہ وہ بی ایس او جو کہ امرا طبقے کا مخالف اور سیاسی دشمن تھا اس میں امرا طبقے کے ہمایتی پیدا کرنے شروع کردیے، دوٸم اس کو تقسیم کرکے کمزور کرنے کی سازش رچاٸی گٸی، اور سوٸم ان امرا نے یہ کیا کہ بی ایس او کو ہی قبضہ کرکے اسے مکمل غیر مٶثر بنانے کی کوشش کی۔ اور اس دوران جس نے بھی پھر سے بی ایس او کے انقلابی سیاست کو بحال اور متحد کرنے کی کوشش کی اسے اس فاشسٹ قومی بورژوا سیاسی قیادت نے شہید فدا احمد بلوچ کی صورت میں شہید کرکے راستے سے ھٹایا۔

بی ایس او اپنی ابتدا سے لےکر اپنے عروج تک دنیا بھرکے محکوم اقوام کی حمایتی انقلابی تنظیم رہی، اس نے فلسطینی قومی تحریک آزادی کی کھلم کھلا حمایت کی، امریکہ کے استعمارانہ پالیسیوں کی بھرپور مخالفت کی اور افغانستان میں سامراج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے لگاٸی جانے والی جہادی صنعت پر کڑی تنقید کی۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد بی ایس او پر ایک اور جبر یہ ہوا کہ اس کے کارکنوں کو مراعات دے کر خریدنے کی کوشش کی گٸی اور پھر یہ ڈبیٹ تک اس انقلابی تنظیم میں رکھی گٸی کہ اب سوویت یونین کے بعد ہمیں امریکہ کے استعمارانہ پالیسیوں کی جانب جھکاٶ رکھنی چاہیے۔ اور اس کے لیے باقاعدہ بی ایس او کے کارکنوں کو امریکہ کے لیے اسکالرشپس تک دی گٸیں اور انہیں سامراج امریکہ کے حق میں برین واش کیا گیا۔

اکیسویں صدی میں بی ایس او نے ایک نٸی کروٹ لی۔ اور اس بار اسے ایک نٸی مشکل کا سامنا تھا۔ بلوچ سیاسی کارکن ایک طرف انتہا پسندی کی جانب بڑھ رہے تھے دوسری جانب انہیں قومپرست سیاسی جماعتوں نے یرغمال بنا کر موقع پرستی کی اتھاہ گہراٸیوں میں گرادیا تھا۔ اور اس تمام تر صورتحال میں نقصان بلوچ طلبا بالخصوص بی ایس او کا تھا۔

بی ایس او ہمیشہ سے ایک ایسی انقلابی تنظیم رہی ہے جس نے بیک وقت بلوچ قومی سوال اور بلوچ سماج کے اندر موجود طبقاتی تضاد کو اٹھایا تھا اور اس کے خلاف جدوجہد کی تھی جس کی بدولت وہ بلوچ قومی بورژوا اور ریاست دونوں کے جبر کا سامنا تسلسل سے کیا ہے۔ کیونکہ بی ایس او بطور ایک انقلابی نرسری بلوچ سماج میں نچلے طبقے پر مشتمل ایک سیاسی قیادت سامنے لانے کی حامی رہی ہے جو ان دونوں استحصالی قوتوں کےلیے مشکلات پیدا کرتی رہی ہے۔ بدقسمتی سے اکیسویں صدی میں دشمن قوتیں بی ایس او کے اس کردار کو یرغمال بنانے اور توڑنے میں کامیاب ہوٸیں اس کی بدولت آج ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ سماج میں ایک موقع پرست قومی بورژوا اپنی من مانیاں کررہا ہے اور اس کے سامنے کوٸی بھی تیسری طاقت مزاحم ہونے کے لیے میدان میں موجود نہیں۔

ہمارے ساتھیوں نے اس امر کو 2009 میں محسوس کرکے باقاعدہ طورپر بی ایس او کے بحالی کی جدوجہد شروع کی تاکہ بی ایس او کو ان یرغمالی قوتوں کے ہاتھوں سے نکال کر اس کی اصل کام پر لگایا جاٸے اور ایک ایسی سیاسی قیادت پیدا کی جا سکے جو حکمران طبقے کی منافقت کو بلوچ قوم کے سامنے عیاں کرکے اس کے خلاف ایک مزاہمتی سیاسی قیادت کھڑی کر سکے۔

شعوری جدوجہد کے سفر میں ہمیں بیشمار مشکلات کا سامنا رہا ہے اور آج بھی مشکلیں موجود ہیں مگر نظریاتی اور فکری تربیت سے ہمارے ساتھیوں نے بہت سی رکاوٹوں کو پار کر دیا ہے اور نئی نسل کیلئے ایک متبادل سیاسی پلیٹ فارم تعمیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں. مگر منزل ابھی بھی بہت دور ہے اور سفر طویل ہے لہذا جہد مسلسل کا شعوری فکر ہی ہماری رہنما اصول ہے جس پر قائم رہ کر فکری جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔

آج ضرورت اس امر کی ہے بی ایس او کے ساتھی اپنی جہد مسلسل کے ذریعے اپنی نظریاتی اور فکری تربیت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے کر اتحاد و یکجہتی کی جانب بڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.