بلوچ طلباء کے تعلیمی مسائل

تحریر: فیصل بلوچ

بلوچستان کے طلباء و طالبات کو شروع دن سے ہی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسے کہ ہم سب کو پتا ہے کہ بلوچستان پاکستان کے باقی صوبوں کے بانسبت بہت ہی پسماندہ ہے۔ تعلیم اور بہت سی ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی۔
بلوچستاں کے طلباء و طالبات کی اکثریت محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جن کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے بہت سے آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئ بلوچ طلب علم شہر کا رخ کرلیتی ہے تعلیم حاصل کرنے کیلئے تو اسے بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ رہائش سے لیکر کھانے پینے کی اشیاء تعلیم وغیرہ وغیرہ۔
یہ محنت کش طبقے کیلئے بہت بڑی بات ہوتی ہیں مگر ان سب مسائل کے برعکس طلباء اپنی مسلسل جہد کے ساتھ ان تمام مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان سب کے باوجود آج کی صورت حال کے مطابق (کووڈ-19 جو کہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے ایک عالمی بحران کی شکل میں اس وباء نے دنیا کے تمام ممالک کے معیشت اور دوسرے اداراوں کو کافی حد تک متاثر کیا ہے) اس وبا کے دوران دنیا کے کئی ترقیاتی ممالک نے تعلیمی بحران کو ختم کرنے کیلے آن لائن کلاسز کا انعقاد کیا۔ تو ان سب کے فیصلے کو دیکھ کر ریاست پاکستان نے بھی ایچ ای سی کی طرف سے اعلان کرایا جیسے کے ہم سب کو پتہ ہے کہ پاکستان دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں تعلیمی نظام کو دیکھ کر ممکن نہیں۔ لیکن بلوچ کو مزید گرنے کا خدشہ ہوگا۔ آنلائن کلاسز اپنی جگہ یہاں کے بیشتر علاقوں میں بجلی میسر نہیں ہے۔ بغیر بجلی کے آن کائن کلاسز لینا ناممکن ہے۔ تو طلباء و طلبات نے آنلائن کلاسز کے خلاف اپنے اتحاد قائم کیئے اور پاکستان کے 25سے30 شہروں میں مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔
طلبہ نے اپنے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ ہمیں ان تمام سہولیات سے آراستہ کریں۔ آنلائن کلاسز کیلئے انٹرنیٹ بنیادی ضروریات میں شمار ہوتا ہے۔ انٹرنٹ کی سہولیات نا ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسز لینا ناممکن ہے۔ 
جب 25جون کو شال میں بلوچ سٹوڈنٹس الائنس کی طرف سے ایک پر امن احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جن کا مقصد تھا کہ پرس کلب سے لیکر ہائی کورٹ تک اسے ریکارڑ کیا جائے۔ مگر طلباء کو وہاں تک پہنچنے سے پہلے کوئٹہ پولیس نے زد وکوب کر کے بلوچ اور پشتون روایات کو پامال کیا۔
اس پر امن احتجاج کو منتشر کرکے ہماری عورتوں کو سرے بازار روڑ پر گھسیٹا گیا اور اس کے علاوہ طلباء پر تشدد کرکے زندانون میں ڈالا گیا۔
پولیس کی اس ناروا سلوک کی وجہ سے دوسرے طلباء و طالبات نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے مظاہرے کیے۔ تو اس ناروا سلوک کے پانچ گھنٹے بعد طلباء کو رہا کردیا گیا۔ نام نہاد بلوچستان حکومت صرف بیانون تک محدود رہا بجائے کہ ان پولیس افسران کے خلاف کاروائی کرنے کے جام حکومت نے ستر سالہ پاکستانی روایات کو بلوچ طلباء کی خلاف برقرار رکھا۔
مگر حکومت کی اس ناروا سلوک نے پوری دنیا کو آگاہ کیا کہ وہ کس حد تک جا سکتی ہے مظلوم اقوام کے خلاف ریاست پاکستان میں حق یا تعلیم مانگنے والے کو غدار اور حق چیننے والے کو محب وطن کا لقب دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.