مقدس اتحاد

تحریر: جلال بلوچ

یوں تو اتحاد انقلابی اقدام ہے مگر جب اتحاد کی کوئی ٹھوس نظریاتی بنیادیں نا ہوں اور وہ اندھا دھن جذبات و پسند نا پسند کی غیر سائنسی منطق پہ قائم ہو تو اسے مقدس اتحاد کہا جا سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں ایسے خودساختہ مقدس اتحادوں کا فیشن چل پڑا ہے۔

یہ مقدس اتحاد زوال کو سیاسی بنتر میں چھپانے کی کوششیں ہیں۔ اس کا مقصد سیاسی میدان میں ایک سائے کی مانند ہے جو سماج میں سیاسی کام کے کردار ( اور اسے درست سمت کی جانب بڑھانا) کو خالی نعروں، اور بار بار دہرائی جانے والی لفاظی کے سکرپٹ پے کھیلا جانے والا تھیٹر ہے۔ سیاسی میدان پر عوام پچھلی پرتشدد دہائیوں سے گزر کر اب اس تھیٹر سے تھک چکے ہیں, لیکن کچھ مفادات اب بھی پس پشت چھپانے کی خاطر یہ تھیٹر چلتا جا رہا ہے۔
یہ مفادات جو ایک عرصے سے واضح ہیجیمونک (Hegemonic) کردار اپنا چکے ہیں، ان میں بالخصوص سیاسی اشرافیہ، جو مختلف پارٹیوں اور گروہ کے نام سے جانی جاتی ہیں اور اس کے بعد ذیلی سطح پے مسلسل تقسیم و تحلیل ہوتی جاتی ہیں، یہاں شخصیات کے مخصوص مفادات اور ترجیحات بھی ہمیشہ شامل رہتی ہیں۔ بلکہ مسلسل قوم و عوام سے زیادہ کی حیثیت اختیار کرتے جاتے ہیں۔۔۔اور یوں یہ تھیٹر چلتا رہتا ہے جس سے حقیقی دنیا میں ہونے والے جبر کے گہرے تاریخی تسلسل کو چھپا لیا جاتا ہے، اور صرف وقتی پرفارمنس میں اس تضاد کو دوام بخشا جاتا ہے۔

بلوچستان پر تاریخی جبر جس کا بلوچ قوم صدیوں سے مقابلہ کرتی آرہی ہے، اس لمبے تجربے سے بلوچ قوم مسلسل سیکھتی آ رہی ہے، اور اپنی مزاحمت کے ارتقا میں بہت آگے بڑھ چکی ہے لیکن قوموں کی تاریخ میں ہمیشہ ایسے لمحات آتے ہیں جہاں کچھ رجحانات، گروہ یا شخصیات ہیجیمونک قابو پالیتی ہے اور ارتقا کے رستے میں سامراج کی طرح حائل ہو جاتی ہیں۔

طلبا کی جدوجہد اور بالخصوص بلوچ طلبا کی بی ایس او کی صورت میں جدوجہد تاریخی طور پر غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ بی ایس او کا جدید نظریات سے لیس ہونا ہے، جس کی وجہ سے بی ایس او وسیع تر عوامی پرتوں سے جڑ گئی ہے۔ آج بلوچ قوم کی جدید سیاست کی بنیاد بی ایس او ہی سے ہے، لیکن کچھ ایسے کردار ہیجیمونی(سیاسی اشرافیہ، طاقت) کی طرف سے اب سیاسی میدان میں بٹھائے (بلکہ دہائیوں سے بٹھائے گئے) گئے ہیں، جو نا علم کے دائرے میں آتے ہیں اور نا سیاست کے فن سے واقفیت رکھتے ہیں۔ یہ اس لفاظی کی جگالی کرتے رہتے ہیں جو ان کے منہ میں ٹھونس دی جاتی ہے۔
آخر کیسے ممکن ہے کہ وہ لوگ جو سیاسی علم سے واقف ہی نہیں ہیں اور جو عرصہ دراز سے سادہ اور سطحی لفاظی سے ہی ذہنی خوراک کو پورا کرتے رہے ہیں، وہ قومی شعور میں مثبت پیش رفت کا باعث بن سکتے ہیں؟ ( جیسے بچے کو سہی خوراک نہ ملے تو  اس کے ذہن کی نشوونما رک جاتی ہے “stunted growth”, اسی طرح سیاسی عمل میں زائدالمیعاد لفاظی کیڈر کی نشوونما بھی روک دیتی ہے)

جب تک کہ ایک کردار کو پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے_ یا _ اس سے بھی اہم _ کہ _ کیا کرنا چاہیے؟ تب تک کیسے وہ یہ صلاحیت پا سکے گا کہ کیسے اور کیا جائے؟
سمجھ، علم کی ترتیب میں تشکیل پاتی ہے جو مستقبل کا پتہ یا آگے تک کے لیے ایک طویل عمل کو منظم کر سکنے کی صلاحیت عطا کرلیتی ہے. لیکن یہاں تجربے کو علم سے اور علم کو عمل سے بلکل الگ کر کے دیکھنے کا رواج جگہ پا چکا ہے، جو دراصل صرف جدید اور ضروری خیالات اور عوامل کی راہ میں رکاوٹ کے سوائے کچھ نہیں ہے، جو ہیجیمنی کیلئے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

اتنے شدید استحصال اور جبر کے وقت میں مستقبل کی جدوجہد بغیر نظریاتی بنیادوں کے، بنا مستقبل کے وژن کے، علم اور عمل کو مربوط کیے بغیر کیسی رہنمائی کا دعویٰ؟ یہاں کی سیاست ایک جدید قومی جہد کو آگے لے جانے اور اس کو بہتر بنانے کی نہیں ہو رہی ہے بلکہ فقط ایک سایہ برقرار رکھنے کی ضد نظر آتی ہے۔ سایہ جو کہ یہاں کی پارٹیوں کو فائدہ دیگا، سایہ جو بہم یہاں کی سیاسی اشرافیہ اور ان کی ہیجیمونی کیلئے تحفظ بنے گا۔
اس سائے میں چھپایا جاتا رہا تمام تر سطح کو اور اس کے نیچے عمل پزیر تضادات کو ہمارے سیاسی قائدین کی بحث کسی گلی کے تھڑے پے بیٹھے شخص یا رکشے کے علم سے نابلد ڈرائیور سے زیادہ نہیں ہے۔۔۔ تو مجھے بتائیں کہ یہ سیاسی لیڈران کیا سیاسی شعور میں اضافہ لائیں گے؟ کیا قومی تحرک میں اضافہ ہوگا؟

یہ مقدس اتحاد دراصل سیاسی میدان کے اردگرد لگایا پردہ ہے۔ جس کے سائے میں دید تاریک ہو جاتی ہے۔ خود کو جاننے _اپنے حالات کو جاننے اور اس کے مطابق حقیقت میں کریٹیکل انٹروینشن ( Critical intervention)  کرنے جیسے انتہائی اہم و لازم کام کو کھوکلے نعروں، دہرائی گئی لفاظی اور رد ہوئے لیڈران سے چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

مقدس اتحاد تحفظ ہے ان لوگوں کا، ان رجحانات کا، جو عرصے سے اپنی ہیجیمونی قائم کیے ہوئے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو طلبا کی سیاسی بڑھوتری کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کے بیٹھے ہیں۔ یہ مجرم ہیں اتنے عرصے سے سیاسی گراوٹ اور سماجی بیگانگی کے۔ انہی نے سیاست کو عام مخلوق کے سامنے بدنام کیا. تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی اور ولگیرٹی ابھارنے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے شانہ بشانہ مرکزی مجرمان کی حیثیت رکھتے ہیں یہ لوگ۔

دہائیوں سے طلبا سیاست پر براجمان یہ لوگ، غریب و معصوم طلبا جو کہ دور دراز سے آتے ہیں، ان کے داخلے، ہاسٹلز، اور پیپرز کے نام پر پیسے بٹورتے رہے ہیں۔ طلبا کو ہراساں کرکے، تشدد کرکے، بلیک میل کیا جاتا رہا ہے۔ ایک طرف موقع پرستی کو سیاست کا معیار بنایا گیا ہے تو دوسری طرف تشدد کر کے، لاٹھیوں، بوتلوں اور پستول سے اپنی سیاست کو ذندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔۔۔ اور یہ سب قوم کے نام پے ہوتا رہا ہے، لیکن جو بھی کوئی جرم کرتا ہے، سیاسی و سماجی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں یہ سب بھلا دیا جائے گا. تاریخ میں ہمیشہ سچائی کا الم بلند رکھنے والے لوگ ذندہ رہتے ہیں۔

ہیجیمونی کی نمائندگان جو کہ سیاسی اشرافیہ کے مقام اور اس کے ہر اچھے برے کو جسٹیفائی کر دے، ان کی نیندیں تب حرام ہوتی ہیں جب یہ ہمارا نام سنتے ہیں، جب یہ سنتے ہے کہ بی ایس او موجود ہے۔ تب انہیں اپنے وجود کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور پھر یہ بوکھلائی ہوئی حالت میں پراپیگینڈہ مہم چلاتے ہیں تاکہ اپنی بوسیدگی کو چھپا لیں اور سچ کو بدنام کر سکیں۔

یہ وہی لوگ ہیں جو ہر جگہ ترقی پسند انقلابی تحریکوں کے سامنے آتے ہیں ان پر حملہ آور ہوتے ہیں، ان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، مگر ہمیشہ منہ کی کھاتے ہیں کیونکہ خیالات ان کے وار سے اور پروان چڑھتے ہیں۔ ہیجیمونی کے نمائندوں کا آخری حربہ فزیکل ٹکراؤ کی صورت میں آتا ہے( کیونکہ ان کے خیالات اپنی معیاد گزار چکے ہوتے ہیں اور قابل قبول نہیں رہتے تو جسمانی ٹکراؤ ہی آخری سہارا رہ جاتا ہے) لیکن یہاں کے یہ نام نہاد رہنما اس حد تک نظریاتی بوسیدگی کا شکار ہیں کہ ان کا پہلا حربہ ہی جسمانی تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ دہائیوں سے طلبا کے سروں پر براجمان یہ لوگ ایک بھی سنجیدہ یا ویلڈ آرگیومنٹ ڈیولپ نہیں کرپائے ہیں, سوائے سستے اشتہار بنانے کے، گالیوں کی ثقافت پروان چڑھانے کے ان سے اور کیا ہو پایا ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں بی ایس او کی ریلی پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی گئی، جسے احسن طریقے سے ساتھیوں نے سنبھال لیا. یکجہتی مارچ پے پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہونے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ مقدس اتحاد اپنے پورے کھوکلے وجود کو حرکت میں لا کر بھی صرف ایک ڈنڈے کی سکت ہی رکھ سکا اور بس پھر بھاگنے میں کامیاب ہوا۔ یہ ہے ان کا سادہ سا کردار، اگر یہ رہنما ہیں تو ہم کھڈے میں گرنے نہیں والے بلکہ گر چکے ہیں۔ لیکن دونوں ہی صورتوں میں بہرحال ہم اپنی محنت سے، عوام الناس کی مرضی و منشا اور جدید سائنس کے توسط سے اپنی کوششوں کا احاطہ بڑھاتے جائیں گے۔

فتح کی جانب سفر میں اس مقدس اتحاد کو لگتا ہے کہ ہماری تقریریں روک کر یہ ہماری آواز دبا دیں گے۔ یہ اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ ان کا مقدس اتحاد بی ایس او کو دبا دے گا، اس کی ظلمت میں بی ایس او کی مشعل بھی خاموش ہو جائے گی… تو یہ باؤلے ہوچکے ہیں۔ انہیں بی ایس او کا کردار اور اس کی تاریخ نہیں معلوم۔ بھول چکے ہیں کہ بلوچ کی جہد نے، قربانیوں نے، اس کے تجربات نے اسے شعور بخشا ہے۔۔۔ اور یہ شعور سچائی کا ادراک رکھتا ہے اور آخر سچائی کے ہمراہ اس کا ساتھ دیتا ہے، اسے مضبوطی دیتا ہے۔

اس سائے میں اور اس کے علاوہ حکمرانوں کی سازشوں سے جو میدان ظلمت میں ڈوب چکا تھا، اب اس کے ہر حصے میں بی ایس او کی مشعل روشن ہوتی جارہی ہے اور اس کا کوئی بھی حصہ اب عام مخلوق سے پوشیدہ رکھنا ممکن نہ ہوگا. بلوچ قومی مفاد میں انہیں برداشت کیا گیا، خاموش رہا گیا کہ کوئی مثبت راہ نکل سکے، لیکن جیسے دوستوفسکی کہتا ہے کہ ” ایک اور قدم بڑھانے سے ، اک نیا لفظ کہنے سے، لوگ سب سے زیادہ ڈرتے ہیں” اور یوں یہ اپنے خوف سے نہ نکل سکے، ہم انہیں چلنا سکھانا چاہتے تھے مگر یہ تو آپ اپاہج ہوئے ہیں۔ یہ تو راستوں کے خوف سے بیٹھ چکے ہیں اور اب یہ ہمیں خاموش کر کے، ہمیں تقریروں سے روک کر، غلط بیانیاں کرکے، غلیظ پراپیگینڈہ چلا کر سمجھتے ہیں کہ ان کی نااہلی جواز پا لیگی، لیکن یہ اپنی پتھرائی عقل سے آگے نہیں سوچ سکتے کہ جب ہم وہاں موجود ہیں تو ہمیں کیسے رد کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ سورج موجود ہو تو روشنی زمین تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ تربت میں چیئرمین کو عوام سے بیان پر روکا گیا، سستی ٹرکس کرکے یہ صرف اپنا سیاسی کردار واضح کرتے ہیں اور وہ جو دیکھ رہے ہیں انہیں غور سے دیکھتے رہنا چاہیے کہ وہ سمجھ سکیں ان کے کھوکلے پن کو، ان کی جمود ذدہ سوچ کو۔۔۔ اس طرح سے جدید آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی ہے تعصب کی انتہا جو کم علمی اور نظریاتی کم نظری سے وجود پاتی ہے. یہ ہے وہ سایہ جو ہر چیز کو چھپانا چاہتا ہے، جو خاموش کرنا چاہتا ہے بلوچ نوجوان کی آواز کو، روکنا چاہتا ہے سوال کو، آگے بڑھنے کے عمل کو، روکنا چاہتا ہے جدت کو. لیکن کیسے ممکن ہے کہ جس کا وقت آچکا ہو اسے روکا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.