سامراج

تحریر: عثمان بلوچ

امپیریلزم جیسی سیاسی اصطلاحوں کو سمجھنا ایک سیاسی کارکن کےلیے اتنا ضروری ہے جتنا ایک ریاست اور امپیریل ایجنٹوں کی سازشوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

امپیلزم کا لفظ “امپائر”سے نکلا ہے جس کا مطلب ریاست یا سلطنت لی جاسکتی ہے۔ امپیریلزم کی تعریف کچھ یوں ہے کہ ایک ریاست شعور کے ساتھ اپنی فوجی طاقت و قوت استعمال کرکے اپنی قومی معیشت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ امپیلزم کو شروعات میں مثبت معنی دینے کی کوشش کی گئی یا کہیں پر اس کو مختلف خاندانوں میں تقسیم کیا گیا جیسے کہمعاشی امپیریلزم ، سوشل امپیریلزم،یاکمرشل امپیریلزم اس کے ساتھ کہیں پہ اسے مختلف شکلیں دی جاتی ہیں جیسا کہ امپیریلزم ،نیو امپیریلزم ، ماتحتی امپیریلزم ، ری ایکشنری امپیریلزم مگر بدقسمتی سے جس نظام کا کردار گندا ہو کتنے ہی خوبصورت رنگوں سے نوازا جائے پہچانا ہمیشہ اپنے اصل کردار سے ہی جائے گا۔

جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ عالمی قوتیں ایک محکوم اور مظلوم قوم کو کچلنے کے پیچھے لگی ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ریاست بھی ان کو کچلنے کے اعلٰی اسٹیجز پر عالمی قوتوں کے ساتھ ہوتی ہے جس میں مختلف رخوں کو پیش نظر رکھ کر لوٹا جاتا ہے جہاں مختلف اخلاقی جواز پیش کیے جاتے ہیں مختلف اصطلاحوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح ان اصطلاحوں سے حقیقی معنی تبدیل کرواکے اپنے مفادات کے لیے نئے معنی دیے جاتے ہیں۔

امپیریلزم کی اصطلاح 1848 کو نپولین سوم کے زمانے میں ہوئی اور اس کے بعد جب 1871 جرمنی کو متحد کیا گیا اور اس نے جرمن امپائرکسٹم ڈیوٹی کے ذریعے کو دوسرے ملکوں سے علیحدہ کرکے اس کا تحفظ کیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اگر دیکھا جائے تو لینن اور ہامسن نے وسیع معنی دیے۔

امپیریل ازم میں مزید الجھن اس وقت پیدا ہوتی ہے جب برطانوی مؤرخ اس سے مراد ایمپائر لیتے ہیں کیونکہ اس وقت برطانوی اور فرانسیی مقبوضات میں وسعت آجاتی ہے۔ بلکہ دوسرے مٶرخ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو امپیریلزم سے علیحدہ علیحدہ سمجھتے ہیں مگر امریکی مورخ چاہتے تھے کہ اسے نوآبادیات میں منسوب کیا جائے بلکہ اگر دیکھا جائے جب نوآبادیاتی ملکوں میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں اس کے ساتھ جمہوریت، خوداختیاری اور امن کے نعرے لگائے۔ اور امریکہ اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے لئے معاشی امپیریلزم کہتا رہا اور یہ استدلال پیش کرتا رہا کہ اس کے ذریعے ملکوں کی سیاست کو مستحکم رکھا اور انقلابوں سے بچایا۔

عظیم انقلابی رہنما ولادیمیر لینن نے اپنی ایک کتاب “امپیریلزم سرمایہ داری کے آخری اسٹیج” میں اس کی بنیاد معاشی مفادات پر رکھی اور مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 1860 تک سرمایہ داری آزادانہ مقابلہ کی حمایت کرتی تھی مگر 1900 میں سرمایہ داری آذادانہ حمایت کی مخالف ہوگئی اس کی جگہ اجارہ داری آگئی۔لہٰذا امپیریلزم سرمایہ داری نظام میں اجارہ داری کی اسٹیج ہے کیونکہ جب ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی تو نئی مشینی قوت نے مقابلہ کو ختم کرکے اجارہ داری کو مستحکم کیا۔ چھوٹے سرمایہ دار ختم کر کے بینک اور ٹرسٹ بڑے سرمایہ دار بن گئے اور تمام سرمایہ ان کے کنٹرول میں ہوگیا۔ یہاں تک کہ حکومت ادارے بھی ان کے ماتحت ہوگئے”

لینن سے پہلے ہامسن نے اپنی کتاب جس کو 1902 میں شائع کیا گیا اس “امپیریلزم ایک مطالعہ ” میں کہتے ہیں کہ “امپیریلزم سرمایہ داری کی پیداوار ہے کیونکہ اس کی وجہ سے تاجروں کو اور صنعتکارں کو نئی نئی منڈیاں مل جاتی ہیں تو سرمایہ داری کو ایک اور طاقت مل جاتی ہے جس کی وجہ سے دولت چند محدود ہاتھوں تک محدود رہتی ہے جس کی وجہ سے قوت خرید کم ہوتی ہے اور ملکی منڈیوں صنعتی پیداوار کی مانگ کم ہوتی ہے اور نوآبادیات کی منڈیاں اس کے لیے عمدہ کمائی کا ذریعہ بن جاتی ہیں”

امپیریلزم نے صرف اور صرف سرمایہ دار طبقہ کو فائدہ پہنچایا ہامسن اپنی کتاب “امپیریلزم ایک مطالعہ “میں زکر کرتے ہیں کہ امپیریلزم نے ہمیشہ ایک اقلیت کو فائدہ دیا جس میں فوج، شاہی نوکر اور سرمایہ دار طبقہ شامل ہوتا اور یہی طبقہ عوام کو مختلف جواز پیش کرکے اپنے مفادات کو چھپاتا رہا اور اس طبقہ نے عوام میں اپنے جوازات کو اس قدر مستحکم بنایا کہ اگر کسی کا قتل کیا جاتا یا کسی کو زندانوں میں قید کیا جاتا تو عوام کے سامنے اخلاقی جوازات کے پردے کو ہوا کے بڑے بڑے جھونکے نہ اٹھا پاتے۔

اسی طرح امریکہ کو دیکھا جائے جو نو آبادیاتی ملکوں کی آزاددی کی بات کرتا تھا دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی ملکوں کو مالی حالات سے کمزور دیکھ کر اس بات کا فائدہ اٹھایا اور امپیریلزم پہ کام شروع کردیا اور اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے امپیریلزم کو نوآبادیاتی نظام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اور یہی ممالک مقبوضہ جات علاقوں میں ایسے منصوبے شروع کرواتے جن سے ان کے مفادات وابستہ ہوتے ان کی سرمایہ کاری ہوتی۔ مثلاََ تیسری دنیا میں اسلحہ جیسی فیکٹریوں کا قیام جس میں عوام کے مفادات بلکل بھی نہیں اور پھر ولڈبینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے جکڑ لیتے ہیں جس میں خارجی و دفاعی پالیساں ساری ان اداروں کے نیچے کام کرتی ہیں۔

آج اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو دیکھا جاسکتا ہے بلوچستان کو امپیلریل ایجنٹوں نے کن کن جوازات کا رنگ دے کر لوٹا اور لوٹنے کے ارادے کو مدنظر رکھ کہ کن اخلاقی جوازات کو پیش کیا۔ جس میں سی پیک، سیندک اور آج ریکوڈک کا لوٹنے کی منصوبہ سازی کو جاری رکھا ہے سی پیک کے روڈوں جیسے اخلاقی جواز کو سامنے رکھ کہ پورا سمندر کو لوٹا جارہا ہے اسی کے ریکوڈک کو 25% سونے جیسا رنگ دے کر سامنے رکھا جارہا ہے جس کا عام عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ سوئی جیسے معاہدات بھی آج تک اپنے حقیقی حقداروں تک نہیں پہنیچے تو ریکوڈک کیا پنہچے گا۔ تو اگر دیکھا جائے امپیریلزم نے بلوچستان کو ہر موڑ پہ جکڑ کر رکھا ہے اسی لیے آج بلوچستان کے ہر بچے کو سیاست اور سْیاسی اصطلاحات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ تاکہ وہ جان لیں کس طرح ان کے محکوم وطن کو عالمی سامراج اپنے مقامی گماشتوں کے ذریعے لہو لہان کر کے لوٹ رہے ہیں۔ وطن کی محکومی اور قومی بدحالی کو سمجھنے کےلیے کالونیٸل طاقتوں کے ورکنگ نظام اور لوٹ کھسوٹ کے مکینزم کو سمجھنا ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.