بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن شال زون کی جانب سے جامعہ بلوچستان میں “قومی سوال طبقاتی سوال کے تناظر میں” کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل منعقد کیا گیا

رپورٹ: پریس سیکریٹری بی ایس او شال زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون کی جانب سے 20 نومبر بروز منگل بمقام جامعہ بلوچستان میں “قومی سوال طبقاتی سوال کے تناظر میں” کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل منعقد کیا گیا، جس پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون کے صدر ظہور بلوچ نے لیڈ آف دی جبکہ صدارت زونل صدر نے کی اور سرکل کی کارروائی زونل یونٹ سیکریٹری میر وائس بلوچ نے چلائی۔

سنگت نے طبقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی سماج میں طبقات نہ ہمیشہ موجود تھے اور نہ ہی ہمیشہ موجود رہیں گے یہ سماج کے ایک خاص دور میں ابھرے اور ایک خاص تاریخی دور میں ختم ہونگے ۔ انسانی سماج کے ابتدائی زمانے میں سماجی ڈھانچے مشترکہ ملکیت اور جدوجہد پر قائم تھے۔اس زمانے میں پیداواری قوتیں ترقی یافتہ نہ تھیں اور نہ ہی تقسیم محنت اتنی مشکل تھی اور نہ ہی معاشی اور سماجی ضروریات زیادہ تھیں انسان اپنی بقا کےلیے سرگرمیاں اور اس زمانے کے مادی حالات پر عمل کرتے ہیں اور ان کے عمل سے دو چیزیں پیدا ہوں گی ایک پیداوار اور دوسرا ان حالات اور لوگوں کے درمیان ان سرگرمیوں کے مابین ایک دوسرے کے ساتھ رشتے جنہیں مارکس اور اینگلز نے پیداواری رشتہ کہا ہے “

ابتدائی سماج میں لوگوں کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ان کی ضروریات میں بھی اضافہ ہوگیا اور ان ضروریات کو پوری کرنے کےلیے پیداواری قوتوں کو فروغ دینا پڑا اور ان کے ساتھ معاشرے میں تقسیم محنت جنم دیا ۔ سماجی نظام میں پیداواری قوتوں کی ترقی اور ان کے نتیجے میں تقسیم کی سادہ سے پیچیدگی اختیار کرنے سے پیداواری رشتوں اور پیداواری قوتوں کے تضادات کے نتیجے میں معاشرہ طبقات میں بٹ گیا۔ 

قومی سوال کو تاریخی پس منظر میں دیکھنے پہ معلوم ہوگا کہ قومی سوال قرونِ وسطی کا مسئلہ ہے ابھرتے سرمایہ داری نے جب قومی زندگی کے اسباب مہیا کیے تو قومی تحاریک نے جنم لینا شروع کیا ۔ ان تحریکوں کا بنیادی مقصد جاگیرداریت کا خاتمہ اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ قومی ریاستوں کا قیام تھا ۔جاگیرداریت کے آخری دور اور سرمایہ دارانہ ریاستیں منظم ہونے سے سرمایہ دارانہ طرز پیداوار اپنے ساتھ کئی دوسری تبدیلیاں بھی لائیں تو قومی سوال کی ماہیت اور شکل بھی تبدیل ہوئی ۔جب استحصال کرنے والے اور استحصال کا شکار ہونے والے طبقات کے درمیان تضادات بڑھتے گئے تو قومی تحریکوں کا ہدف استحصال اور استحصال کے پورے نظام کے خلاف آزاد اور خودمختار ریاستوں کا قیام بن گیا۔ 

قومی آزادی کی تحریکات ہمیشہ  قومی سوال حل کرنے کے موثر ہتھیار اور ذرائع ہیں مارکس اور لینن کے مطابق قومی سوال کو تاریخی حقائق کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور قومی سوال کا حل اولین و اہم تر سوالوں کا حل ہے، مسئلہ قومی جبر و نابرابری کا خاتمہ ، قومی نشوونما اور تشکیل کی راہ میں رکاوٹوں کا خاتمہ ، قوموں کے درمیان باہمی تعاون ، یکجہتی ، سماجی ترقی کی راہ میں بندشوں کا خاتمہ وغیرہ یہ مشکلات قومی سوال کے حل کے ساتھ ختم ہوں گی ۔

دوسری کمیونسٹ انٹرنیشنل اور لینن ازم کے درمیان قومی سوال کو کھوکھلے انداز میں پیش کرنے پر ایک نظریاتی خلیج موجود رہی ہے۔ دوسری کمیونسٹ انٹرنیشنل کے لیڈر جب قومی محکومی کے حوالے سے قومی سوال کی بات کرتے تھے تو ان کی مراد قومی ثقافت یا ثقافتی خودمختاری ہوتی تھی لینن ازم سے پہلے قومی حق خودارادیت کو غلط انداز میں بیان کیا گیا تھا اور اس سے مراد صرف خودمختار ریاستوں کی تشکیل تھی جس سے اس کی ماہیت کو محدود اور تنگ کیا گیا تھا اس طرح حق خودارادیت جبری الحاق کے خلاف ایک آلہ ہونے کے بجائے جبری الحاق کو حق بجانب قرار دینے کا ذریعہ بن گیا ۔

لینن نے اس الجھے ہوئے مسئلے کی واضح تشریح کی اور کہا کہ قومی حق خودارادیت کا مطلب ہے وہ بنیادی اور انسانی حق جو مظلوم ،محکوم اور نوآبادیاتی جبر و استحصال کی شکار اقوام کو اپنی تقدیر کا تعین کرنے کے لیے دیا جائِے ، یعنی حق علیحدگی ۔ان کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے سیاسی و معاشی راستوں کا خود تعین کریں ۔یہ ناقابل تردید وضاحت حق خودارادیت کو جبری الحاق کے حق میں جانے سے روک دیتی ہے اور اس کو جبری الحاق کے خلاف لڑنے کا نعرہ بنا کر قومی جبر و استحصال کے خاتمے میں ایک مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.