ظلم کے خلاف آواز

تحریر سراج بلوچ
شہید سکندر یونیورسٹی بحالی مظاہرہ, خضدار

کچھ تصویریں خاموش رہ کر بھی بہت کچھ کہہ دیتی ہیں. اب مثال لیجئے اس نوجوان کے ہاتھ میں اس پلے کارڈ کا. ہاں ایک یہ تصویر جو آج کے پروٹیسٹ میں میری نظر میں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے. ہاں طلبہ ذندہ ہے بلوچستان کے ہاں وہ الگ بات ہے کے ان کو اکثر جوتی کے نوک پر رکھا جاتا ہے یا ٹارچر سیلوں کی زینت بنا دیے جاتے ہیں

خیر ہمیں فخر ہے ان ساتھیوں پر. وہ بے مثال تھے. آج بھی ان کی آواز کچھ حد تک زندہ ہے جیسے آج کے اس عظیم پروٹیسٹ میں ہمارے کچھ کامریڈ ساتھی بغیر کسی خوف کے ان ستم گر ظالموں کو اپنے خوبصورت اور انقلابی آواز میں اپنے وجود رکھنے کی خبر بڑے شور اور حوصلے کے ساتھ دے رہے تھے جو بہت اچھی خبر ہے. ہاں زندہ ہے طالب اس ہجوم کی کچھ نعرے جو پورے شہر کو خوفزدہ کر رہے تھے. معذرت, خوف سے میری مراد اس شہر میں جب جب حق کے لیے آواز بلند کر دیا جاتا تھا تو کچھ حضرات اس ہجوم سے خوف زدہ ہو کر اس ہجوم کو ختم کرنے کے لیے ہر عملی اقدام کرتے تھے. جس سے نقصان ہمیشہ عام غریب عوام الناس کو ہو جاتا تھا اور کامریڈ طلبہ جو ان کے ہمیشہ ٹاپ لسٹ میں ہوتے تھے وہ ہمیشہ ازیت خانوں کے مزے چک کر آتے تھے تو کبھی سالوں سال لاپتہ… ہاں وہی لاپتہ جن کے لواحقین پچھلے ١٠،١۵ سالوں سے ان کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جناب اس قدر کسی اپنے کو اس فانی دنیا سے رخصت ہونے سے صدمہ نہیں لگتا جتنا کہ کسی اپنے کو کوئی ہمارے سامنے سے اٹھا کر اپنے ازیت خانوں میں رکھ لے اور اس درد سے ہم بلوچ اچھی طرح واقف ہیں. ہر گھر میں یہی ماتم ہے.
معزرت میں یہاں کسی تصویر کو لے کر اپنا تحریر مختصر کرنا چاہتا تھا لیکن واقعات کاٹم لٹک ہو کر لمبے ہوتے گئے. کاٹم لٹک الفاظ میں اپنے مادری زبان سے لے رہا ہوں جوکہ میرے ہم زبان بہتر جانتے ہیں
خیر, اب میں واپس موضوع پر آتا ہوں کہ ایک یہ تصویر اور ایک جو کچھ عرصہ پہلے لگایا گیا تھا ہر کھنبے کے ساتھ قوم کو یقین دلانے کے لیے کے قوم کا ہیرو اور سرچشمہ یہی صاحب ہے. اب وہ ہے یا نہیں میرا موضوع یہ نہیں بلکہ ہمیں بلوچستان کے صورتحال کا جائزہ لینا ہوگا کے کس نے کس طرح اور کیوں ہمارے نوجوان نسل میں منشیات عام کردی

آج یہ جو پلے کارڈ اس تعلیم دوست نوجوان کے ہاتھ میں ہے وہ اس نوجوان کے ساتھ زیب تو کرتا ہے لیکن کیا یہ ہمارے حکومت کی جانب سے کسی سیمینار یا جلسہ جلوس جن میں وہ ماہر ہیں وہاں اپنے ہاتھ میں کم از کم تھام لیتے یا ایک بار بھی یا اُس قومی ہیرو کی تصویر کی طرح کسی کھنبے سے لٹکا دیتے شاید سادہ دل رکھنے والا عام عوام اس چیز کو سمجھتا. لو اب آپ کہیں گے کہ اس جناب کا عقل دیکھو جس سے گلہ کر رہا ہے زخم کھانے کے اُسی سے مرہم پٹی کروانا چاہتا ہے

چلو بھائی یہ تو میری کم عقلی ہی سہی لیکن ہمارے قومی لیڈر قوم پرست پارٹی والے حضرات جن کا یہ شہر ہے وہ تو شعور کی خاطر کیا کچھ نہیں کر سکتے پھر وہ کیوں خاموش ہیں. ہاں وہ آپ کے اس ہجوم میں آئینگے آپ کو حوصلہ دینے اور اس ہجوم کو برف کی طرح ٹھنڈا کرنے کے لیے جس میں وہ ماہر ہے. بلکہ یوں سمجھیں کہ یہ ان کا پیشہ ہے. معذرت میں کسی کو دکھ نہیں پہنچانا چاہتا لیکن حقیقت یہی ہے جس کو ہمیں جلدی سمجھنا ہوگا.
جس طرح آج پھر مدتوں بعد طالب علم جاگ اٹھے ہیں خدا کے لیے اپنی آنکھیں پھر سے بند نہ کریں. خود میں حوصلہ اور اتحاد پیدا کریں. اسی میں ہماری کامیابی ہے. اب ہم ہی قوم کے سرمایہ ہیں. یا تو ہم لوٹیروں کے ہاتھ میں خود کو اور عوام کو دے دیں یا پھر آپس میں اتحاد پیدا کر کے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں. اپنے قلم سے قانونی طور پر اپنا حق مانگنا سیکھ لیں. نہیں تو پھر یوں ہی ایک دوسرے سے نظریاتی اختلاف رکھ کر الگ الگ تنظیم بنا کر روتے رہیں گے


اتحاد ہی اس ظلم کو جڑ سے اکھاڑ کر باہر پھینک سکتاہے ایک دوسرے سے علمی حوالے سے مدد لینے میں مدد دے سکتا ہے اتحاد ہی اس کرپٹ بے بنیاد سسٹم سے نجات دلانے والا فارمولہ ہے. یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا ہمیں حقیقت کے کامریڈ ،ماما اور چیرمین وغیرہ وغیرہ بننا ہوگا
آج اٹھ گئے ہیں تو ہر مسئلے کے لیے آواز بلند کرنا ہوگا. ہر مظلوم کے ساتھ مل کر اٹھنا ہوگا یہی مفید ہے اور یہی بلوچیت ہے
وسلام

Leave a Reply

Your email address will not be published.