وطن کا دیوانہ گلزار تمہارا وطن گلِ گلزار ہو

تحریر: فرید مینگل

بلوچ وطن اس وقت بلوچ کےلیے نَرگ بنا دیا جا چکا ہے، بلوچ کے وطن سے خبر گمشدہ ہے، وساٸل مقبوضہ ہیں، سیاست قدوس و سرفراز زدہ ہے، سمندر ٹرالر زدہ ہے، شہر چوکی زدہ ہیں، شاہراہیں قتل گاہ بن چکی ہیں، آزادی اظہار پر فقط ھامنہ مَلکوں کا قبضہ ہے، علاقے قاتل لٹیروں میں بانٹ دیے جا چکے ہیں، کاروبار ٹوکن زدہ و بھتہ زدہ کیے جا چکے ہیں، جرگہ و انصاف ڈیتھ اسکواڈوں کی جھولیوں میں جھونکے جاچکے ہیں، تعلیم پر ہر جگہ ہر کہیں جاوید اقبال جیسے درندے مسلط ہیں اور بلوچ نوجوان ویگو ڈالوں کی وہشت و دہشت کا شکار بنا دیے جا چکے ہیں۔

ایسے میں اس محکوم قوم کی امید سیاسی جماعتوں کو بننا تھا مگر وہ تو قدوس بزنجووں اور سرفرازوں کا ماتھا چوم کر وکٹری کا نشان بنانے میں مصروف ہیں۔ رہبروں کو قوم کے بیچ رہ کر عوام کا ہمت و حوصلہ بڑھانا تھا مگر وہ ٹھیکوں، کمیشنوں، ترقیوں اور نوکریوں پر لڑنے جھگڑنے میں مصروف ہیں۔ اگر یہاں بھی وقت کہیں بچ پاتا ہے تو رہبران اپنے رایلٹی، لیز و کاروبار کے قصے نمٹا دیتے ہیں۔

اس سارے معمے میں ایک مخلوق درپہ در خاکسر ہے، اس سارے قصے میں بلوچ بزگ ہے، بلوچ گمنام ہے، بلوچ پریشان حال ہے۔ وہ ہر در و دروازہ کھٹکھٹا کر اب تھک چکا ہے، اسے نام نہاد رہبروں کے جھوٹ پر اب اعتبار نہیں، بلوچ اب لمبی و جذباتی تقریروں سے مطمٸن نہیں ہو رہا۔ اس کے بنیادی انسانی حقوق تک میسر نہیں، اسے درندے ریوڑ کی شکل دے کر ھانکنے کی ناکام و لاحاصل کوشش میں کوشاں ہیں۔

مگر بلوچ کو کون کب تک ھانک سکتا ہے، بلوچ کو سکندر نے ھانکنے کی کوشش کی تو وہ خود فارس میں ھانپتے کانپتے مرگیا، میر سندان نے ایسی حربہ آزماٸی کی تو شاہ لطیف کی جیجا سسٸی بلوچ کے حصے میں آ گٸی، عربوں نے تلوار زنی کی تو پیارا نام ”پنجگور“ نشان عبرت بنا، مغلوں نے زور آزماٸی کی تو کامران مغل ڈڈکی (ریت و آٹے کی آمیزش سے بنایا گیا سخت پتھر نما پھیڑوں) کی نظر ہوگیا، انگریز نے آستین چڑھاٸے تو لالین شہید محراب خان بہشت کا مہمان بنا، نورا مینگل راب راٸے بنا۔ سرداروں نے کوشش کی تو ان کا مقدر میر یوسف عزیز مگسی نے کچھ اس طرح بتایا ” ان سرداروں کو کچلنا چاہیے، ان سے اب سدھرنے کی امید فضول ہے۔“

غاصب کو جب بلوچ کو ھانکنے میں بلوچ کی شدید مزاحمت کا سامنا ہوا تو اس نے چوروں اچکوں کی روپ دھار لی اور بلوچ کو اچکنا شروع کیا۔ اس وقت ھزاروں بلوچ فرزند ان درندوں نے اچک کر لاپتہ کردیے ہیں، سیکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی ہیں، ھزاروں کو عقوبت خانوں انسانیت سوز اذیتیں دے کر باہر ویرانوں میں مرنے کے واسطے پھینک دیا گیا ہے۔

اس تمام تر جبر و بربریت میں بلوچ کے ویگو والے تقریری و فرماٸشی رہبر و نماٸندے خود ساختہ طور پر لاپتہ ہیں۔ وہ فقط برساتی مینڈک کی طرح الیکشن کے وقت یا پھر سینیٹ و بجٹ کے وقت چیخ و پکار کر کے اپنی قیمتیں بڑھانے سامنے آتے ہیں ورنہ سال بھر ان کا مشغلہ قدوسی و جامی رہتا ہے۔

جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقیں رو رو کر اپنے آنسو خشک کر چکے ہیں، ماما قدیر اب جسمانی طورپر ضعیف و ناتواں ہو چکا ہے، فرزانہ مجید تھک ہار کر مایوس ہو چکی ہے۔ سیما و گودی سِمی کمیشنوں، کیمپوں کے چکر کاٹ کاٹ کر اب عادی ہو چکے ہیں۔ مگر کوٸی شنواٸی نہیں، کوٸی پرسانِ حال نہیں، جبر و اذیت ہے کہ کم نہیں ہوتا، ماٸیں ہیں کہ انہیں تسلی نہیں ملتی، حفیظ بلوچ کی بہنیں اب بھی اپنے بھاٸی کا راستہ تکتی ہیں۔ مگر جو ان درندوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا ساتھ بھی دے تو وہ سبین محمود کی طرح شہید کر دیا جاتا ہے، باہمت و دلیر لڑکی ایمان مزاری کی طرح ہراساں کیا جاتا ہے، اگر وہ بدقسمتی سے بلوچ ہو تو پھر حفیظ بلوچ کی طرح لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔

ایسی صورتحال میں جہاں سیاسی جماعتوں، نامور قباٸلی سیاسی سرداروں، سنڈیمنی نوابوں کو بھی کچھ کہنے و کرنے کی جرأت نہ ہو ایسے میں یہ جان کر کہ میرا مقدر میرے غاصب حاکم نے لکھ ڈالی ہوگی تب بھی ہمارا گلزار بول پڑا ہے۔ کامریڈ گلزار کے قدم مرید کے پاک پوتر اشعار ہیں، کریمہ بلوچ کی انقلابی تقاریر ہیں، گلزار کے قدم ہمارے نجات کی سیڑھیاں ہیں۔ اس کے قدم لاپتہ افراد کی بازیابی کےلیے ہیں، ماٶں کے جگر ٹکڑوں کی واپسی کےلیے ہیں، گودی سِمی کی حوصلہ افزاٸی کےلیے ہیں، ماما قدیر کو امید بخشنے کےلیے ہیں۔

آٸیں وطن کے دیوانے، اس گلزار کا ہم ساتھ دیں، اس کی راہ میں پھول نچھاور کریں، اس کے پاک پوتر و لہوں لہان قدموں کو بوسہ دیں، انہیں پلکوں پر رکھیں، کیونکہ میرے گلزار کے قدم مبارک میرے وطن کو گل و گلزار بنانے میں مددگار و معاون ہونگے، اس کے قدم میرے ذاکر مجید و حفیظ بلوچ کی نجات کا سبب بنیں گے۔ حفیظ کی بہنوں کے چہروں سے غاٸب مسکان کو واپس لوٹاٸیں گے۔ مجھے آپ کو ہر بلوچ کو ایک نٸی ہمت نیا حوصلہ دیں گے اور سب سے بڑھ کر بلوچ کے حصے میں ایک اور مزاحمت اور لانگ مارچ لے آٸیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.