حب شہر کی بکھری ہوئی اینٹیں

تحریر: احسان بلوچ 

حب بلوچستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جس میں کئ ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں اور انڑسٹریاں ملکی معشیت کے پہیے کو گھمانے کے تگ و دو میں شامل ہیں ۔لیکن وائے شومئی قسمت کے حب کی حالت قابل ترس ہے ۔
مجھے حب سٹی کی حالات زار پہ رونا آتا ہے۔ اتنے پروجیکٹس کے آپریشنل ہونے کے باوجود حب کے لوکل رہائشیوں کو کوئی سہولیات فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں اور نا ہی وہاں کے ایجوکیشنل اداروں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اتنی بڑی سٹی جس کی آبادی 2017 کے مردم شماری کے مطابق 175,376 ہے بدقسمتی دیکھیے کہ اتنی آبادی کے باوجود بھی آج وہاں پہ نا کوئی یونیورسٹی ہے نا کوئی لائبریری۔ اور جب آپ حب شہر میں داخل ہو جاتے ہیں تو اسکی انفراسٹرکچر کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ اکیسویں صدی میں کسی ملک کی انڈسٹریل سٹی ہے۔ بنیادی سہولیات سے محروم یہ شہر دن بہ دن اپنا وجود کھو رہی ہے. یہاں کے باسی محنت کش عوام چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں یا تو پھر اپنی جان کا بازی ہار دیتے ہیں۔
حب کی ٹھوٹی پھوٹی سڑکیں اور کھلی سیوریج گٹر نالے کسی تباہ حال شہر کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
بمباری سے لت پت پرانا جرمنی جیسے کوئی بھی دوبارہ تعمیر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ یہ پاکستان کا وہ جرمن شہر ہے جس کی اینٹیں کئی سالوں سے دور تک بکھری ہوئی ہیں نا کوئی روڈ ہے نا کوئی ٹریفک اور نا ہی کوئی پارکنگ سسٹم ہے۔ پھر بھی بھوتانی زندہ باد کے اور جئے جام کے نعرے لگائے گھومتے ہیں۔

ویسے تو کہتے ہیں کہ حب چوکی بلوچستان کا سب سے بڑا انڈسٹریل شہر ہے اور پاکستان کے مجموعی ملکی پیداوار میں بھرپور شرکت کر رہا ہے۔ لیکن بد قسمتی تو دیکھو کہ اتنے فیکٹریوں، انڈسٹریز اور کمپنیوں کے ہونے کے باوجود نا حب چوکی میں روڈ ہے، نہ کہ وہاں کے سکولوں اور کالجوں میں کوئی مواقع فراہم کیا جا رہا ہے۔ وہ ساری باتیں تو خیر کی ہیں لیکن تاریخ کی ستم ظریفی تو دیکھ لیجیئے کہ 72 سال کے دورانیہ میں لسبیلہ میں جام فیملی سے تین وزراء اعلی کے منصب پہ آئیں لیکن ان تین وزرائے اعلی کی دورانیہ حکومت کی کوئی جھلک حب سٹی میں نظر آنے کو نہیں ملتی۔ آج تک کسی بھی عوامی نمائندے نے حب کے لیے کوئی ترقیاتی کام کرنے کی نہ زحمت کی ہے اور نہ اس طرف کوئی توجہ دی ہے۔

حب شہر میں بہت سی کمپنیاں اور انڈسٹریز آپریٹ کر رہے ہیں۔ قانونی طور پر ان کمپنیوں اور انڈسٹریز کو کچھ قانونی شرائط اور فرائض سرانجام دینے پڑتے ہیں کہ وہ جس علاقے میں یا سوسائٹی میں اپنے آپریشنز چلا رہے ہیں تو لازمی ہے کہ وہ اسی شہر کے لوگوں کے لیے نوکری کے مواقع فراہم کریں، ان کو بیرونی اسکالرشپ مہیا کریں۔ لیکن یہاں پہ بہت کم ایسے کمپنیاں ہیں جو سی ایس آر پہ کام کر رہے ہیں۔

  اگر ہم ایک نظر حب سٹی پر ڈالیں تو ہمیں مایوسی اور احساس کمتری کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم اپنی نظریں حب شہر پر دوڑائیں تو لگتا ہے جیسے جنگ عظیم اول کے اختتام پر 11 نومبر 1918 میں اور جنگ عظیم دوم کے آخری وقت 2 ستمبر 1945 میں روسی، برطانوی اور فرانسیسی توپ خانوں سے نکلی ہوئی توپیں جرمنی کے شہر برلن, میونخ اور ہیمبرگ پر گری ہوں اور جرمنی کے گنجان آباد علاقے پتھر کے دور میں چلے گئے۔ آج حب سٹی کے انفراسٹرکچر کے حالات جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کے دورانیے کے جرمنی سے زیادہ فرق نہیں رکھتا۔
حب کراچی شہر سے قربت کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل شہر ہے لیکن یہاں کے نمائیندوں کی عدم توجہی اور کرپشن کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کی زندگیاں اجیرن ہو گئی ہیں. حب وادی کے مکین کسی مسیحا کی انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب کوئی مسیحا آئے اور ان کی زندگیوں میں رونق لائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.