گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج, حب کا حال بے حال

تحریر: لالا ماجد 

انسان کو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لئے اس کی بنیادی ضروریات درکار ہوتی ہیں۔ اگر بنیادی حق ملے تو زندگی خوبصورت لگنے لگتی ہے اور نا ملے تو غربت جنم لیتی ہے۔ بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جسے سازشوں کے تحت اس کے بنیادی سہولیات سے ہمیشہ محروم رکھا گیا ہے۔ اور ان محرومیوں سے نکلنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے علم حاصل کرنا جو صوبے کے لوگوں نے بخوبی حاصل کرنا چاہا۔ صوبے میں ہر جگہ تعلیمی ادارے تو قائم کیے گئے مگر ان تعلیمی اداروں میں طلباء کے جو بنیادی حق ہیں وہ بلوچستان کے طلباء کو کبھی بھی نہیں ملے ہیں۔ جس کی وجہ سے طلباء در در کی ٹھوکریں اور پریشانی کے عالم میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے۔

بلوچستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر حب کراچی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے. جس طرح حب شہر کے دوسرے ادارے کھوکھلے کر دیے گئے ہیں۔ ویسی ہی صورت حال یہاں کے تعلیمی اداروں کی بھی ہے جس کی ایک بڑی مثال گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کا ہے۔
گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج حب جہاں ایک تیر سے دو شکار کیے جاتے ہیں۔ جہاں صبح کے وقت گورنمنٹ ہائی اسکول اور شام کے وقت گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج بن جاتا ہے۔ تو اس بات کا فیصلہ کرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ادارہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول ہے یا گرلز ڈگری کالج ہے۔
جس طرح اس ادارے میں بنیادی سہولتوں کا فقدان پایا جاتا ہے, شاید کچھ ہی عرصے میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج حب کے طلبہ اپنے حقوق کے لیے بولان میڈیکل کالج اور یونیورسٹی آف بلوچستان کے طلباء کی طرح سڑکوں پر نظر آئینگے۔

حب شہر کا یہ واحد گرلز کالج ہے جہاں حب شہر کے مختلف علاقوں سے لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں مگر ایک کالج میں جب سہولتیں نہ ہوں تو وہاں تعلیم حاصل کرنے میں بھی کئی دشواریاں پیش آتی ہیں۔
گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج میں کلاسز نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں ایک کلاس میں تیس اسٹوڈنٹس کے بیٹھنے کی گنجائش ہے وہاں پچاس سے ساٹھ اسٹوڈنٹس کو بٹھایا جاتا ہے. یا تو کچھ اسٹوڈنٹس کلاس کے اندر بیٹھ کر لیکچر سنتے ہیں اور کچھ اسٹوڈنٹس کو کلاس کے باہر بٹھا کر لیکچر سننے کی سعادت نصیب ہوتی ہے جوکہ اصل میں ایک بہت بڑی زحمت ہے۔

ایک کالج میں لیبارٹری کا ہونا بے حد ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ لیبارٹری ہی ہے جہاں پریکٹیکل ورک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انتظامیہ نے آج تک یہ ضروری نہیں سمجھا کہ طلباء کے لئے ایک لیبارٹری قائم کیا جائے۔ جہاں سے طلباء فائدہ حاصل کر سکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ طلباء کو پینے کا پانی تک میسر نہیں جو یقینا انتظامیہ کے لیے باعث شرمندگی ہی ہے۔
صبح کے وقت پرائیوٹ سکولز میں ٹیچنگ کرنے کے بعد جب یہ بچیاں دو بجے اپنے کالج کا رُخ کرتی ہیں تو کالج میں کینٹین کی سہولت نہ ہونے کے باعث طلباء کو سخت مشکل کا سامنا بھی ہے۔ کیوں کہ خالی پیٹ کے ساتھ پڑھنا مشکل ہی ہو جاتا ہے۔

گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج حب کے لیے ایک نئی عمارت کی تعمیراتی کام کا آغاز ایک شمشان گھاٹ کے پاس کافی عرصے سے جاری ہے۔ شہر سے دور ہونے کے سبب اگر کالج کے لیے شہر کے اندر ہی کوئی جگہ مخصوص کر دیا جاتا تو شاید طلباء کے لئے آسانی ہوتی کیوں کہ ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے شہر سے دور جانا ایک لڑکی کے لیے ہرگز آسان نہیں ہے۔

بیان کئے گئے ان مسئلوں کا حل گورنمنٹ کے لیے یقیناً کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ضرورتیں طلباء کے وہ بنیادی حق ہیں جو طلباء کو بھی خوش کر دیتے ہیں اور ادارے کی خوبصورتی میں بھی بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب فیوریٹزم کا اس ادارے سے خاتمہ ہوگا۔ باقی نرم لہجے اختیار کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے بلکہ کام کرنے سے ہی ہوتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.