اٹھاروین ترمیم: آگ کے ساتھ کھلواڑ

تحریر: آئی اے رحمان
انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر اسٹیبلشمنٹ کا حملہ کوئی نیا نہیں۔ یہ حکمران طبقے کی جانب سے بہت ہی طاقتور مرکزیت پسند طرزِ حکومت کو پھر سے رائج کرنے کی طویل عرصے سے تلاش کا نتیجہ ہے۔ جس کی آمریت پسند، سول اور فوجی حکمرانوں نے ماضی میں شدید حمایت کی اور جمہوریت پسندوں نے بدستور اس کی مخالفت کی۔

سرکاری ترجمان کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کوئی الہامی دستاویز نہیں کہ جسے چھیڑا نہ جا سکے۔ اس کے برعکس، اس طرح کا دعویٰ کسی نے کیا بھی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ازخود آئین بھی کوئی مقدس دستاویز نہیں ہے لیکن خوش قسمتی سے یہ ایک بہترین اتفاقِ رائے پیش کرتا ہے جسے کسی چھوٹے عامیانہ و ظالمانہ و ہم و خیال کے ساتھ رد نہیں کیا جا سکتا۔ اٹھارویں ترمیم کے متعلق بھی یہی سچائی ہے۔

اس آئینی ترمیم کی اہمیت کچھ اس طرح ہے کہ یہ پاکستان کو فیڈریشن بنانے کی پہلی کاوش ہے جس کی خواہش قراردادِ لاہور پیش کرنے کے دن کی گئی تھی۔ ترمیم پر اتفاقِ رائے وفاق پرستوں اور مضبوط مرکزیت پسندی کے وکلا کے درمیان ایک مفاہمتی سمجھوتہ تھا۔ مزید براں جنرل ضیائی ذہنیت رکھنے والوں اور مذہبی جماعتوں نے دیکھا کہ جنرل ضیا کی تمام تر تحریفوں کو منسوخ نہیں کیا گیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے بہت سے اراکین کا مؤقف ریکارڈ پر ہے۔

چنانچہ وفاقی کردار کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کے کسی بھی قدم کو جمہوریت پسندوں کی جانب سے خوش آئند قرار دینا چاہیے۔ مگر اٹھارویں ترمیم کو بدنام کرنے والے یہی تو نہیں چاہتے۔۔! وہ تو وفاقی اکائیوں کو معاشی و انتظامی حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ بالخصوص اس ترمیم کے ذریعے ایک دہائی قبل کے این ایف سی ایوارڈ کے تحت انھیں جو معاشی فوائد حاصل ہیں، ان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ پھر سے قبل از 2010 کے تمام اختیارات مرکز کو سونپنے کے عمل کو وہ ضروری سمجھتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کا نقطہ نظر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ کہہ کر مبہم طور پر رکھا کہ صوبوں کو وفاق کے ساتھ بیٹھ کر اپنے رشتے پر نظرِثانی کرنا ہوگی۔ ایک اور اہم وزیر اسد عمر نے دو نقاط رکھے؛ اول، اس نے یہ دعویٰ کیا ہر کسی کو احساس ہوا ہے کہ اگر وفاق کمزور ہوتا ہے تو پھر اس کا نقصان صوبوں کو بھی ہوگا۔ مطلب یہ کہ صوبوں کو اپنے ہی مفاد کے لیے طاقتور مرکز کو پھر سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نے دوسری دلیل یہ دی کہ مرکزیت کو کمزور کر کے بلدیاتی سطح پر اختیارات کی منتقلی میں ناکامی پر اٹھارویں ترمیم پر پھر سے نظرِ ثانی کرنا چاہیے۔ اس طرح کا بیانیہ بہت سوں کو ایوب خان کے طاقتور و بااختیار مرکز کے لیے کی جانے والی صدائے باز گشت کی یاد دلائے گا جسے بنیادی جمہوریتوں کی حمایت حاصل تھی۔ اٹھارویں ترمیم کو اس لیے بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت مرکز سے ملنے والے 300 ارب روپے کی منتقلی کو روکا جا سکے۔ اس سے اندازہ لگانا ضروری ہے کہ ماضی میں حکمرانوں کے مضبوط مرکز کے تسلط سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوا ہے۔

1947 سے لےکر 2010 تک قراردادِ لاہور کو رد کر کے پاکستان کو ایک اکائی کے طور پر چلایا گیا۔ وفاقی تعریف کے بطور وفاقی اکائیاں وفاق کے ہم پلہ اور اسے مربوط کرنے والی ہیں نہ کہ اس کے ماتحت یا باجگزار، عصری حکمت و ریاست کے اجنبی جیوگرافی۔ ایک سرکش و گھمنڈی مرکز نے نمائندہ حکومت اور ملک کے ریاستی امور کی تضحیک و توہین کو ایک سینیئر سرکاری افسر نے ”ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج“ میں ایک پریزنٹیشن کے دوران ریاست کی اپنے لوگوں کے ساتھ جنگ کے بطور بیان کیا۔ جیسا کہ عائشہ جلال کہتی ہیں؛ ”خطے کے سیاسی نظام کی قیمت پر مراعاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانا۔“ وفاق نے صوبوں کو 1948 میں دو بار محروم رکھا اور قابلِ اعتراض پالیسیوں کے تحت صوبوں کے وسائل کا استحصال جاری رکھا۔ جس کا نتیجہ ناقابلِ تلافی طور پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا اور مغربی حصے میں صوبائی خودمختاری کے لیے طویل ترین جدوجہد جمہوریت کی منتقلی مرکزی مدعا بنا۔

مرکزی ایجنڈے کو ظالمانہ طور پر صوبوں پر تھوپے جانے کا ایک اور بہت بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ صوبوں کے معاملات کی جمہوری ترقی میں سخت رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ یہ رکاوٹیں آج بھی قابلِ دید ہیں۔

اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ 2010 میں پاکستان کو حقیقی فیڈریشن میں بدلنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات تھے۔ ان اقدامات کے غیرمعمولی پن کو پارلیمنٹ میں مختلف گروہوں کی جانب سے آپسی مفاہمتی عمل کے تحت سراہا اور تسلیم کیا گیا۔

مگر وفاقی بدنیتی کے سبب ترمیم کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جا سکا۔ عدم مرکزیت کا عمل مرکزی حکام کی جانب سے روکا گیا جنھوں نے بطور وفاقی اکائی صوبوں کے بااختیار ہونے اور معاشی خودمختاری کو کبھی قبول نہیں کیا۔ وسائل کو باقاعدہ طور پر مرکز کی عیاشیوں اور فضول خرچیوں کے لیے استعمال میں لایا گیا۔

جہاں تک بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کی بات ہے تو اس کا اٹھارویں ترمیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ وہی مشہور حیلہ ہے جسے تمام تر فوجی آمروں نے منتخب طاقتوں کو مرکزی اور صوبائی سطح پر روندنے کے لیے استعمال کیا۔ عدم مرکزیت کا عمل نیچے صوبوں کو منتقل کرنے کے لیے صوبائی قانون سازی کے تحت دیکھا جا سکتا ہے جو کہ دو دہائی قبل کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے اختیار میں اس وقت تین صوبے ہیں؛ اب ہم دیکھیں گے کہ وہ بلدیاتی اداروں کو کتنا اختیار دیتے ہیں۔

پاکستان کے لیے اٹھارویں ترمیم پر مباحثے کو اس وقت تک مؤخر کرنا بہتر ہوگا جب تک ریاست کی وفاقی بنیادیں وسیع و مضبوط نہ ہوں۔ تاہم، اسٹیبلشمنٹ کی اپنی خواہشات کے حصول کے لیے ایک کمزور و ناتواں حزبِ اختلاف کو ساتھ ملانے کی غیرمعمولی کاوشیں ممکنہ طور پر ملک کو اس کے وفاقیت کے اصول سے دور کر سکتی ہیں۔ اس کا نتیجہ فرضی رضاکارانہ طور پر وفاقی اکائیوں کو جبری انتظامات کے تحت ایک اکائی میں بدلنے کی صورت میں سامنے آئے گا جیسا کہ بندوق کی نوک پر جبری شادی ہو۔ یہ عمل ریاستی سالمیت اور یکجہتی کےلیے انتہائی خطرناک ہوگا۔

حکومت اپنا امیج بنانے والوں کو ترقی دیتی رہی ہے۔ شبلی فراز، جنرل عاصم باجوہ اور ایک نئے سرکاری افسر کو ماضی میں پی پی میں رہنے والی سویلین فردوس عاشق اعوان کی جگہ لایا گیا ہے۔ اور نیشنل کمانڈ اور آپریشن سینٹر پر ظفر مرزا اور جنرل افضل ہیں جو جانتے ہیں کہ وہ کس متعلق گفتگو کر رہے ہیں۔ ان تمام کو ہر معاملے کے وزیر اسد عمر کی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ ایسی تبدیلیاں کسی بھی حکومت کے لیے نیک شگون نہیں سمجھی جاتیں کیونکہ اس سے سرکاری ذرائع کے بیان پر مشکوک سوالات اٹھتے ہیں جن کا تبصرہ نگار فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اعلیٰ سطح پر امیج بلڈنگ ایوب آمریت کو بھی نہیں بچا پائی۔ اسے 1960 میں ہونے والے ترقی پر فخر تھا۔ ظاہری طور پر تمام تر دولت 22 خاندانوں کے ہاتھ میں تھا اور ماہر امیج ساز الطاف گوہر نے ایک دہائی کی ترقی کی خوشی میں جشن منانے کے انتظامات کیے۔ مگر 1960 کی دہائی کے ختم ہونے سے قبل ایوب خان ہٹ گیا اور 1970 کی دہائی کے اگلے 24 ماہ کے اندر ہی ملک ٹوٹ گیا۔

یہ تحریر مصنف کی اجازت و شکریے کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔ اصل تحریر پڑھنے کے لیے مندرجہ لنک پر کلک کریں۔

بشکریہ: www.dawn.com

Leave a Reply

Your email address will not be published.