بلوچ کی محرومیاں

تحریر: ظاہر لعل

بلوچستان ایشیاء کے جنوب مغرب میں واقع جغرافیائی اعتبار سے اہم اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے جہاں بلوچ قوم ہزاروں سالوں سے مقیم ہے۔

بلوچ سرزمین جہاں بلوچ قوم کیلئے غنیمت اور قدرت کا عظیم تحفہ ہے وہیں یہ دھرتی باعث اذیت بھی بنا دہ گئی ہے کیونکہ ہر لوٹ ماری قوت کی نظر اس سرزمین پر لگی ہوئی ہے اور اس وطن کے دفاع میں بلوچ فرزندان قربانیاں دیکر گلزمین کا دفاع کرتے آ رہے ہیں۔

آج کے جدید عہد کے اندر بھی بلوچ قوم بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ جس سے بلوچ قوم کو محروم رکھا گیا ہے۔ اس سوال کے جواب کو تلاش کرتے ہیں تو عیاں ہو جاتا ہے کہ مقتدر قوتوں کو بلوچ کی زمین سے غرض رہا ہے، بلوچ قوم کو ہمیشہ درگزر کیا جاتا رہا ہے۔

ریاست پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کو تعلیم و صحت کے بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بلوچستان میں 5 سے 16 سال کے 22.8 ملین بچے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ زمہ دار ٹھہرائیں تو کس کو ٹھہرائیں؟ جہاں بلوچ قوم کا اپنی حقوق مانگنا جرم تصور کیا جائے، جہاں ہر بولنے والے افراد کے زبانوں پہ تالے لگائے جائیں، جہاں ہر قلم کار سے قلم چھینا جائے، تو یقیناً مزاحمت جڑ پکڑتی ہے۔

انہی مظالم کے خلاف ماضی میں بھی بلوچ قوم نے اپنی جانوں کے بھی قربانیاں دی ہیں لیکن اپنے بنیادی حقوق مانگنے سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ ایک طرف دیکھیں تو مسلط قوتوں نے نمونہ بنانے والی صنعتیں لگا کر ہر پانچ سال بعد نئے نئے چہرے اسمبلیوں میں بٹانے کا کلچر بنایا ہے جو انہی قوتوں کے اشاروں پہ چل رہے ہیں اور بلوچ قوم کی آواز دبانے کیلئے اپنے مذموم عزائم پورا کررہے ہیں۔

اگر مطالعہ کریں تو کسی بھی ریاست کا دستور قطعاً یہ اجازت نہیں دیتا ہے کہ عوام کے زبانوں کو تالا لگایا جائے اور قلم جیسے انمول زیور کو چھینا جائے لیکن بلوچ قوم 74 سالوں سے ان مظالم سے گزر رہا ہے۔ اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ ملکی عدالتیں عالمی عدالتیں سمیت انسانی حقوق کے عالمی تنظیمیں ان مظالم کیخلاف خاموش ہیں۔

آج کے عہد میں ایک بار پھر قوم سے یہی تقاضا ہو رہا ہے کہ وہ متحد اور منظم ہو کر ایک قوت کی شکل میں اپنے حقوق کا دفاع کریں تو پھر وہ دن دور نہیں ہیکہ تمام جابروں کو شکست دیکر محرومیوں سے نجات حاصل ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.