اک نظر میرے شہر پر

تحریر: سراج بلوچ

دنیا کے ایک نہایت خوبصورت کونے میں موجود وادی نما شہر جو اپنے دلفریب نما جغرافیہ کی وجہ سے بے حد پرکشش و لطف اندوز ہے۔ جہاں ہر طرف وادیاں ، پہاڑیں ، کہکشائیں و آبشار ہیں۔ رونق ایسی کہ جس کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈک محسوس کریں اور اس کی اسی ہی وہیبی خوبصورتی کی وجہ سے سال بارہ مہینے لوگ مختلف جگہوں سے یہاں سیر و تفریح کو آتے ہیں۔

اہمیت کے حامل جغرافیہ ایسی کہ جس پر دنیا بھر کی طاقتیں اپنی نظریں جمائے رکھے ہیں جہاں اونچے اونچے پہاڑ ہیں تو وہیں گوادر کا گہرا سمندر بھی ہے۔ مشہور درے ہیں جو اس شہر کو مختلف علاقوں سے ملاتے ہیں۔

اس شہر کی یہ ناگن جیسی بل کھاتے ہوئے سرمئی پہاڑیں جو معدنیات سے بھرے پڑے ہیں۔ دنیا کی قیمتی معدنیات سونا، چاندی، تانبا ،کرومائیٹ ،گیس و تیل ان پہاڑوں میں کوٹ کوٹ کر بھرے پڑے ہیں جیسے کے قدرت کی خاص مہربانی ہو اس شہر کے باسیوں پر۔

لیکن افسوس کہ یہ خوبصورت جغرافیہ ،بیش بہا قیمتی زمینی ذخائر گوادر کا گہرا سمندر ساٹھ سال سے زائد پورے ملک کو چلانے والا سوئی گیس جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ یہ سب یہاں کے باسیوں کے لیے جہنم کا ایندھن بن چکے ہیں۔ یہ سن کر آپ ضرور حیران ہوں گے لیکن افسوس کہ یہی حقیقت ہے۔

قدرت نے اسے ضرور میرے لیے ایک جنت بنایا ہے لیکن باہر موجود شیطان بھی کہاں قدرت کے قانون کو مانتا ہے وہ تو اس کو حاصل کرنے کے لیے ہمارا خون بہاتا ہے۔ ہمارے نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے کو روزانہ کے معمول پر اٹھاتا ہے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ہمیں تحفتاً عید پر بھیجتا ہے۔ ہمارے ننگ ناموس پر حملہ کرکے ہمارے عزت النفس سے کھلواڑ کرتا ہے۔ انہیں مسنگ پرسنز میں کچھ دو تین سالوں سے تو کچھ وہیں پر ایک عشرے سے زائد لاپتہ ہیں۔

آج جو حسیبہ رو رہی ہے ماہزیب بلک رہی ہے جہانزیب کی ماں رو رو کر بوڑھی ہو چکی ہے اور وہیں سمی جو اپنے والد کی گود میں کھیلتی تھی آج جوان ہو چکی ہے اور سیاہ بادلوں کی طرح گرج کر اپنے انقلابی والد ڈاکٹر دین محمد کی آواز لوگوں کو سنا رہی ہے۔

وہ الگ بات ہے کے شاید اس کو پتہ نہیں کہ یہاں کے لوگ گونگے بہرے ہیں اور ایسے بھی شیطان صفت لوگ ہیں جو خود کو مذہبی لبادہ پہنا کر اس طاقتور کی پشت پناہی کر رہے ہیں جس کے ہاتھ معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جہاں عدل و انصاف فقط طاقتور طبقہ کے لیے ہے۔ جہاں حیات جیسا معصوم نوجوان آٹھ گولیاں لگنے سے اپنی ماں کی نازک گود میں دم توڑ دیتا ہے۔ اسی ریاست کو مدینہ جیسی عظیم ریاست کے القابات سے نوازتے ہیں وہ مدینہ جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے انسان کی عظمت اور اس کی حقوق کی بات کرتے ہیں۔

خیر ہم کہاں ریاست مدینے کی کہانی میں الجھ گئے۔ ہمیں تو آپ قارئین کو اپنا شہر دکھانا تھا۔

کبھی کبھار دل میں خیال آتا ہے کہ کاش میرے اس شہر میں قیمتی بیش بہا ذخائر نا ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا یہ میرا گوادر کا گہرا سمندر نہیں ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔
مفلسی ضرور ہوتی پر میرے شہر کی مائیں اپنے جوان لخت جگر کے لئے پاگلوں کی طرح دربدر نہیں گھومتی میرے شہر کی شہزادیاں اس ریاست کے احمق مزاج لوگوں سے یوں طعنے وصول نہیں کرتے۔

میرے شہر کے لوگ بھی عجیب نفسیات کی مالک ہیں جن کی نگاہیں اکثر مرکز کی طرف ہوتی ہیں کے کب کوئی مسیحا آئے گا ان پر رحمت کے بادل برسائے گا۔

ویسے اس شہر میں کوئی کم مداری نہیں جو ڈھول پر ان کو نچاتے ہیں ہاں جن کو وہ چیف آف بلوچستان شیر بلوچستان کے القابات سے نوازتے ہیں اور خوب ایک دوسرے کو ان کے پیچھے گالی گلوچ دیتے ہیں۔

اور یہی شیرے بلوچستان الیکشن کے دوران بہت سے وعدے وعید کر کے ان کو ان کا بہتا ہوا خون یاد دلاتا ہے۔ ان کے دشمنوں کی نشاندہی کرا دیتا ہے۔ ان کی غائب شدہ بچوں کو واپس منظر عام پر لانے کی امیدیں بحال کر دیتا ہے۔ لیکن جیسے ہی الیکشن کمپین ختم ہوتی ہے تو وہ سیدھے جاکر ان ہی کے دشمنوں سے بغل گیر ہوتا ہے۔ اور ایسے وہ کیوں نہ کریں ان کی روزی روٹی انہیں ہی سیدھے سادھے عوام کے جذبات سے پیوست ہیں۔ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ عام عوام کو شعور آ جائے تاکہ وہ ہمارے منافقت کو سمجھ سکیں۔

جیسے ہی میدان میں ہوا کا رخ بدل جاتا ہے اسی طرح اس سرکس والی شیر بلوچستان کی چہرہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل جاتا ہے۔ وہ انقلابی ہجوم کو دیکھ کر سیخ پا ہوتا ہے اور کوشش کرتا ہے مختلف طریقہ کار سے ایک نیا میدان سجا سکیں جس سے اس کا ووٹ بینک اور آقا کا سلطنت قیام پذیر رہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.