بدنما

تحریر: غلام رسول آزاد

جب سے میں نے ہوش سنبھالنا شروع کیا ہے تو دیکھا ہر طرف بدنما داغ سا تھا مسلح لوگوں کی جبر و تشدد، قتل کرکے لاعلمی کا اظہار کرنا، مکر و فریب کرنا اور ظلم و جبر کو سخت سے سخت کرنا میرے حافظے میں محفوظ ہیں۔

میں سوچنے لگا کہ انسان کتنا وحشی ہوگیا ہے۔ تھوڑے سے ذاتی مفاد اور لالچ کی خاطر بھائی بھائ کو قتل کر ڈالتا ہے۔ بیٹا باپ کو اور ریاست لاتعداد رعایا کا خون بہا دیتا ہے۔ مگر جو ریاست مسرت بخش نہیں ہو سکتی وہ حسین نہیں ہو سکتی۔ اور جو حسین نہیں ہو سکتی وہ بے عدل، ناانصافی اور بے رحم ہی ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف ہر طرف انہی سلاخوں میں قید لوگوں کی اپنی ہی ایک داستان مبنی ہے۔ دل میں بوجھ لیے ہاتھ اٹھائے آنکھیں بھیگی ہوئی، ہونٹ کانپتے ہوئے شدت کی انتہا اور درد کی بے لذت وہ خدا سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی کی ہر اک اُداس بھری آخری سانس کے لیے ہاتھ اٹھائے آنکھیں بھیگی ہوئی خدا سے! کیا تو سن تو رہا ہے نا یہی صدائیں لگا رہے ہوتے ہیں۔

‏کبھی کبھی زندانوں میں شدید تشدد سے‏ گونگے بھی لمحے بھر کے لیئے چیخ پڑتے تھے۔ آگ ہی سے بننے والی سیاہ چادر خوفزدہ سایہ دیو کی طرح شہر پر چا گئی
ہر طرف لوگوں کی خوف زدہ آواز گونج اٹھی ،کرب کی لہروں میں ہر طرف گولوں کی ایک قائم جنگ زدہ ماحول تھا، ہر جانب زندہ باد مردہ باد کے نعرے گونج رہے تھے۔
اس کرب درد حالت سے میں ہی نہیں بلکہ پوری ایک قوم شناسا ہے۔۔
”گپ تاں من ءَ بیتّیں وَ شیھو ھیر اَت
راج سرا آپ سر اِنت چوں من بہ ننداں ایمن”

Leave a Reply

Your email address will not be published.