ریاست ہوتی ماں کے جیسی، تو بچے بے بس کبھی نا ہوتے

تحریر: ظریف رند

کسی بھی ریاست کی بنیادی زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو معیاری تعلیم دے، انکے لئے صحت کے مراکز تعمیر کرے جہاں مفت علاج ہو، شہریوں کو باعزت روزگار فراہم کرے، انکی رہائش کا انتظام یقینی بنائے اور تحفظ کے علاوہ دیگر زمہ داریاں بھی نبھائے۔ انہی بنیادی زمہ داریوں کی بناء پر ریاست کو ماں کہا گیا ہے مگر جب ہم حقیقتاً نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں اس ریاست کے اندر ایسی کوئی ایک بھی زمہ داری پورا ہوتے دکھائی نہیں دیتی ہے۔

تعلیم، صحت، روزگار، چھت اور تحفظ جیسے سب سے بنیادی ضروریات کیلئے شہریوں کی دربدری یہاں ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ والدین جو اپنی پوری زندگی بچوں کا پیٹ پالنے اور انہیں تعلیم دینے کیلئے ہزارہا مشکلات جھیلتے ہیں، انہیں صرف یہ امید ہوتی ہیکہ جو اذیتیں انہوں نے اپنی زندگی میں سہہ لی ہیں کم از کم اس کرب سے انکے بچے نا گزریں اور بہتر تعلیم کے حصول کے بعد بچے با عزت روزگار پا کر پُرسکون زندگی گزار لیں۔ مگر والدین کی ان توقعات پر ہر قدم پہ وار کیئے جاتے ہیں۔ اور یہ وار کوئی شیطان جِنّ یا دیوتا نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ماں کے درجے پر فائز ریاست کر رہی ہوتی ہے۔

بجائے اس کے کہ ریاست اپنی وجود کے جواز کو بجا ثابت کرتے ہوئے شہریوں کی بنیادی ضروریات پورا کرے، الٹا اس مملکت میں ضروریات چھیننے اور بنیادی حقوق غصب کرنے پر زیادہ زور ہے۔ اسی بناء پر بالشویک انقلابی رہنماء ولادیمیر لینن نے درست فرمایا تھا کہ؛ ریاست مسلح جھتوں پر مبنی جبر کا آلہ ہوتی ہے جو صرف حکمران طبقے کے مفادات کا دفاع کرتی ہے۔ گویا ریاست کو ماں تصور کرنے کا خیال فقط ایک سراب ہے۔

یوں تو بلوچستان میں آئے روز شہریوں کا بنیادی حقوق کیلئے آہ و زاریاں جاری رہتی ہیں۔ چاہے وہ تعلیم، صحت، روزگار، چھت، پانی، بجلی وغیرہ پر مظاہرے ہوں یا پھر گمشدہ کیئے جانے والے پیاروں کی بازیابی کیلئے لواحقین کی آہ و سسکیاں ہوں یا بدامنی و قتل و غارت اور قومی محکومی کے خلاف مزاحمت ہو، ہمہ وقت چوک و چوراہوں پر مظاہرین ضرور ملتے ہیں جو اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ ان تمام تر مشکلات کے برعکس اس وقت بلوچستان کے نوعمر بچے تعلیم کی حق تلفی پر سراپا احتجاج ہیں مگر مجال ہیکہ ریاست اور اسکے اداروں کی جانب سے کوئی سنوائی ہو۔

پاکستان میڈیکل کمیشن نے سال 2021 کے میڈیکل طلباء کیلئے آن لائن انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کیا ہے جس میں ناجائز طور پر سینکڑوں حقدار طلباء کو فیل کرکہ انکی خوابوں کا قتل کیا ہے۔ جس کے خلاف ملک بھر سے طلبہ سراپا احتجاج ہیں اور پاکستان میڈیکل کمیشن کی ٹیسٹ میں بے ضابطگیوں کے ثبوت پیش کرتے ہوئے اسے مسترد کر رہے ہیں۔

پاکستان میڈیکل کمیشن نے (ٹی،ای،پی،ایس) “ٹیپس” کے نام سے رواں سال کا ‘میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹسٹ’ آن لائن منعقد کیا ہے جوکہ مختلف ریجنز میں الگ الگ تاریخ پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کا دعویٰ ہیکہ انہوں نے پاکستان بھر کے طلبہ کیلئے ایک ہی معیار کا امتحان ڈیزائن کیا ہے جبکہ طلبہ کہتے ہیں کہ ہر مقام کا الگ الگ معیار سامنے آیا ہے۔ کہیں پر انتہائی مشکل سوالات رکھے گئے ہیں جبکہ کہیں انتہائی آسان پیپر آیا ہے۔ اور ٹسٹ میں شریک طلبہ کے مطابق آن لائن امتحان کے دوران انٹرنٹ کی بار بار بندش اور اپلیکیشن کا درست جوابات کو بار بار مسترد کرنا انتظامی ناکامی کے ثبوت تھے جس سے طلبہ کو ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ طلبہ نے سلیبس سے باہر سوالات کی نشاندہی کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل کمیشن کی بدعنوانیوں کے ثبوت بھی سوشل میڈیا پر وائرل کر دیئے ہیں۔

بلوچستان میں پاکستان میڈیکل کمیشن نے انٹری ٹیسٹ 6 ستمبر کو منعقد کیا تھا جس کے فوری بعد طلبہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ دوران ٹسٹ بجلی بھی گئی ہے اور آوٹ آف کورس سوالات، انٹرنیٹ کی سستی، اپلیکیشن کا درست جوابات کو مسترد کرنا جیسے شکایات پیش کیئے ہیں۔ مگر طلبہ کی شکایات پر کسی ادارے نے کان نہیں دھرے۔ جس کے بعد بلوچستان کے طلبہ نے 8 ستمبر کو کوئٹہ میں ایک احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا تاکہ وہ اپنی آواز کو ایوانِ اقتدار تک پہنچا دیں۔ لیکن حسبِ روایت مظاہرین کی شکایات سننے کے بجائے کوئٹہ پولیس نے طلباء پر دھاوا بول دیا، ان پر ڈنڈے برسائے اور تیس سے زائد طلباء کو گرفتار کرکہ تھانوں میں بند کر دیا۔

میڈیکل طلبہ پر پولیس کے حملے کی خبر سوشل میڈیا پر آنے کے بعد دیگر شعبہ جات سے طلبہ احتجاجی مظاہرے میں شریک ہونے آئے اور احتجاج کو دھرنے کی شکل میں تبدیل کر دیا جس پر حکومت دباؤ میں آکر طلبہ کو رہا کرنے پر مجبور ہو گئی۔

8 ستمبر کے بعد سے تا دم تحریر میڈیکل کے طلبہ کا احتجاج کوئٹہ پریس کلب کے باہر روزانہ جاری رہتا ہے جس میں انکا بنیادی مطالبہ ہیکہ اس ٹسٹ کو منسوخ کرکہ دوبارہ فزیکل ایگزام لیا جائے۔ مگر حکومت، ادارے، ریاست کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا اور نا کہیں سے طلبہ کی داد رسی ہو رہی ہے۔

اس ریاستی بے حسی کو ماں کی عظیم ممتا کے ساتھ تو کسی صورت جوڑا نہیں جا سکتا۔ یقیناً طلبہ کے پاس سوائے مزاحمت کے اور اپنی جدوجہد کو مزید وسعت دینے کے کوئی دوسرا چارہ بھی باقی نہیں رہتا۔
بلاشبہ یہ بچے اپنی اپنی میڈیکل کی نشستوں کیلئے سڑکوں پر آن پہنچے ہیں مگر ریاستی بے حسی انہیں بڑے اسباق سکھا رہی ہے اور یہ اگر بغیر میڈیکل نشستوں کے بھی واپس لوٹ چلتے ہیں تب بھی سیاسی علم سے ضرور آراستہ ہونگے اور بنیادی حقوق کو غاصب حکمرانوں سے چھیننے کا جذبہ لیکر ایک بار پھر میدان میں اتریں گے اور اپنی تقدیر بدل ڈالیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.